پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کی نگرانی میں ہزارہ کالمسٹ کونسل کے زیر اہتمام حال ہی میں نوجون لکھاریوں کے مابین ایک تحریری مقابلے بعنوان”نسل نو کی تعمیر شخصیت مگر کیسے؟؟”کا انعقاد کیا گیا تھا،مقابلے میں15نوجوان لکھاریوں نے ہزارہ بھر سے حصہ لیا،تمام لکھاریوں نے اپنی صلاحیتوں کا اپنی تحریر میں بھرپور اظہار کیا ،تین رکنی ججز کمیٹی نے لکھاریوں کی تحاریر پر اول دوئم اور سوئم ایوارڈز کیلئے اپنا مشترکہ فیصلہ جاری کیا جس کی رُو سے مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان قلمکار خواجہ وجاہت صدیقی کی اسی تحریر کو تھرڈ پوزیشن کے ایوارڈ کیلئے نامزد کیا گیا تھا( راشد علی راشد اعوان سیکرٹری اطلاعات پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ خیبر پختونخواہ)۔
نسل نو کی تعمیر شخصیت مگر کیسے ؟؟یہ عنوان ہے ہزارہ کالمسٹ کونسل کے زیر اہتمام منعقدہ نوجوان لکھاریوں کے مابین مقابلے کا،اس حوالے سے ہزارہ کالمسٹ کونسل سے وابستہ ممبران نوجوان لکھاریوں نے لکھا بھی ہے اور اپنی آراء کیساتھ اس اہم موضوع پر اپنا نکتہ نظر بھی بیان کیا ہے،نسل نو کی تعمیر شخصیت کے حوالے سے بہت سے عوامل کارفرما ہیں ،کیونکہ نوجوان نسل کی مثال ایک ایسی نوخیز ٹہنی کی طرح ہوتی ہے جسے ہم جس رُخ کو چاہیں موڑ سکتے ہیں،وہ آسانی سے وہی رُخ اختیار کر لیتی ہے،کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں نوجوان نسل کا اہم رول ہوتا ہے،ہم کسی بھی ملک اور معاشرے کی تاریخ اٹھا کر دیکھتے ہیں تو ہمیں نوجوان نسل کا کردار واضح نظر آتا ہے،شخصیت کا مطلب ذاتی خصوصیات اور کردار کا ہے،ذاتی خصوصیات یا کردار اہل و عیال سے لیکر معاشرے اور آنے والی نسلوں تک اثر انداز ہوتا ہے،شخصیت کے بناؤ سنگھار یعنی( تعمیر) کا انحصار تربیت پر ہے اور تربیت کیلئے پہلی درسگاہ ماں کی کوکھ ہوتی ہے،ماں یعنی عورت کو حضرت علامہ اقبال ؒ نے اپنے مصرے”وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ”میں عورت کا مقام واضح کیا ہے۔معاشرے کی تعمیرو تشکیل میں عورت ایک خاص مقام رکھتی ہے،بہترین ماں باوقار بہن،ہم قدم شریک سفر،ڈاکٹر ،نرس،وکیل،فرض شناس پولیس آفیسر،قابل معلمہ اور محب الوطن مفید شہری کی حیثیت سے معاشرتی تعمیر و ترقی میں اہم کردار نبھا رہی ہے۔عورت نے اپنی بے مثال ذہانت،مضبوط قوت ارادی اور علم و دانش کی بنیاد پر عظیم کارناموں کی تاریخ رقم کی ہے اور ناقابل فراموش تاریخی مقام حاصل کیا ہے،عورت ہر سماجی پہلو استحکام نسل نو کی کردار سازی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے،آئندہ نسلوں کی ترقی اور نشونما کی بنیاد عورت ہی کے دم سے ہے،عورت کے معاشرتی کردار کی مختلف صورتیں ہیں،مثلاً گھریلو ذمہ داری ،نسل نو کی شخصیت کی تعمیر،خوش مزاج میزبان،سماجی رسوم و تہوار میں کردار سازی،تعلیمی کردار ،اقتصادی کردار،تہذیبی و ثقافتی کردار،مذہبی کردار وغیرہ،اس پاکیزہ ہستی کا مثبت و مضبوط معاشرتی کردار انفرادی و اجتماعی اور عالمی استحکام کی ضمانت ہے،الغرض ممکن ہے بقائے حیات ومعاشرے کاقیام عورت ہی کے سبب ہے،مگر صد افسوس کی صنف نازک کی اس اہمیت سے چشم پوشی برت کر اسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے،جبکہ ترقی یافتہ معاشروں میں پڑھی لکھی خواتین ملکی ترقی میں اپنا مؤثر کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں ،کہا جاتا ہے کہ عورت کی تعلیم پورے خاندان کی تعلیم مذہبی اعتبار