ماہ رمضان کی آمد آمد ہے،اہل اسلام کو رمضان المبار کی ساعتین اور خوشیان مبارک ہوں،اللہ کریم سورۃ الحشر میں فرماتے ہیں”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر شخص کو جائزہ لینا چاہئے کہ وہ آنے والے کل کے لئے کیا تیار کر رکھا ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو!یقیناًاللہ تعالی جانتاہے جو کچھ تم کرتے ہو”جب دنیا کے کاموں کے لئے منصوبہ بندی کی جارہی ہے، عصری تعلیم، بزنس، سیکورٹی اور دیگر دنیوی امور کے لئے منصوبہ بندی کی جارہی ہے تو اخروی معاملات اور دینی امور کے لئے اور زیادہ اہتمام کیا جانا چاہئے، اللہ تعالی کی جانب سے کوئی نعمت مل رہی ہوتو اس کی قدر دانی کے لئے پہلے سے پلاننگ ہونی چاہئے، اس کے لئے پہلے سے منصوبہ بندی ہونی چاہئے۔ماہ رمضان کیسے گزارنا چاہیے اس بارے میں اسلامی تعلیمات رہنمائی کیلئے کافی ہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ماہ رمضان المبارک کی آمد سے قبل اس کی عظمت وشان آشکار کی ہے، آمد رمضان سے پہلے اس کے فضائل سے متعلق خطبے ارشاد فرمائے ہیں، استقبال رمضان سے متعلق بنیادی طورپر تین روایتیں ہیں، جواستقبال رمضان کے عنوان پر تین بلیغ خطبوں کی حیثیت رکھتی ہیں،ماہ رمضان کی آمد سے پہلے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام علیہم الرضوان کو اس کی آمد کی خوشخبری سناتے، جیساکہ مسند امام احمد میں حدیث پاک ہے:سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا”حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کو خوشخبری سناتے ہوئے ارشادفرمایا،تمہارے پاس ماہ رمضان کی آمد آمد ہے، یہ ایک برکت والامہینہ ہے۔ اللہ تعالی نے تم پر اس کے روزے فرض کئے ہیں، اس میں جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند کئے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کیا جاتاہے، اس مہینہ میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو شخص اُس رات کی بھلائی سے محروم رہا تو حقیقت میں وہ محروم رہ گیا،ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی جنت کے دروازوں کا کھولا جانا بتلارہاہے کہ جو لوگ ماہ رمضان میں نیکیاں کریں گے اُن کے لئے جنت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، جنت میں داخلہ اُن کے لئے طے ہے، جنت اپنی تمام نعمتوں کے ساتھ اُن کا انتظار کر رہی ہے، اور رمضان کی آمد پر دوزخ کے دروازوں کا بندکیاجانا،اشارہ دے رہاہے کہ اس ماہ مبارک میں نیک عمل کرنے والوں کے لئے دوزخ کے دروازے بندہیں، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایاب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے شیاطین اور سرکش جنات بیڑیوں میں جکڑدئے جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند کئے جاتے ہیں، پھر اُس کا کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا، اور جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں، پھر اُس کا کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، اور ایک ندا دینے والا ہررات ندا دیتاہے:اے نیکی کو چاہنے والے!نیکی کرگزر، اور اے بدی کو چاہنے والے!بدی سے باز آجا، اللہ تعالی کے دوزخ سے آزاد کئے ہوئے کئی بندے ہوتے ہیں، رحمتوں کا یہ سلسلہ ہررات جاری رہتاہے ماہ رمضان میں اللہ تعالی کی جانب سے خصوصی طور پرظاہری و باطنی ماحول کو نیکیوں کے لئے سازگار بنادیا جاتاہے، ہر اعتبار سے بندہ کے لئے نیکی آسان کردی جاتی ہے اور برائی کے اسباب کو نہایت کم کیا جاتاہے، شیطان مقید ہوتاہے، نفس،روزہ کے ذریعہ قابو میں رہتاہے، ہرطرف بھلائی کرنے کے لئے ماحول آسان سے آسان کیا جاتاہے۔ اس نعمت سے ہمیں استفادہ کرناچاہئے، اس کی قدر شناسی اور قدردانی کرنی چاہئے ،کسی بات کو بیان کرنے کے مختلف انداز ہوتے ہیں، بات سادہ انداز میں کہی جاتی ہے، اس کے بجائے تاکید کے ساتھ کہی جائے تو اس کی اہمیت معلوم ہوتی ہے اور اگر بیان کرنے سے پہلے تمہیدلائی جائے تو بیان کی جانے والی بات کی غیرمعمولی اہمیت واضح ہوتی ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماہ رمضان کے بارے میں تمہید کے ساتھ بیان فرماکر اس کی غیر معمولی اہمیت کو ظاہر فرمایا،حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایاایک(آنے والا) تمہارے سامنے آرہاہے اورتم اُس کااستقبال کروگے۔یہ جملہ تین مرتبہ ارشادفرمایا۔حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!کیاکوئی وحی نازل ہوئی؟ فرمایا:نہیں،عرض کی:کیا کوئی دشمن آیاہے؟ فرمایا:نہیں!عرض کی!توپھر کیا واقعہ پیش ہونے والا ہے؟