تحریک منہاج القرآن کا قیام یوں تو 1981 میں عمل میں آیا مگرسیاسی و معاشی انقلاب کیلئے پاکستان عوامی تحریک کا قیام25 مئی1989 کو عمل میں لایا گیا ۔اسکے27 واں یوم تاسیس کے دن یہ بات انتہائی مایوس کن ہے کہ آج کسی کو عوامی تحریک کا یوم تاسیس یاد نہیں اور ایک گہرا سکوت چھایا ہے ۔ شخصیت پرستی کی انتہائیہ ہے کہ 22کروڑ عوام کو آئین و قانون کا سبق پڑھانے والے طاہرالقادری کی اپنی تحریک کے منشور اور دستو ر کی ایک بھی کاپی آج دنیا بھر میں کسی منہاج القرآن کے سنٹر پر وابستگان اور عوام کے پڑھنے کیلئے دستیاب نہیں ۔اپنی برتھ ڈے کو ذوق و شوق اور پورے اہتمام سے منانیوالی قیادت جس کا یہ دعویٰ ہے کہ دنیا کے 90ممالک میں منہاج القرآن اور عوامی تحریک کا زبردست نیٹ ورک قائم ہے خود اسے او رباقی سب وابستگان کوبھی اتنا اہم دن کیا اس لئے یاد نہیںآیا کہ انکی انقلابی قیادت کے بیانات میں تضاد بیانیوں کی بھرمار ہے جس کی وجہ سے وہ ایکدوسرے کا بھی سامنا نہیں کرسکتے ۔ آج وابستگان کا قیادت پر اعتماد اٹھ جانے کی وجہ سے قیادت اپنے ہی کارکنان کے سوالات کا جواب دینے سے خائف کیوں ہے ۔ آئیے آپ کو 28سال پہلے کے فیصل آباد لے چلوجہاں27جولائی 1989 کو فیصل آباد میں ایک جلسہ عام ہورہا ہے سٹیج پر علامہ احمد علی قصوری صدر عوامی تحریک بیٹھے ہیں اور علامہ طاہر القادری اپنے جوشیلے خطاب میں عوامی تحریک کے قیام 25مئی 1989 کے دن وقت موچی دروازے میں قرآن ہاتھ میں لہراکر کئے جانیوالے اپنے تاریخی اعلان کو دہراتے ہوئے کہ رہے ہیں کہ
” ظلم کی چکی میں پسنے والے بھائیوں سن لو میں میدان سیاست میں صدارتوں وزارتوں کی حرص و حوس کو ٹھکراکرآیا ہوں ۔ رب ذوالجلال کی قسم میں تمھارے ساتھ جیوں گا تمھارے ساتھ مروں گا ۔ میں اس قوم کو قیادت فراہم کروں گا اور خود سیاست سے باہررہوں گا”علامہ طاہرالقادری نے کہا جس ملک میں ظلم انتہاء کو پہنچ جائے وہاں فقط واعظ اور تبلیغ کرنے کو دین نہیں کہتے۔ لیکن ساتھ رہنے کی قسمیں کھانے والے اپنے کسی وعدے پر قائم نہ رہے ، قیادت دینے کا وعدہ کرنیوالوں کو انکے اپنے دو صاحبزدگان کے علاوہ کوئی قیادت کے قابل نظر نہ آیا بلکہ اب تو صاحبزدگان کے بعد پوتوں کی بھی دستاربندی ہوچکی ہے۔ شاید کچھ لوگ واقف نہ ہوں کہ جب عوامی تحریک کا قیام عمل میں آگیا جدوجہد شروع ہوگئی تو میں خود اس قافلے کے ہراول دستے میں جان ومال اور وقت لگانیوالیوں کی صف اول میں 27 سال تک شامل رہا اور میں یہ سارا آنکھوں دیکھا کانوں سنا حال بیان کر رہا ہوں۔