تحریر۔۔۔ سید انور محمود
ایک مفروضہ یہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اس وقت تک قومی اسمبلی میں نہیں آئے جب تک پیپلز پارٹی کے ساتھ ان کا مک مکا نہیں ہوگیا، کہا جارہا ہے کہ یہ مک مکا وزیر اعظم کی مرضی سےمولانا فضل الرحمان اور آصف زرداری کے درمیان ٹیلیفون پر ہوا ہے۔ نواز شریف جو پہلےمولانا فضل الرحمان سے ملاقات کرنےسے کتراتے تھے، آجکل وہ اور مولانا ایک جان دو قالب ہیں۔نوازشریف کے مطابق آجکل مسلم لیگ (ن) اورجمیت علمائے اسلام(ف)میں جو نئی پارٹنرشپ بن رہی ہے وہ دیرپاہوگی۔وزیراعظم نواز شریف اگر چاہتے تو اپنے 16 اپریل 2016ءکےقومی اسمبلی کے خطاب میں 3 اپریل سے شروع ہونے والے پناما لیکس کے بحران کو قومی اسمبلی میں حقیقت بیان کرکے ختم کرسکتے تھے، لیکن شاید انکے لیے ایسا ممکن نہیں تھا، کیونکہ پھر دبئی کی فیکٹری سے لیکر لندن کےکاروبار اور فلیٹوں تک کا حساب دینا پڑتا۔اس ہنگامے کو خود انہوں نےبڑھایا ہے، پہلے 5 اپریل اور پھر 22 اپریل کو قوم سے خطاب کیے جس کی قطعی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ ان کے 22 اپریل کے قوم سے خطاب کو قطعی طور پر ایک وزیر اعظم کے شایان شان نہیں کہا جاسکتا، بلکہ یہ خطاب لاہور کے موچی دروازئے پر کی گئی تقریر کی طرح تھا۔
وزیراعظم جب قومی اسمبلی پہنچ ہی گئے تھے توپھر پچاس سال کے دکھڑئے سنانے اور صرف عمران خان کے خلاف بولنے کی ضرورت نہیں تھی۔ چونکہ وزیر اعظم کے پاس اپنی صفائی میں کہنے کو کچھ نہیں تھا تو سارا بوجھ اپنے مرحوم والدمیاں شریف پر ڈال دیا کہ جو بھی کمایا والد نے کمایا۔ تو پھر وزیر اعظم سے عوام کو یہ سوال کرنے کا تو حق ہے کہ جناب 1973ء میں متحدہ عرب امارات میں فیکٹری لگانے کےلیے آپکے والدکےپاس سرمایہ کہاں سے آیا، ظاہرہےآپ کے والدایک بڑی رقم ملک سے باہر لے گئے ہونگے ۔ کیسے؟ کیونکہ اس زمانے میں قانونی طور پرملک سے باہر پیسہ لے جانا بہت مشکل تھا۔چلیں مان لیتے ہیں کہ یہ پیسہ آپکے والد مرحوم کا تھا تو وراثت میں تو آپکے دوسرئے بہن بھائیوں کا بھی حصہ ہوگا ، تو پھر لندن کا سارا کاروبار اور سارئے فلیٹ صرف آپکے بچوں کی ملکیت کیوں ہیں؟۔
کہتے ہیں کہ ایک کاروباری دس سیاست دانوں کے برابر ہوتا ہے۔نواز شریف نے 16 اپریل کو پاناما لیکس کے سلسلے میں قومی اسمبلی میں اپنی تقریر کے آخر ی حصے میں فرمایا کہ میں کاروبار سے سیاست میں آیا ہوں، سیاست سے کاروبارمیں نہیں، انکے اس بیان کی تصدیق جب ہوگئی جب انکی تقریر کے اختتام پر اپوزیشن لیڈرخورشید شاہ نے اپنی صرف دو منٹ کی تقریر میں یہ کہہ کر اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا کہ چونکہ وزیر اعظم نے پاناما لیکس سے متعلق اپوزیشن کے سات سوالوں کے جواب نہیں دیے اس لیے وہ واک آوٹ کررہے ہیں۔ ہونا تویہ چاہیے تھا کہ اپوزیشن وزیراعظم کو گھیرتی اور اپنی تقریروں کے زریعےنواز شریف کوباور کراتی کہ قوم انہیں ایک کرپٹ وزیراعظم سمجھتی ہے، وزیراعظم سےچیف جسٹس پاکستان کے لکھے ہوئےجواب کی روشنی میں بہت کچھ منوایا جاسکتا تھا۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے اجلاس کا بائیکاٹ کرتے ہوئےیہ بھی کہا کہ ہم ایوان میں باتیں کرکے وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے بلکہ میڈیا کے ذریعے عوام سے براہ راست مخاطب ہونا چاہتے ہیں۔ یہ سب مک مکا کا ایک حصہ تھا ورنہ خورشید شاہ کبھی بھی یہ منفی اور ناقابل قبول طرز عمل نہ اپناتے، عوام نے ووٹ دے کر ان لوگوں کو اس لئے اسمبلیوں میں بھیجا ہے کہ یہ عوامی مسائل پر ایوان میں بات کریں۔ کسی اپوزیشن لیڈر یا کسی پارلیمنٹرین کو ہرگز یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کہے کہ ایوان میں بات کرنا وقت کا ضیاع ہے۔
