تنخواہ اور پنشن میں دس فیصد اضافے کی تجویز
بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے سولہ سو پچھتر ارب روپے مختص، بارہ سو پچاس ارب روپے کا خسارہ،
قرضوں کی ادائیگی کیلئے سولہ سو اور دفاع کیلئے نو سو ارب رکھنے کی تجویز،
سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پنشن میں دس فیصد اضافے کی تجویز
3 سال میں معیشت کو درپیش خطرات ٹل چکے ہیں، ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا اور اکنامک انڈیکیٹر ہماری معاشی کاکردگی کی عکاس ہیں،
کپاس کی پیداوار میں کمی کہ وجہ سے معیشت میں کمی آئی، معاشی ترقی کی بحالی سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ نہیں ہوا،
مالی خسارہ کم ہوکر 4.3 فیصد پر لایا جارہا ہے ٹیکس میں جی ڈی پی کی شرح بڑھ چکی ہے، شرح سود 40 سال کی کم ترین سطح 5.75 فیصد پر آ گئی ہے اور برآمدات 32.7 ارب ڈالر رہی، روپے کی قدر کئی سالوں سے مستحکم سطح پر موجود ہے،
ملک کے زرمبادلہ ذخائر 21 ارب 60 کروڑ کی ریکارڈ سطح پر ہیں ،
پاکستان کے جون 2014ء تک دیوالیہ ہونے کی پیش گوئیاں کرنے والے ناکام ہو گئے اور ہم نے ملک کو ناصرف دیوالیہ ہونے سے بچایا بلکہ معیشت کو مستحکم کیا اور آج بین الاقوامی ادارے پاکستان کا نام عزت و وقار سے لے رہے ہیں؛
قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا تقریب سے خطاب
اسلام آباد (یو این پی) قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وفاقی بجٹ پیش کر دیا۔ بجٹ تقریر میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا 3 سال میں معیشت کو درپیش خطرات ٹل چکے ہیں۔ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا اور اکنامک انڈیکیٹر ہماری معاشی کاکردگی کی عکاس ہیں۔ کپاس کی پیداوار میں کمی کہ وجہ سے معیشت میں کمی آئی۔ معاشی ترقی کی بحالی سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ نہیں ہوا۔یواین پی کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) جون 2013ء میں درپیش معاشی چیلنجز کو یاد کرتے ہیں اور گزشتہ تین سال میں ہم نے وزیراعغظم کی قیادت میں جو سفر طے کیا اس کو دیکھتے ہیں تو اللہ کی رحمتوں کا بے حد ادا کرتے ہیں جو اس نے ہم پر کیں۔ الحمد اللہ معیشت کو درپیشی خطرات ٹل چکے ہیں اور ملک استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ پاکستان کے جون 2014ء تک دیوالیہ ہونے کی پیش گوئیاں کرنے والے ناکام ہو گئے اور ہم نے ملک کو ناصرف دیوالیہ ہونے سے بچایا بلکہ معیشت کو مستحکم کیا اور آج بین الاقوامی ادارے پاکستان کا نام عزت و وقار سے لے رہے ہیں۔جناب سپیکر ہم نے معاشی چلینجز کے مقابلے کیلئے 2013 ء کے عام انتخابات سے پہلے ایک واضح حکمت عملی تیار کی جس کا اعلان ہمارے منشور میں کیا گیا اور جس کی بنیاد پر ہم نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اللہ تعالیٰ نے آج اس ملک کا چوتھا بجٹ پیش کرنے کی توفیق عطاء فرمائی ہے اور ہر بجٹ میں ہماری کارکردگی پچھلے سال سے بہتر رہی ہے ا اور تمام اقتصادی اعشارئیے اس دعوے کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس معزز ایوان کے سامنے گزشتہ سال 9 سے 10 مہینے کے معاشی کارکردگی کی بنیاد پر مکمل مالی سال 2015۔16 ء کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے جون 2013ء میں پائی جانے والی صورتحال سے موجودہ معاشی حالت کا موازنہ پیش کرتا ہوں۔معاشی ترقی۔۔گزشتہ سال ترقی کی شرح کئی سالوں کے بعد 4 فیصد سے اوپر رہنے کے بعد رواں مالی سال 2015۔