گرمیوں میں سیاسی سرگرمیاں

Published on June 15, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 425)      No Comments

Miss R.G
وزیراعظم پاکستان کی ہارٹ سرجری نے ملک میں غیر معمولی سکوت طاری کر رکھا ہے اس بارے کئی قسم کی چہ مہ گوئیاں بھی گردش کر رہی ہیں یہ تو طے ہے کہ میاں صاحب کا آپریشن تاحال سوالیہ نشان بن چکا ہے حالانکہ اس حوالے سے حکومت اگر عوام کو اعتماد میں لے لیتی تو کوئی مذائقہ نہ تھامگر کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جب پانامہ لفافہ کھلا تو موقع کی نزاکت کے پیش نظر حکومت نے ہارٹ سرجری کو کمال دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانامہ ہنگامہ روک تھام کے لیے سٹنٹ کے طور پر استعمال کیا ہے حقائق جو بھی ہوں مگر اس سے مسلم لیگ (ن) کو دو فائدے ضرور ہوئے ہیں حسب موقع ہارٹ سرجری کا ایک فائدہ یہ کہ مریم نواز وزیراعظم کے اختیارات استعمال کرنے میں کامیاب ہوگئی ہیں جس کے لیے انھیں شاید کئی سال پاپڑ بیلنے پڑتے جبکہ اگر میاں صاحب ایسے وقت میں کسی کو قائم مقام وزیراعظم بناتے تو ممکن تھا کہ وہ مریم نواز نہ ہوتیں عوامی و صحافتی حلقوں میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ وزیراعظم کے عہدہ کے لیے مریم نواز اور حمزہ شہباز کے ناموں پر شریف برادران کے تعلقات کشیدہ ہونے کا بھی مستقبل قریب میں امکان موجود ہے سوال یہ بھی ہے کہ بلاول بھٹو کو بچہ کہہ کر کیا اس فہرست سے خارج کیا جا سکتا ہے ؟ اس کا جواب بھی جلد ہی مل جائے گا مگر تاحال حالیہ ملکی منظر نامے کے تناظر میں کئی مجھ جیسے یہ بھی سوچتے ہیں کہ جب سیاسی اختیارات کی تقسیم یا خاص عہدوں کی بندر بانٹ کی جاتی ہے تو اپنے بچوں کے مقابلے میں ان سیاسی کارکنان یا قریبی ساتھیوں کو کیوں بھلا دیا جاتا ہے جو ہر وقت سینہ سپر رہے اور جن کی بدولت ان جماعتوں کو اقتدار نصیب ہواجو کہ بہت بڑی نا انصافی ہے حسب موقع ہارٹ سرجری کا دوسرا بڑا فائدہ یہ کہ پانامہ انکشافات پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے مابین ٹی او آرز پر مذاکرات جمود کا شکار ہو چکے ہیں
اگرچہ پانامہ انکشافات کے بعد مبینہ کرپشن کیسسز اورمنی لانڈرنگ کی شفاف تحقیقات کے لیے متفقہ ٹی اوآرز پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پہلے دن سے ہی ڈیڈ لاک چلا آرہا ہے مگر حکومتی وزرا کی سخت اور بے لحاظ گفتگو سے حالات بگاڑ کی طرف بڑھ سکتے ہیں کیونکہ اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ بحثیت وزیراعظم میاں صاحب کو اس کا جواب دینا چاہیئے جبکہ حکومت چاہتی ہے کہ تمام پاکستانی جن کے نام پانامہ پیپرز میں شامل ہیں ان کی تحقیقات ہوں اور یہ سلسلہ 1947 سے شروع ہو اور اس میں کرپشن ،بد عنوانی ،قرضے معاف کروانے والوں سمیت تمام مبینہ معاملات ٹرم آف ریفرینس کا حصہ ہوں جبکہ اپوزیشن تاحال صرف پانامہ تحقیقات چاہتی ہے ،حکومت بھی حیل حجتوں سے کام لیکر اپوزیشن کو کھپائے رکھنا چاہتی ہے تاکہ تھک ہار کر سب خود ہی کہہ دیں ’’اور بھی غم ہیں زمانے میں پانامہ کے سوا ‘‘یہ سیاسی پینترا حکومت نے دھرنا سیاست میں سیکھا تھا ویسے تو اس پینترے میںآصف علی زرداری سیر تھے مگر میاں صاحب سوا سیر نکلے ہیں ایسے