عوامی تحریک نے کیا کھویا کیا پایا اس پر آنے سے پہلے میں14 جولائی 1993ایک اہم نشست کی طرف آپ کی توجہ مبزول کروانا چاہتا ہوں جب علامہ طاہرالقادری کے دست راست مرکزی ناظم اعلیٰ،نائب ناظم اعلیٰ، صدر عوامی تحریک، پرنسپل منہاج شریعہ کالج او ر مرکزی ناظم نشرواشاعت نامور سکالر جو منہاج القرآن کے قیام سے بھی پہلے محازحریت میں آپ کے جنرل سیکرٹری تھے وہ سارے آپ کی من مانیوں اور عدم مشاورت سے تنگ آکر استعفیٰ دیکر منہاج القرآن چھوڑ گئے 1989 میں جب منور منج جیسے بدکردارقاتل شخص کوبغیر مشاورت کے ٹکٹ دیا گیا تو مرکز میں اختلافات بہت بڑھ گئے۔ اتنے اہم ساتھیوں کے چھوڑ کر چلے جانے کے بعد انکے بعد آنیوالے 2اور مرکزی ناظم اعلیٰ بھی اسی رویے کی وجہ سے دلبرادشتہ ہوکر علیحدہ ہوگئے عوامی تحریک کی پالیسیوں اور متبادل قیادت کی تیاری پرسنگین سوالات اٹھائے گئے ۔ خوابوں میں ملنے والی کامیابی کی ضمانتوں کے بعد عبرتناک شکست پراعتراضات اٹھنا شروع ہوگئے تو آپ نے سب کارکنوں کو بلاکر ایک فکری نشست کرنے کا فیصلہ کیا ۔ فیصلہ تو پہلے ہی ہوچکا تھا مگراس نشست کا مقصدعام عقیدتمند کارکنوں کا مطمعن کرنا تھا اس نشست 5 سال پہلے انتخابی سیاست کو عین ایمان قرار دینے والی قیادت نے بلآخر انتخابی سیاست سے کنارہ کش ہونے کا اعلان کردیا ۔ مجھے یاد ہے میں نے اس وقت کھڑے ہوکر اختلافی نوٹ دیا تھا کہ اگرعوامی تحریک نے اب انتخابی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی تو عوامی تحریک زیرو ہوجائے گی اور پھرپرامن جدوجہد یعنی انتخابی سیاست کے زریعے معاشی و سیاسی انقلاب کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔ مگر قیادت کب ماننے والی تھی۔ اس کے بعد مظفر وارثی سمیت اختلاف کرنے والے کئی افراد چھوڑ گئے جن پر بعد میں قیادت نے نواز پروری کا الزام لگا دیا مگر میرے سمیت اور باقی افرادکچھ افرادایسے بھی تھے جو اختلاف کے باوجود آپ کے ساتھ کھڑے ہوگئے ۔
قرآن اکیڈمی لاہور میں منعقد ہونے والی اس نشست میں مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد کی دعوت پر اسلامی انقلاب کا طریقہ کار بیان کرتے ہوئے علامہ طاہرالقادری نے انتخابی طریقہ کار اور مروجہ نظام سیاست کو زبردست تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اس راستے پر چلکر کبھی انقلاب نہیں آسکتا۔ اس نشست کا حوالہ 4وجوہات کی بناپر میں اس لیے دے رہا ہوں کہ اس نشست میں آپ نے کہا کہ دینی جماعتیں اگر 12 کروڑ کے ملک میں 10 لاکھ افراد بھی اکٹھے کرلیں تو بھی طاقت کے زور پر اقتدار حاصل کرنا ناممکن ہے او رانقلاب کے لئے کروڑوں افراد چاہیں۔ اگر اس کا خیال نہ رکھا گیا تو مسلم بن عقیل کی طرح جب آپ سلام پھیریں گے تو آپ کے پیچھے صرف آپ کے 2 بیٹے رہ جائیں گے ۔ یہاں میں یہ سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ جناب قبلہ حضور قادری صاحب جب آپ نے اذان دی تو دس لاکھ نہ سہی مگر لاکھوں غریب اور کارکنان آپ کی آواز پر جان ہتھیلی پر رکھ کر انقلاب کیلئے آگئے مگر افسوس اس موقع پرآپ کی توقع کے خلاف آپ کے اپنے دونوں بیٹے ملک سے فرار ہوگئے کارکنان نے قربانیاں دینے کی لازوال تاریخ رقم کی اور آپ کے دونوں صاحبزدگان اس وقت تک بیرون ممالک بیٹھے تماشا دیکھتے رہے جب تک دھرنا ختم نہیں ہوگیا ۔ افسوس آج وہی صاحبزادے اس تحریک کے تاحیات چئییرمین اور صدر ہیں۔ آپ نے اس نشست میں گفتگوکرتے ہوئے میں آپ نے سٹیج پر بیٹھکر ڈاکٹر اسرار احمد کیساتھ ایسی مزید نشستیں بلانے اور دوسری مزہبی و سیاسی جماعتوں کو بلاکر ٹیبل ٹاک کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر وہ وعدہ بھی آپ کے دوسرے کئی وعدوں کی طرح کبھی ایفا نہ ہوسکا۔ تاہم ۔ وقت گزرتا گیا اور پھر 1999 میں آپ کو ایک ٹاسک ملتا ہے اور آپ اس ٹاسک کی وجہ سے سرگرم ہوگئے حالات ایسے بنے کہ طیارہ سازش کیس میں جنرل مشرف نے مارشل لاء لگادیا اور وہ دن آپ کی زندگی کا ایک تاریخی دن تھا ، الارم بج گئے کہ اب کچھ ہونے والا ہے آپ کو جنرل مشرف نے اپنا مشیر بناکر عرب ممالک کے ایک دورے پر بھیجا اور کچھ کہا جس کے نتیجے میں جنرل مشرف کے ہر فیصلے کو آپ قرآن و احادیث کی تاویلات میں باندھ کر اسے سچاثابت کرنے پر تل گئے اوراسے آپ کے اشاروں پر منہاج القرآن کے سارے فقاء اسے حقیقی نجات دہندہ سمجھنے لگے ۔ ریفرنڈم میں پاکستان سے لیکر لندن اور ہیلی فیکس تک زور و شور سے منہاج القرآن نے حصہ لیا اورمیں خود اس میں پیش پیش رہا۔آپ نے اپنی قسم اور قوم سے عوامی تحریک کے قیام کے وقت کیا اٹھائی گئی قسم کہ میں قیادت دوں گا خودسیاست سے باہر رہوں گا توڑ دیا ، آپ نے قسم کا کفارہ تو بکرا ذبح کرکے اد ا کردیا گیا مگر وعدہ خلافی کی وجہ سے آپ کی عوام میں جگ ہنسائی ہوئی۔پھر جب مشرف نے آپ کو وزیراعظم بنانے کا وعدہ پورا نہ کیا تو آپ اس دلبرداشتہ ہوئے اور اسمبلی سے استعفیٰ دیکر برطانیہ اور پھر کینڈا مستقل شفٹ ہوگئے۔ اور اب اس مشرف پر آپ کا بیٹا الزام لگاتا ہے کہ اس نے قیدی بیچ کر پیسہ کمایا جس کے آپ مشیرخاص تھے۔ علامہ صاحب اس نشست میں آپ نے یہ بھی کہا تھاکہ دعوت انقلاب کا عنوان اسلامی انقلاب یا کچھ اور رکھ کر یہ امید رکھنا کہ دنیا آپ کے پیچھے چلے گی ایک بھول ہوگی اسلئے لازم ہے کہ اسلامی انقلاب کی منزل کیلئے بہترین ٹائیٹل مصطفوی ہی ہے ۔ لیکن جب آپ نے دھرنے اور الیکشن میں عوام کو کال دی تو اس سے مصطفوی انقلاب کا عنوان غائب تھا ۔ کیا یہ بھی تو ایک وجہ نہیں تھی کہ عوام کا ریلہ آپ کیساتھ چلنے سے گریزاں ہے؟ اب عوام یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ انقلاب کا دعویٰ کرنیوالی شخصیت میں توازن نہیں ، مستقل مزاجی نہیں ، وہ اپنے رفقاء سے مشاورت کرنا بھی ہیچ سمجھتی ہے اور جتنے پراجییکٹ اس نے آج تک شروع کئے ہیں ان میں سے 99% فیل ہوئے، ۔ منہاج ماڈل سٹی ، فریدملت ہسپتال، لارل ہوم سکول لاہور اور ایسے بیسیوں منصوبوں کیلئے اربوں روپیہ اکٹھا ہوا مگر وہ پیسہ کہاں گیا زمین کھا گئی آسمان کھا گیا وہ منصوبے کہاں ہیں ؟ کبھی انتخابی سیاست حرام کبھی حلال یہ کیا بچگانہ پن ہے کن بھول بلیوں میں معصوم عقیدتمندوں کو لوٹا جارہا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ آپ کا زریعہ معاش کیا ہے بچوں نے آسٹریلیا میں پراپرٹی کہاں سے خریدی، آپ کے بقول آپ کسی سے کچھ لیتے بھی نہیں اور دنیا بھر میں یہ آنی جانیاں کیا عالم ارواح سے فنڈز آتے ہیں جس سے آپ کی فیملی پر اٹھنے والے یہ کروڑوں کے سالانہ اخراجات پورے ہوتے ہیں؟ میں دنیا بھر میں منہاج القرآن کے وابستگان کے سامنے عوامی تحریک کی کارکردگی کے مصدقہ اعدادوشمار رکھ رہا ہوں اور اس کا مقابلہ انکی کزن پارٹی سے کرنے جارہا ہوں تاکہ شاید یہ بھولے لوگ کبھی سوچیں کہ ان کی اصلیت کیا ہے!
پاکستان عوامی تحریک کا قیام 25مئی 1989 کو لاہور میں عمل میں آیا اور اسکے چئیرمین ڈاکٹر طاہرالقادری منتخب ہوئے اس سے پہلے ڈاکٹر طاہر القادری میدان عمل میں تھے اور انکی مدر آرگنائزیشن یعنی ادارہ منہاج القرآن کا قیام 1981میں عمل میں آیا اور اسکا مقصد بالآخرافراد کی تربیت کرکے ایک عوامی تحریک ہی کا قیام تھا جبکہ اسکے برعکس تحریک انصاف کا قیام7 سال بعد 25 اپریل 1996کو لاہورمیں ہی عمل میں آیا ور اسکے چئیرمین عمران خان بنے
الیکشن 1990عوامی تحریک نے پورا زور لگایا مگر وہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹ بھی حاصل نہ کرسکی جبکہ اسوقت تحریک انصاف کا وجود بھی نہ تھا ۔ پاکستان میں اگلا الیکشن 2002 میں ہوا جس میں پورا زور لگاکر دونوں جماعتیں صرف ایک ہی سیٹ جیت سکیں اور وہ طاہرالقادری اور عمران خان خود تھے اس الیکشن کی خاص بات یہ ہے کہ دونوں جماعتوں کا کل ڈالے جانیوالے ووٹ کا تناسب بلکل ایک تھا یعنی 6 کا زائد عرصہ ملنے کے باوجود عمران خان نے طاہر القادری کے برابر 0.37 یعنی ایک فیصد کا بھی نصف ووٹ حاصل کئے۔ پھرالیکشن 2013 ہوئے اور اس میں عوامی تحریک نے بائیکاٹ کیا لیکن بائی الیکشن میں اس نے دھرنے کے بعد بھرپور حصہ لیا دھرنے کے بعد آج کے دن 25 مئی2016 تک تازہ صورتحال یوں ہے
تحریک انصاف: قومی اسمبلی میں سیٹ :33 صوبائی اسمبلی میں سیٹ 30پاکستان عوامی تحریک : قومی و صوبائی اسمبلی میں سیٹ : ZEROتحریک انصاف 7.5 ملین ووٹ لیکر پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی قوت بن کر سامنے آئی جبکہ پاکستان عوامی تحریک کل ملاکر 3 ہزار کے لگ بھک ووٹ حاصل کرکے شیخ الانقلاب کی ولولہ انگیز قیادت میں یہ بھی پاکستان میں پہلے نمبرپرآئی۔بشرطیکہ آخری نمبر سے گننا شروع کریں تو !!!