16ء میں معاشی ترقی کا تخمینہ 4.71 فیصد ہے جو کہ پچھلے آٹھ سال میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ کارکردگی مزید بہتر ہوتی اگر کپاس کی فصل میں اس سال 28 فیصد تک نقصان نہ ہوتا جس کی وجہ سے قومی پیداوار میں آدھے فیصد کمی واقع ہوئی۔فی کس آمدن۔۔مالی سال 2013۔14 میں میں 1334 ڈالر پر کیپٹل انکم 2015۔16 ء میں بڑھ کر 1561 ڈالر ہو گئی۔ ڈالر زمیں یہ اضافہ 17 فیصد جبکہ روپوں میں یہ اضافہ 14 فیصد ہے۔مہنگائی کی شرح۔۔2008۔13 کی اوسطاً 20 فیصد افراط زر کے مقابلے میں مالی سال 2012۔13 میں 4.7 فیصد تھی اور مالی سال 2015۔16ء4 میں جولائی سے مئی کے عرصے کے دوران افراط زر کی اوسط شرح 12.82 فیصد ریکارڈ کی گئی جو پچھلے دس سالوں میں مہنگائی کی کم ترین شرح ہے۔ اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ معاشی ترقی ناصرف بحال ہوئی بلکہ اس کے ساتھ مہنگائی میں بے پناہ اضافہ بھی ہوا ہے۔ٹیکسوں کی وصولی۔۔مالی سال 2012۔13ء میں 3.38 فیصد اضافے کے ساتھ اس ملک کے ٹیکسز کی وصولی 1940 ارب تھی جو موجودہ مالی سال 2015۔16 میں 3104 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے ان کی اب تک وصولیوں کی بنیاد پر نظر آ رہا ہے کہ جون کے اختتام تک انشاء اللہ یہ ٹارگٹ پورا ہو جائے گا۔ اس طرح تین سالوں میں ٹیکسز کی وصولی میں ساٹھ فیصد کا اضافہ ہو گا جو تاریخی ہیٹیکس جو جی ڈی پی کی شرح جو 2012۔13ء میں 8.5 فیصد تھی بڑھ کر 10.5 فیصد ہو گئی ہے۔ فزیکل ڈیفیزیٹ جو 12۔13 میں 8.2 فیصد تھا تین سال میں اس کو بتدریج کم کر کے 4.3 فیصد کیا جا رہا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کریڈٹ جو مالی سال 12۔13میں منفی 19 ارب تھا وہ مئی 2016ء تک رواں مالی سال میں 312 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔سٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ جو 2013 میں 9.5 فیصد تھا مئی 2016تک کم ہو کر 5.75 آ چکا ہے جو کہ 40 سال میں کم ترین شرح ہے۔برآمدات۔۔مالی سال 2012۔13ء میں جولائی تا اپریل میں ساڑھے بیس ارب ڈالر تھی جو مالی سال 2015۔16ء4 کے اسی عرصے میں 11 فیصد کمی کے ساتھ 18.2 ارب ڈالر رہی۔ برآمدات میں ہونے والی کمی کی بڑی وجہ ’’ڈیکلائنڈ ان گلوبل کموڈیٹی پرائسز ہیں‘‘۔برآمدات۔۔برآمدات جولائی اپریل 2012۔13ء میں 33 ارب ڈالر تھی جو 2015۔16ء کے اسی عرصہ میں 32.7 ارب ڈالر رہی۔ تیل درآمد کی مد میں 40 فیصد بچت ہوئی لیکن ہم نے اس کو مشینری اور صنعتی خام تیل کی درآمد میں استعمال کیا جس کی بناء4 پر معاشی ترقی میں مزید بہتری آئے گی۔ پچھلے تین سال میں مشینری کی درآمدات میں چالیس فیصد اضافہ ہوا جس سے پتہ چلتا ہے کہ سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔غیر ملکی لمٹینسز۔۔جولائی 2012۔13ء میں 11.6 ارب کے مقابلے میں اسی دورانیے میں 16 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں اور اس کا رواں مالی سال جون 2016ء تک 19 ارب ڈالر ہے جس کی امید ہے کہ پورا ہو گااور اس کیلئے ہم سمندر پار اپنے بہن بھائیوں کی کاوشوں کی شکریہ ادا کرتے ہیں۔شرح مبادلہ۔۔گزشتہ تین سالوں میں ایکسچینج ریٹ مستحکم رہا۔ جون 2013ء میں یہ 99.66 روپے فی ڈالر کے مقابلے میں اس وقت موجودہ شرح 104 روپے 70 پیسے فی ڈالر ہے۔ پاکستان جیسی معیشت میں شرح مبادلہ کو کلیدی حیثیت حاصل ہے کیونکہ یہ تمام گلوبل انڈیکیٹرز پر اثرانداز ہوتی ہے اس طرح کا استحکام پچھلے کئی برس میں دیکھنے میں نہیں آیا اور اس سے لوگوں کو معیشت پر اعتماد بحال ہوا ہے۔زرمبادلہ رکے ذخائر۔۔جون 2013ء میں سٹیٹ بینک کے پاس صرف 6 ارب ڈالر تھے جو فوری واجب الادا رقوم کے بعد فروری 2014 میں 2.8 ارب ڈالر کی تشویشناک حد تک گر چکے تھے۔ یہی 2.8 ارب تیس مئی 2016تک بڑھ کر 16.8 ارب ڈالر ہو چکے ہیں جبکہ کمرشل بینکوں کے پاس موجود 4.8 ارب ڈالر جب ان ذخائر میں شامل کر لیں تو پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 21.6 ارب ڈالر پر پہنچ کر ایک نیا تاریخی ریکارڈ کر چکے ہیں۔ اس طرح حکومت نے ملکی معیشت کو بیرونی اتارچڑھاؤ سے بڑی حد تک محفو ظ کر لیا ہے۔کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ۔۔پچھلے تین سالوں میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پچھلے اوسطاً مجموعی قومی پیداوار کے ایک فیصد کے برابر رکھا گیا ہے۔سٹاک ایکسچینج۔۔11 مئی 2013 کو 19 ہزار 916 کی سطح پر انڈیکس تھا جو 36000 سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس عرصے میں مارکیٹ کیپٹلائزیشن 5.049 ٹریلین روپے سے بڑھ کر 7.391 ٹریلین اور 21.3 ارب ڈالر سے بڑھ کر 70.5 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیپچھلے 15 سال سے لاہور، کراچی اور اسلام آباد سٹاک ایکسچینجز کا پینڈنگ مرجر 11 جنوری 2016ء4 کو مکمل کر لیا گیا ہے اور یہ توقع کی جا رہی ہے کہ عنقریب پاکستان سٹاک ایکسچینج ابھرتی ہوئی مارکیٹ میں شامل ہو جائے گا۔ اس مختصر سے جائز ے سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان نے ناصرف ٹھوس بنیادوں پر معاشی استحکام حاصل کیا ہے بلکہ ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہو گیا ہے۔عالمی ماہرین اقتصادیات، اہم اقتصادی جریدوں اور بین الاقوامی اداروں نے پاکستان کی اس کارکردگی کو سراہا ہے۔ اللہ کے کرم سے ہم اس معاشی ترزقی کے سفر کو مزید تین کرنے کیلئے کام کر رہے ہیں جس کا عکس اس بجٹ میں نظر آئے گا۔بجٹ حکمت عملی کے اہم عناصر۔۔مالی خسارے میں کمی 16۔17 میں مالی خسارے کو 4.3 فیصد سے کم کر کے 3.8 فیصد کیا جائے گا۔ مالیاتی نظم و ضبط میں بہتری، ہم مالیاتی خسارے میں کمی سے حاصل ہونے والے فوائد کو انشاء اللہ مزید بڑھائیں گے۔ مالی سال 2017ء میں مالیاتی خسارے کو 4.3 سے کم کر کے 3.8 فیصد کرنے کے بعد فزیکل ریسپونسٹیبلٹی اور ڈیبٹ لمٹیشن ایکٹ 2005ء میں ترمیم کے ذریعے ہم مالیاتی انتظام میں دو ہم اصلاحات تجویز کر رہے ہیں۔اس سلسلے میں ایک تو وفاقی حکومت کے مالیاتی خسارے کی حد مقرر کی جا رہی ہے۔ 17۔18 سے وفاقی خسارہ جی ڈی پی کا چار فیصد تک کم کیا جائے گا اور آئندہ برسوں میں اس کی حد ساڑھے تین فیصد ہو گی۔ علاوہ ازیں پبلک ڈیبٹ مجموعی قومی پیداوار کی شرح کو جو اس وقت ساٹھ فیصد تک ہے اس کو دو سال میں ساٹھ فیصد تک لانے کے بعد یہ تجویز ہے کہ آئندہ پندرہ سال میں بطور قوم ہم اس کو چیلنج کے طور پر لیں گے کہ اسے 2018سے 2033 اور 2034 تک ہم اسے 50 فیصد تک لے کر آئیں۔ٹیکس محصولات میں اضافہ۔۔تقریر کے دوسرے حصے میں میں ٹیکس سفارشات بیان کروں گا تاہم اس موقع پر واضح کرتا چلوں کہ مالیاتی خسارے میں مجوزہ کمی ٹیکس محصولات میں بہتری اور اخراجات میں نظم و ضبط لانے سے ہی بہتر ہو گی۔توانائی پر مسلسل توجہ۔۔توانائی کا شعبہ شروع ہی سے ہماری حکومت کی ترجیحات میں شامل رہا ہے۔ جون 2013ء4 میں ملک کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا تھا۔ ہم نے اس بحران سے مستقل بنیادوں پر نمٹنے کیلئے ٹھوس حکمت عملی بنائی۔ جس سے لوڈشیڈنگ میں واضح کمی ہوئی اور اب لوڈشیڈنگ ایک باضابطہ نظام کے مطابق ہو رہی ہے۔ وزیراعظم کی سربراہی میں قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے بنائے ہوئے منصوبے پر عملدرامد کے باعث مارچ 2018تک دس ہزار میگاواٹ سے زیادہ اضافی بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہو گی۔