مشہور زمانہ کہانی ہے کہ کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کیا کرتا تھا اور اسکے ملک میں استحصال انتہائی درجہ تک پہنچ چکا تھا جسکی وجہ سے اس ملک کا بادشاہ نہایت اضطراب کا شکار اور کسی ملک کے بادشاہ کو اپنے ملک کے دورے پر دعوت بھی نہیں دیتا تھا کہ کہیں انکو ملک میں استحصال کی صورتحال کا اندازہ ہو گیا تو اس کی عزت اور بادشاہت دونوں خاک میں مل جائے گی اسی لئے بادشاہ خود دوسرے ممالک کے دورے کیا کرتا ۔ایک دن بادشاہ اپنے معمول کے مطابق کسی ملک کے دورے پر اپنے وزراء کے ہمراہ جا رہا تھا کہ اس کا گزر ایک گاؤں سے ہوا جہاں اسکی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جوخود ایک گدھے پر آگے سوار تھا اور اسکے پیچھے گدھوں کی ایک لمبی لائن نظم و ضبط کے ساتھ چل رہی تھی اس منظر کو دیکھ کر بادشاہ نے اپنے لوگوں کو بھیجا کہ جاؤ اس شخص کو میرے پاس بلا کر لاؤ !!جب اس شخص کو بادشاہ کے پاس لایا گیا تو تعارفی باتوں کے بعد بادشاہ نے اس شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاس تمہارے لئے ایک نوکری ہے !!کیا تم کرو گے ؟؟ وہ شخص انتہائی خوشی کے ساتھ کہنے لگا کہ میں تو ایک گدھے چرانے والا مزدور ہوں میرے لئے بھلا آپ کے پاس کیا نوکری ہو سکتی ہے تو بادشاہ نے کہا کہ تمہیں آج سے اپنی سلطنت میں منصف کا منصب سونپتا ہوں میری سلطنت میں جتنے بھی فیصلے ہوں گے وہ تم کرو گے !!گویا اس شخص کو واپس بادشاہ کی سلطنت میں لایا گیا اور اسے منصف کے منصب پر بٹھا دیا گیا ۔۔۔کچھ ہی دن گزرے تو اسکے پاس جو پہلا کیس آیا وہ چوری کا تھا !جب اس چور پر چوری ثابت ہو گئی تو اس منصف نے کہا کہ اسکا ایک ہاتھ کاٹ دو !! پاس ہی کھڑے مشیر نے منصف کے کان میں کہا کہ صاحب یہ وزیر سلطنت کا خا ص آدمی ہے ! اس منصف نے کہا کہ اس چور کے دونوں ہاتھ کاٹ دو !وہ مشیر پھر سے کان میں بولا !صاحب یہ وزیر سلطنت کا خاص آدمی ہے !جس پر اس منصف نے کہا کہ پہلے اس وزیر کے ہاتھ کاٹو پھر چور کے ہاتھ کاٹ دو۔ بالکل اسی طرح اگر انصاف بلا امتیاز کیا جائے اور جرائم کا خاتمہ جڑ سے کیا جائے جیسا کہ کسی فضول اور ماحول مخالف درخت کو پتوں سے کاٹنے کی بجائے جڑ سے کاٹا جائے اور پھر سے بیج بویا جائے تو جو نیا پودا بنے گا اس سے اچھے پھل کی امید بھی کی جا سکتی ہے ۔۔۔۔آخر کب تک؟ میں نہیں تو آپ !آپ نہیں تو میں اس ماحول میں ایسے کرپٹ لوگوں کے جال میں پھنس ہی جاتے ہیں پاکستان کے آزاد ہونے کے بعد لیاقت علی خان کی وفات سے اب تک مختلف لائحہ عمل کے ذریعے پاکستان کو بہتر بنانے کی کوششیں کی گئیں لیکن کوئی نتیجہ اخذ نہیں ہوا کیونکہ اس میں اگر کوئی وجہ تھی تو وہ تعصب اور وی آئی پی کلچر تھا ۔شروع دن سے ہی اس عوام کو اس منصف جیسے حکمران کی ضرورت در پیش تھی اسی لئے پاکستان میں جمہوری دور نہایت کم ا و ر ڈکٹیٹر دور زیادہ گزرا لیکن اگر دیکھا جائے تو یہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ترقی بھی ڈکٹیٹر دور میں ہوئی ۔دُور نہیں جاتے مشرف دور ہی دیکھ لیتے ہیں جسکو اب تک بدلے کی سیاست کا سامنا ہے ۔جب مشرف نے حکومت سنبھالی اور شریف حکومت کا تختہ الٹا کر انہیں وطن بدر کیا تو اس وقت پاکستان کا ہر باشندہ آئی ایم ایف کے قرض تلے دبا ہوا تھا جب مشرف نے پاکستان کی معاشی حالت دیکھی تو آئندہ وقت میں پاکستان دیوالیہ ہوتا نظر آیا تو اس نے انتہائی حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے امریکہ سے ایسے سودا کیا کہ پاکستان کا قرض امریکہ نے اتارا ۔آج بھی اس وقت کے سیاستدان پریشان ہیں کہ جانے اس شخص نے کیا کیا کہ ہمیں بھی پتہ نہیں چلا اور پاکستان کو بھی ہمارے چنگل سے آزاد کروا لیا یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان صحیح معنوں میں اسی دن ہی آزاد ہورہا تھا جب پاکستان نے آئی ایم ایف کا قرض لوٹانا شروع کیا۔ اور کسی ملک میں جرأت نہیں تھی کہ پاکستان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھتا لیکن حیف اس بات پر کہ جیسے ہی پیپلز پارٹی کو نعش کی سیاست پر عوام نے ہمدردی سے مینڈیٹ دیا تو اس دور حکومت میں سب سے پہلے اگر کوئی کام کیا گیا تھا تو وہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کا تھا اسی طرح موجودہ دور حکومت نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور قاصہ اٹھائے ہر دم آئی ایم ایف کے گیٹ پر کھڑے ہیں کہ کب اجازت ملے اور قرض لے آئیں !!آئے روز بے جا ٹیکس ،بے جا بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے جا قرضوں کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں کرپشن کا جن بے قابو ہو گیا ہے پہلے تو یہ کرپشن کچن تک ہی محدود تھی لیکن اب یہ اس قدر بڑھ چکی ہے کہ پاکستان کی سالمیت کو خطرہ ہے کرپشن کا یہ ناسور اس قدر پھیل چکا ہے کہ اب اس کو روکنا انتہائی ضروری ہو گیا کیونکہ ہمیشہ بلیک میل وہی لوگ ہوتے ہیں جو کچھ بھی غیر قانونی کرتے ہوں شیلٹر لینے کیلئے لوگوں کو بھتے دیتے ہوں !پاکستان میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے کہ جب ان لوگوں نے کرپشن کے ذریعے بہت سا پیسہ اکٹھا کیا تو انہیں مختلف طریقوں سے بلیک میل کر کے ان سے پیسہ ہتھیایا گیا جس سے جرائم پیشہ لوگ پاور میں آئے اور دہشتگردانہ کاروائیوں کے مرتکب ہوئے ۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں موجود دہشتگرد وں کو اسی طرح مالی مدد کی جاتی ہے جیسے یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کو اغوا کرنے کے بعد پہلے فیصل آباد او ر پھر مختلف شہروں سے ہوتے ہوئے وزیرستان کے راستے افغانستان منتقل کیا گیا اور کسی قسم کی کوئی ڈیمانڈ نہیں کی گئی تھی سوائے ساتھیوں کی رہائی کے ؟؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایسے تو کسی بھی تجارت پیشہ شخص کو دھمکی لگا کر یہ لوگ کافی پیسہ اکٹھا کرتے ہونگے جو دہشتگردانہ سرگرمیوں میں خرچ ہوتے ہیں ؟؟ذرائع سے معلوم ہو ا ہے کہ پاکستان میں ایسے سیاستدانوں کی ایک لسٹ بنائی جا چکی جو ملک کا پیسہ خرد برد کرتے ہیں اور پھر اسی پیسہ سے بیرون ملک جائیدادیں بناتے ہیں جس پر کام ہو رہا اور وہ دن دور نہیں جب ان لوگوں کے چہرے بے نقاب کر کے عوام کے سامنے لائیں جائیں گے اور انہیں کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا پاناما پیپرز میں آنے والی مشہور ہستیوں کے چہرے بھی اب عوام سے ڈھکے چھپے نہیں اور ان کی وجہ سے تحقیقات کے دوران دیگر مگر مچھ بھی پھنس جائیں گے اگر پاکستان کی سلامتی چاہئے تو یہ ضروری ہو چکا ہے کہ جتنے بھی کرپٹ سیاستدان ہیں ان کو پکڑا جائے اور پاکستانی آئین و قانون میں ایک نئی ترمیم کی جائے جس میں کرپشن کی سزا موت رکھی جائے جیسا کہ چین میں ہے کہ کرپشن چاہے ایک روپے کی کیوں نہ ہو کرنے والے کو سزائے موت بلا امتیاز دی جاتی ہے ۔راستہ تو ہر طرف ہی صاف ہی دکھائی دیتا ہے مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تبدیلی ہمیشہ اوپر سے ہی آتی ہے عوام چاہے لاکھ دھرنے دے لے جب تک اقتدار اور طاقت ور لوگ ساتھ نہیں دیتے اس وقت تک پاکستان میں استحکام بہت مشکل نظر آتا ہے اِس وقت پاکستان میں ایک ایسے منصف کی ضرورت ہے جسکے پاس گدھوں کو نظم و ضبط سکھانے کا فن ہو جو تعصبانہ رویے سے پاک ہو محب وطن پاکستانی ہوتاکہ اس وقت جو پاکستان کا معیاری گراف دنیا کے سامنے گر رہا ہے وہ پھر سے اوپر آ جائے اور ہمارا ملک ہمیشہ اپنی آب و تاب اور شان و شوکت سے بر ا جمان رہے ۔