حکومت اور پیپلز پارٹی کے مک مکا کو اگر سب سے پہلے کوئی سمجھا تووہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) ہے، جس نے سب سے پہلے اپوزیشن کا ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ ایم کیو ایم کے اراکین نے 17 اپریل کو ہونے والے متحدہ اپوزیشن کے اجلاس میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔ وزیراعظم کے قومی اسمبلی کے خطاب کے بعد اپوزیشن کے واک آؤٹ نے جہاں سب کو حیران کیاوہاں ہی بہت سارئے سوالات نے جنم لیاکہ، کیوں پاناما لیکس پر وزیراعظم کے قومی اسمبلی میں خطاب کے بعد اپوزیشن واک آؤٹ کر گئی؟ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ صرف دو منٹ کیوں بولے؟ کیا عمران خان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا؟ کیا پیپلز پارٹی نے سیاسی طور پر اس بحران کو اپنے کنٹرول میں لےلیا؟ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے جیو نیوز کے ایک پروگرام میں بتایا کہ تحریک انصاف واک آؤٹ کی سب سے بڑی حامی تھی۔ انہوں نے کہا کہ شیریں مزاری نے میرے خطاب سے پہلے انتہائی سختی سے کہا کہ شاہ صاحب تقریر چھوٹی رکھیے گا، ہم فوراً نکل جائیں گے، ایم کیو ایم بھی واک آؤٹ کے فیصلے میں شریک تھی لیکن آج جیو نیوزکے ہی ایک پروگرام میں ایم کیو ایم کےعلی رضا عابدی نے اس بات کی تردید کی ہے ایم کیو ایم بھی واک آؤٹ کے فیصلے میں شریک تھی، ہوسکتا ہے بعد میں شریں مزاری بھی خورشید شاہ کے بیان کی تردید کریں۔
قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے اپنا کھیل جاری رکھا ہوا ہے، پیپلزپارٹی پاناما سیاست کواپنے کنٹرول میں لے چکی ہے۔ جبکہ عمران خان اور انکی پارٹی کے ممبر پچھلی صف میں کھڑے ہونے پر راضی ہوچکے ہیں۔ خورشید شاہ کی امامت قبول کرکے عمران خان نے تحریک انصاف کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ متحدہ اپوزیشن کے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ بڑی منتوں کے بعد تو وزیراعظم اسمبلی میں آئے تھے۔ ہمارا تو فورم ہی اسمبلی ہے، ہم اسمبلی سے کہاں بھاگنے والے ہیں، متحدہ اپوزیشن سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ ختم کرتی ہے۔ اٹھارہ اپریل کو اجلاس کا بائیکاٹ ختم کرکے جب اپوزیشن واپس قومی اسمبلی میں آئی تو وزیراعظم اسمبلی میں موجود نہیں تھے، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور عمران خان دونوں نےتقریریں کیں لیکن ان کی اہمیت وہ نہ رہی جو 16 اپریل کو کرنے سے ہوتی۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر کے دوران عمران خان جس طرح وزیر اعظم کی تقریر کے نوٹس لے رہے تھے اس سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ نہ صرف نواز شریف کی تقریر کا جواب دیں گے بلکہ آف شور کمپنی کے بارے میں اپنا موقف بھی پیش کریں گے۔ تاہم اُن کی یہ خواہش اس وقت دم توڑ گئی جب خورشید شاہ نے اچانک اجلاس کےبائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ عمران خان کی باڈی لینگویج سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاید وہ اپوزیشن لیڈر کے اس فیصلے کے لیے تیار نہیں تھے۔ عمران خان کی ساتھ والی نشست پر بیٹھے ہوئے شاہ محمود قریشی نے اپنی پارٹی کے قائد کو اُٹھنے کا اشارہ کیا۔ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ عمران خان اپنے اوپر لگے الز امات کا قومی اسمبلی میں جواب دینے کے لیے تیار تھے لیکن متحدہ اپوزیشن نے انہیں آج کے اجلاس میں جواب دینے سے روکا ۔خورشید شاہ کی مختصر تقریر کے اختتام کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے اراکین سمیت اپوزیشن ارکان نے واک آؤٹ کردیا، اور شاید یہ ہی وہ مرحلہ تھا جب پیپلز پارٹی نےعمران خان اور پوری تحریک انصاف کی قیادت کو ماموں بنادیا۔گویا 16 اپریل کا اجلاس پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ(ن) کا فکس میچ تھا۔