سے بھی اور معاشرتی اعتبار سے بھی نسل نو کی تعمیر شخصیت میں اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے،جبکہ ہمارے ملک میں عورت کی تعلیم وتربیت پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی،سکول نہ جانے والے بچوں میں 40فیصد لڑکیاں ہیں،لڑکیوں کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم سے بھی آراستہ کیا جا نا چاہیے،کیونکہ زندگی حقوق وفرائض کا مجموعہ ہے ،جب عورت دین و دنیا کو برابر فوقیت نہیں دے گی تب تک اس کی سوچ میں وسعت کا عنصر شامل نہیں ہو گا،اسلام کی بے مثال انقلابی تعلیمات سے نبی اکرمﷺکوایسے جانثار پیروکاروں کی ایک جماعت میسر آئی جس نے آپﷺسے محبت اور تعلق کا حق ادا کیا اور آپﷺکے مشن کو آگے بڑھایا ،پیغمبر اسلامﷺکو جو قوم میسر آئی وہ جانبازی وجانثاری میں قدسی صفات،اعلیٰ انسانی و اخلاقی بلند کرداری اور شاندار فطری صلاحیتوں میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی،اسلام کی آفاقی تعلیمات نے شخصیت کی تعمیر اور کردار سازی میں جو انقلابی رول ادا کیا ہے وہ تاریخ کے ہر دور کا نمایاں باب رہا ہے،اسلام نے خدا جانے کتنے لوگوں کی کایا پلٹ دی اور نہ جانے کتنے دلوں میں ہلچل مچا دی،پوری تاریخ ابقری شخصیات سے پُر ہے،علم اخلاق فکرو فلسفہ اور سیاست و حکومت کے ہر میدان میں ایسی بے شمار عالمی شخصیات پیدا ہوئیں جن کی نظیر کسی اور مذہب میں مل ہی نہیں سکتی،پوری اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ جب جب مسلمانوں نے خود کو اسلام کی انقلاب آفریں تعلیمات سے مکمل طور پر ہم آہنگ کیا ہے ان میں اسی طرح کی اسلامی روح پیدا ہوئی اور ان سے حیرت انگیز انقلابی کارنامے وجود میں آئے ہیں،جس زوال اور اخلاقی بگاڑ نے اس وقت ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف اسلامی تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہے،کاش یہ عظیم حقیقت ہمیں دریافت ہو جاتی کہ ہماری کامیابی مغربی تہذیب میں نہیں بلکہ ان سادہ اسلامی تعلیمات میں ہی ہے،اسلام جس طرح کل مسلمانوں کی عظمت و رفعت کا ضامن تھا اسی طرح آج بھی ہے،اس میں وہ قوت ہے کہ مسلم قوم کو ذلت اور ناعاقبیت کے گڑھے سے نکال کر کامیابی وترقی کی شاہراہ پر گامزن کردے،جس طرح کسی مکان کی تعمیر میں سب سے پہلے بنیادیں کھڑی کی جاتی ہیں اور پھر دوسرے مرحلے میں دیواریں چھت وغیرہ کا کام کیا جاتا ہے،یقیناً اسی طرح شخصیت کی تعمیر میں پہلی درسگاہ کے بعد دوسرا کردار اساتذہ اور سکول کا ہوتا ہے،کہتے ہیں استاد یا تو نسلیں بناتا ہے یا پھر بگاڑتا ہے،استاد کی مثال اس پہیہ نما چرخے کی ہے جو گاؤں کے کھیتوں کو سیراب کرنے کیلئے دریا کے کنارے لگایا جاتا ہے جب یہ پہیہ گھومتا ہے تو اس کے ساتھ نصب چھوٹے چھوٹے مٹکے دریا سے اپنے حصے کا پانی لیکر کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں ،استاد کے علم کے سمندر سے جو تعلیم و تربیت بچے کے حصے میں آئے گی وہ اسی کو معاشرے میں تقسیم کرینگے،جب ہمارے یہاں یہ بات زبان زدعام ہے کہ جس کا کوئی کام نہیں وہ استاد بھرتی ہو گیا ہے،ہمارے سکولوں کے کلاس رومز میں یکطرفہ ٹریفک نظر آتی ہے جہاں پر استاد اپنی ذہنی سطح کے مطابق پڑھاتا نظر آتا ہے اور عام طور پر تیار شدہ مواد سے سالہا سال گزارہ کرتا ہے،اکثر اساتذہ اپنی کوتاہیوں کا الزام طلبہ ،والدین،نصابی کتب اور امتحان کے طریقہ کار پر ڈال کر بے فکر ہو جاتے ہیں حالانکہ تعلیم کا جدید طریقہ مکالمہ ہے ،استاد اگر طلبہ کو پڑھائے جانے والے موضوع پر سوال جواب کا طریقہ اختیار کرے تو یقیناً اس طرح استاد اور طالب علم دونوں ایک دوسرے کے مدد گار ہونگے۔