مقصد یہ ہے کہ جب کوئی قیادت عوام میں رہ کر عملی طورپر کام کرے تو نتائیج اسی طرح پیدا ہوتے ہیں جیسے تحریک انصاف نے نتائیج پیداکرکے دکھائے۔ اور اگر قیادت نجی محفلوں میں اپنے عقیدتمندوں کے درمیان بیٹھ کر دوسروں کو جاہل اور سادھو کہہ کر اسکا مزاق اڑاتی رہے تو پھر وہ نوبت آتی ہے کہ قیادت کو اپنی ہی تحریک کے قیام کادن مناتے بھی شرم آتی ہے اور اس تحریک کو شیخ رشید جیسے عوامی لیڈر بھی پٹے پر لینے کو تیار نہیں ہوتے ایسے میں سوال یہ ہے کہ عوامی تحریک کو چلو اسمبلی میں ایک سیٹ بھی نہیں ملی لیکن کیا عوامی تحریک پر عوامی اعتمادیعنی اسکے پاس عوامی مینڈٹ اسقدر ہے کہ وہ قیادت کے خواب دیکھ سکے؟ اعدادوشمار کے مطابق عوامی تحریک کے پاس 1990 ایک فیصدکے نصف سے کچھ کم مینڈٹ تھا جو 2016 میں کم ہوکرایک فیصد کے ایک چوتھائی کا بھی تیسرا حصہ رہ گیاہے جو انقلاب کا دعویٰ کرنیوالی کسی جماعت کے لئے باعث شرم ہے ۔میں اس پر سینکڑوں صفھات لکھ سکتا تھا مگر سر دست مقصد صرف انقلاب کے خواب دیکھنے والے معصوم عقیدمند ساتھیوں کو یہ بتانا ہے کہ کارکنوں کی ساری جدوجہد سے انقلاب صرف لیڈرشپ کی ذات میں آتا ہے اور ان مخلص ورکرز کو خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیداکر جیسے شعر سنانیوالے کی اپنی کلاس کب بدلی اسکا اندازہ ہی نہیں ہوپاتا کیونکہ عقیدت کی ٹوپی ہمیں حقیت جانچنے کا موقع ہی نہیں دیتی اور ہم اندازہ ہی نہیں کرپاتے کہ انہیں قناعت پسندی کا درس دینے والوں کی اپنی ذات میں کب اور کیسے انقلاب آیا ۔ اب سوال یہ ہے کہ جنکی کارکردگی اتنی شرمناک ہوانکے ہاتھوں انقلاب کی توقع رکھنا کیا نری حماقت نہ ہوگی؟ اگر انقلاب لانا ہے تو عوامی تحریک کو موروثیت کا طوق گلے سے اتارکر ردی کی ٹوکری میں پھینکنا ہوگا۔ صاحبزادہ سسٹم جسکی مراعات کا کوئی حساب ہے نہ چیک اینڈ بیلنس اس سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ انقلاب کیلئے اعلیٰ قیادت کو عالم رویا کے خواب سنانے اور گلہ پھاڑ پھاڑ کر تقریرں کرنے کی بجائے اپنی مراعات کا ایک پیکیج ڈکلئیرکرکے کینڈا سے پاکستان منتقل ہوکرمستقل مزاجی سے عوام میں رہ کر کام کرنے کیساتھ ساتھ خود کو اپنے رفقاء کار کے سامنے جوابدہ بنانا ہوگا جو ایک جمہوری اور اسلامی معاشرے کی ہمیشہ سے روایت رہی ہے پاکستان سے محبت او رسالہاسال تک اپنا جان و مال آپ کے کئی آخری انقلابی کال سنکر آپ کے حضور پیش کرنے والے مخلص نظریاتی لوگ اور باشعور طبقہ یہ سوال کرنے کا حق رکھتا ہے کہ جناب والا آپ اپنے دل میں یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ پاک فوج ملک میں مارشل لگاکر سب کچھ اکھاڑ پچھاڑکر آپ کی خواہش پر وہاں صدارتی نظام نافز کرکے عوام کے مینڈٹ کے بغیر وہ آپکواس لئے صدرپاکستان نامزد کرنے پر مجبور ہوگی کہ آپ شیخ الانقلاب ہیں اور آپ دھوں دار تقریر کا فن جانتے ہیں؟