ارشاد فرمایا(ماہ رمضان کی آمدآمدہے)یقیناًاللہ تعالی ماہ رمضان کی پہلی رات اس قبلہ کوماننے والے تمام اہل ایمان کی مغفرت فرمادیتاہے،حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرماتے وقت اپنے دست مبارک سے قبلہ کی جانب اشارہ فرمایارمضان کا مہینہ ابھی شروع نہیں ہوا، آمد رمضان سے قبل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو اہمیت دے کر بیان فرمایا، اس کی عظمت آشکار فرمائی، اس کے بارے میں مغفرت کا مژدہ سنایا، تاکہ اہل ایمان ماہ رمضان کی آمد سے پہلے تیاری کرلیں، اس قدر اہمیت کے ساتھ بیان فرمایاکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وحی نازل ہونے کا گمان کیا، دشمن کے حملہ کااندیشہ کیا، اس سے معلوم ہوتاہے کہ ماہ رمضان سے پہلے ایک مہم کے طورپر اس کے استقبال کی تیاری کرنی چاہئے، اس کے لمحہ لمحہ سے استفادہ کرنے کے لئے ذہنی وفکری طورپر، علمی وعملی طورپر اورمعاشی ومعاشرتی طورپر تیار رہنا چاہئے، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ نے فرمایاحضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام جب ماہ شعبان کا چاند دیکھتے تو قرآن شریف کو سینہ سے لگائے رہتے اور تلاوت میں مصروف رہتے، مسلمان اپنے اموال کی زکوۃ نکالتے تاکہ کمزور اور مسکین اس کو حاصل کرکے ماہ رمضان کے روزے رکھنے کی قوت حاصل کرے،حکام و ذمہ داران، قیدیوں کو طلب کرتے اور ان میں جوحدشرعی کے مستحق تھے، ان پر حد جاری کرتے، ورنہ ان کورہاکردیتے،تاجر حضرات اپنے ذمہ جو حقوق ہیں انہیں ادا کردیتے اور جو چیزیں وصول طلب تھیں انہیں حاصل کرلیتے یہاں تک کہ جب رمضان کاچانددیکھ لیتے تو غسل کرکے یکسوئی کے ساتھ عبادت میں مشغول ہوجاتے مذکورہ روایت سے واضح طورپر معلوم ہوتاہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان ماہ شعبان میں ہرسطح پر ماہ رمضان کی تیاری کرتے، عملی اعتبار سے تیاری کے لئے تلاوت قرآن کا خصوصی اہتمام کرتے، معاشی سطح پر تیاری کرتے ہوئے لین دین کے معاملات کی تکمیل کرتے، اپنے ذمہ جو حقوق باقی ہیں انہیں ادا کرتے، وصول طلب رقوم حاصل کرتے، سماجی سطح پر تیاری کرتے، یہ بزرگ حضرات اپنی تیاری کے ساتھ ساتھ دوسروں کی تیاری کا لحاظ رکھتے، شعبان میں مال کی زکوٰۃ نکالتے، تاکہ تنگدست افراد، روزہ رکھنے کے لئے زکوٰۃ کی رقوم کے ذریعہ تیاری کرلیں، جن قیدیوں سے متعلق شرعی سزائیں نہیں،انہیں رہا کرتے تاکہ وہ بھی ماہ رمضان کی تیاری کرلیں، ہرطرح سے تیاری کرنے کے بعد جب ماہ رمضان کا چاند دیکھتے تو ہمہ تن متوجہ ہوجاتے، مکمل اہتمام کے ساتھ غسل کرکے ہمہ تن عبادت میں مشغول ہوجاتے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماہ رمضان کی فضیلت،روزوں کی فرضیت، تراویح کی اہمیت اورشب قدر کی افضلیت پرمشتمل ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا،یہ استقبال رمضان کے عنوان پر طویل ترین خطبہ ہے،جس کی روایت امام بیہقی نے شعب الایمان میں کی ہے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کے آخر ی دن ہم سے خطبہ ارشاد فرمایا، اے لوگو!تم پر ایک عظمت والا مہینہ سایہ فگن ہوچکاہے، وہ برکت والا مہینہ ہے،وہ ایسا مہینہ ہے جس میں ایک عظیم رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اللہ تعالی نے اس کے روزوں کو فرض قرار دیا اور رات میں قیام کرنے کو نفل قراردیا، اس مہینہ میں جس شخص نے نفل عمل کیا وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے دوسرے مہینہ میں فرض اداکیا اور جس شخص نے اس میں ایک فرض ادا کیا وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے دوسرے مہینہ میں ستر(70) فرائض ادا کئے۔اوروہ صبرکا مہینہ ہے اور صبرکا ثواب جنت ہے اور غمخواری کا مہینہ ہے، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں مؤمن کا رزق بڑھادیا جاتاہے، اس مہینہ میں جس نے ایک روزہ دار کو افطار کروایا وہ اس کے گناہوں کی بخشش اور دوزخ سے اس کی گردن کی آزادی کا سبب ہے اور اس کے لئے روزہ دار کے ثواب کے برابر اجر وثواب ہے، روزہ دار کے ثواب میں کمی کئے بغیر ہم نے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!ہم میں سے ہر شخص وہ نہیں پاتا جس کے ذریعہ وہ روزہ دار کو افطار کروائے،تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالی یہ ثواب اس شخص کوبھی دیتا ہے جس نے کسی روزہ دار کو دودھ کے گھونٹ یا ایک کھجوریا پانی کے گھونٹ پر افطار کروایا اور جو شخص کسی روزہ دار کو شکم سیر کرتا ہے اللہ تعالی اس کو میرے حوض سے ایسا گھونٹ پلائے گا کہ وہ پیاسانہ ہوگا یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے، اور یہ ایسا مہینہ ہے جس کا ابتدائی حصہ رحمت کاہے، درمیانی حصہ مغفرت کاہے اور آخری حصہ دوزخ سے آزادی کاہے اور جوشخص اس مہینہ میں اپنے غلام سے بوجھ کوکم کرے اللہ تعالی اس کی مغفرت فرمائے گا اور اس کو دوزخ سے آزادفرمادے گا۔