لگے بندھے نوٹس لکھنا انتہائی غلط طریقہ ہے،طلبہ کو خود نوٹس بنانے کی ترغیب دینی چاہیے،نصابی لحاظ سے بھی ہمارا نظام تعلیم مختلف زمروں میں بٹا ہوا ہے،جبکہ قیام پاکستان سے قبل پورے ہندوستان میں یکساں نظام تعلیم تھا،ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارا نصاب تعلیم آئے دن تجربوں کی زد میں رہتا ہے ،سکول میں پڑھائے جانے والے نصاب میں ہر سال تبدیلی سے اساتذہ اور طلبہ کو شدید مشکلات کا سامنا رہتا ہے جس کی وجہ سے مدد گار کتب کے نام پر طلبہ کو مہنگی کتب خریدنے کی تلقین کی جاتی ہے جو کہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں،تعلیم وتربیت کے شعبے کو بعض اجارہ داریاں مکمل قبضے میں لے چکی ہیں ،سکول سسٹم،گروپ آف کالجز،یونیورسٹیاں،ٹی وی چینلزاور پرنٹ میڈیا میں وہ روزنامے اور ماہنامے جب سب ایک ہاتھ میں جمع ہوتے ہیں تو ایک خوفناک اجارہ داری پید اہوتی ہے،ہر معاشرے میں تعلیم کا مقصد محاسل تعلیم سے ہوتا ہے،بدیہی طور پر تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ فرد کو اس کے مقاصد زندگی کے حصول کیلئے تیار کرے،اب اگر کسی معاشرے میں زندگی کا مقصد معاشی اہلیت کا حصول اور معاشی خوشحالی ہے تو تعلیم کا مقصد بھی معاشی اہلیت کا حصول اور معاشی خوشحالی کا خواب پورا کرنا ہو گا،اس طرح انسانی شخصیت خاص کر نسل نو کی شخصی تعمیر میں اساتذہ کا بہت بڑا ہاتھ ہے،مگر ہماری بدقسمتی یہاں بھی پیچھا نہیں چھوڑتی کیونکہ ہم استاد کو ایک مزدور سے زیادہ حیثیت دینے کو تیار نہیں،شخصیت کی تعمیر میں شامل عوامل میں سے ایک اہم حصہ سوچ و فکر بنانے میں ثقافت کا بھی ہے،اگر ثقافت تبدیل ہو گی تو سوچ و فکر بھی تبدیل ہو سکتی ہے،وقت کے ساتھ ترقی خاص کر ٹیکنالوجی نے نئے دور ،نئی آسائشیں اور نئی ضرورتوں کو جنم دیا ہے ،بدلتے حالات کیساتھ موجودہ دور بھی نئی ٹیکنالوجی کے استعمال سے انٹر نیٹ دور جدید کی ایک بہت مفید ایجاد ہے،یہ نہ صرف معلومات کا ایک خزانہ ہے بلکہ مواصلات کے شعبہ میں بھی اس نے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے،انٹر نیٹ پر ہر طرح کی معلومات آسانی سے دستیاب ہو جاتی ہیں اس کے ذریعے لوگ اپنے دور دراز عزیزوں سے باآسانی رابطہ کر سکتے ہیں بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ اس نے بڑی حد تک لائبریری اور ڈاک کے نظام کی بھی جگہ لیکر تیزی پیدا کر دی ہے،بدقسمتی سے شعور آگہی نہ ہونے اور سماجی اعتبار سے کنٹرول نہ ہونے کے باعث آج کا نوجوان جس طرح انٹر نیٹ کے استعمال کا دلداہ ہوتا جا رہا ہے وہیں اس کے اخلاقی پہلو بھی اسی انٹر نیٹ اور جدید ٹیکنالوجی نے متاثر کی ہیں،یہ امر تشویشناک ہے کہ پاکستان میں انٹر نیٹ کے بے شمار صارفین اسے فحش اور عریاں ویب سائٹس تک رسائی کیلئے استعمال کرتے ہیں،یہ صورتحال ہر باشعور شخص کیلئے باعث تشویش ہے،ان سائٹس پرباقاعدگی سے جانے والے لوگ دنیا کی نظر سے چھپ کر انٹر نیٹ کی تاریک گلیوں میں آوارہ پھرتے ہیں یہ آوارگی ان کی عادت بن کر قلب و نظر کو ناپاک کر دیتی ہے،اس کے بعد زندگی کسی ایک راستے کی طرف مڑ جاتی ہے اور یوں انسان حلال و حرام کی تمیز کو فراموش کر کے اخلاقی قدریں کھو بیٹھتا ہے ،اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ والدین ذمہ داریاں محسوس کریں وہ بچوں کی تربیت کو اپنا مسئلہ بنائیں،ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں کسی غلطی کی صورت میں نرمی اور محبت سے ان پر واضح کریں کہ چیزیں ہماری اقدار کے خلاف ہیں جب بچے بڑے ہو جائیں تو مناسب عمر میں ان کی شادی کروائیں،یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں،وقت،ماحول اور حالات کے تناظر میں نئی نسل کی نظریاتی و عملی تربیت کا اہتمام ہماری بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے،نظریات بھی وہ عظیم فکری بنیاد ہوا کرتے ہیں جس پر کردار اور عمل کی دیوار تعمیر ہوتی ہے اور ہمیشہ حسن وکردار ہی انسانوں کو زندہ جاوید رکھتا ہے،انسانوں اور حیوانوں میں بنیادی فرق کردار کی حسن و خوبی ہے،ورنہ کھانا،پینا افزائش نسل گوشت پوست اور ہڈیوں سے مجسم ہونا تو جانوروں میں ہم سے بڑھکر ہے بلکہ قرآن پاک میں سورۃ الملک میں موت وحیات کی تخلیق کا سبب ہی کردار کی آزمائش کو قرار دیا ہے،اس سلسلے میں جب تک ہماری ترجیحات یہ نہیں ہوتیں اس وقت تک ہم درپیش مسائل کو حل کرنے کیلئے الجھنوں کا شکار رہیں گے،ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہماری سب سے بڑی دولت کیا ہے ،یقیناً ہماری قیمتی دولت وہ بچے ہیں جن سے ہمارے گھروں کی رونقیں بحال ہیں،ہمارا فرض ہے کہ اخلاقی ،روحانی،سماجی تربیت کر کے انہیں صاحب کردار مسلمان اورمعاشرے کا باوقار فرد بنائیں،ہمیں احساس ہونا چاہیے کہ اگر ہم اس دولت کو گنوا بیٹھے تو بہت کچھ گنوا بیٹھیں گے،ایسے حالات میں دوسرے کے ہاتھوں کو دیکھنے کے بجائے ہر فرد کو اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا اور اپنی ذمہ داریوں کو خود ہی نبھانا ہوگا،،،کیونکہ،،،،اٹھانا خود ہی پڑتا ہے تھکا ٹوٹا بدن کہ جب تک سانس چلتی ہے کاندھا کوئی نہیں دیتا،،،تاریخ بھی ان ہی لوگوں کو یاد کرتی جو اپنی صلاحیتوں کو مثبت طریقے سے استعمال کر کے معاشرے میں اپنے حصے کا کردار بطریق احسن ادا کرتے ہیں،اس کے پیچھے گھر،کمیونٹی اور اچھی صحبت کے اثرات ہوتے ہیں اور یہی کردار سازی کے بنیادی عوامل ہیں کیونکہ نفاست اورشرافت مزاج اور کردار میں آئے تو تب ہی بات بنتی ہے ورنہ آزمائش کی گھڑی میں پول کھل جاتے ہیں اور خوشنما لباس بھی بسا اوقات ناکام ہو جاتے ہیں بقول شاعر،،،
لباس پارسائی سے شرافت آ نہیں سکتی
شرافت نفس میں ہوگی تو بندہ پارسا ہوگا
وطن عزیز پاکستان کا اگر ذکر کریں تو قدرت کی بے پناہ نعمتیں ہمیں میسر ہیں اس وجہ سے ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کی فکر کرنی ہے کہ وہ قانون دان،ڈاکٹر،انجنئیر،آئی ٹی کے ماہرکچھ بھی بن جائیں پہلے انہیں ایک باوقار خوش اخلاق اور باعمل مسلمان بننا چاہیے ،پہلے کردار کی تعمیر ہونی چاہیے کیونکہ یہی لوگ حقیقی معنوں میں اسلام کے سفیر ہیں اور اس طرفٖ بھی دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ کہیں اسلام کے لبادے میں کسی دہشت گرد گروپ کے ہتھے نہ چڑھ جائیں،ہم دین دار سمجھتے رہیں اور وہ کوئی اور گُل کھلا دیں ویسے بھی تعلیم وہی تعلیم ہے جو قرب الہی کی دولت سے مالا مال کر دے۔اگر یہ اسباب حیات اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے دوری کا سبب بنیں تو وبال جان بن جاتے ہیں۔۔نہ ادھر اطمینان نہ اُدھر سکون۔۔۔بقول اقبالؒ ،،،
ا للہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
اولاد بھی املاک بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کیلئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