میں عمران خان کو جلد بازیاں اور لا ابالی بیان بازیاں پریشان کر رہی ہیں جبکہ میاں صاحب کو جسمانی اور سیاسی طور پردوبارہ زندگی مل گئی ہے یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے کاسا تواں اجلاس بھی اپنی اپنی ڈفلی بجا کر اور اپنا اپنا راگ الاپ کرختم ہوگیا اور شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وہ اس کمیٹی سے مکمل طور پر مایوس ہو چکے ہیں اور بہتر ہے کہ ان اجلاس کا اب بائیکائیٹ کر دیا جائے ایسے میں صورتحال یقیناً کشیدگی کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے جو کہ سیاسی محاذ آرائی کو جنم دے گی اور ممکن ہے کہ یہ فیصلہ اب سڑکوں تک آہی جائے کیونکہ حکومت ڈھٹ چکی ہے ایسے میں حکومت کو بھی زیادہ خطرہ تحریک انصاف سے ہی نظر آرہا تھا کیونکہ باقی توخود اس ہنگامے سے پریشان تھے ایسے میں کمال ہوشیاری سے پاکستان تحریک انصاف کو دو ٹکڑوں میں دکھانے کی’’ سعی‘‘ کی گئی ہے کستان میں ایک نئی جماعت ’’پاکستان تحریک انصاف نظریاتی ‘‘کا اضافہ ہو چکا ہے تحریک انصاف(ن) کے بارے اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکنوں کو پاکستان تحریک انصاف پر شدید تحفظات ہیں اور ان کے مطابق پاکستان تحریک انصاف اپنے ’’منشور ‘‘سے ہٹ چکی ہے اس لیے ایک نئی پارٹی’’پاکستان تحریک انصاف نظریاتی‘‘ بنانی پڑی ہے اسے کہتے ہیں جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے بلاشبہ میاں صاحب کا ستارہ تاحال بلندی پر ہے ایسے میں جب بساط بھی اپنی ہوگئی ہے اور بازی بھی پلٹ چکی ہے تو حکومتی وزرا اور رفقا کی شعلہ افشا نیاں بھی عروج پر ہیں یہاں تک کہ اسمبلی کے فلور پر بھی کھڑے ہوکر دوسروں کو براہ راست ہتک آمیز جملے بولنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا شاید یہی وجہ ہے کہ ملکی سیاسی درجہ حرارت بھی نکتہ عروج پر پہنچ چکا ہے ،ماہ صیا م شروع ہو چکا ہے ،بجٹ پیش کر دیا گیا ہے جو کہ غریب عوام پر مشکلات کے پہاڑ سے کم نہیں ہے مگر سیاسی ایوانوں میں کوئی خاص ہلچل یا عوام میں پہلے سا احتجاج چیدہ چیدہ ہی نظر آرہا ہے تاحدنظر غبار ہی غبار ہے اور اس کی وجہ عوام کی بے بسی ہے جو مکمل طور پر پانامہ لیکس کے بعدحکمرانوں اور عہدے داروں کے رویوں کی وجہ سے چھا رہی ہے کہنے کو تو خان صاحب نے جولائی میں احتجاج اور دھرنوں کی ڈیڈ لائین دی ہے مگر ملکی منظر نامہ کہہ رہا ہے کہ عمران خان اس احتجاج میں جلد تنہائی کا شکار ہو جائیں گے کیونکہ دوسری تمام جماعتیں روز اول سے کہیں نہ کہیں سیاسی کٹھ جوڑ رکھتی ہیں اور تقریباً سبھی کی دستاروں کے بلوں میں ایسے ان گنت قصے موجود ہیں جو کہ ان پر سوالیہ نشان ہیں اس لیے وہ کبھی کھل کر کسی بھی مسئلے پرآواز نہیں اٹھائیں گی دوسری طرف حکومت اس مسئلے پر غیر سنجیدہ ہے اور قوی امکان ہے کہ میاں صاحب کی بیماری کو جواز بنا کر مسلم لیگ ن اس مسئلے کو پچیدہ مسئلہ بنانے کی کوشش کرے گی اور در پردہ انتخابی مہم بھی چلائی جائیگی جو کہ کمال دانشمندی اور کامیابی سے پہلے ہی جاری ہے اس لیے امید ہے کہ پانامہ انکشافات پر بڑی پیش رفعت دیکھنے کو نہیں ملے گی ما ہ صیام سکون اور خاموشی سے گزر جائے گا
البتہ سیاسی ٹاک شوز کا اتوار بازار عادتاً اور رسماً جاری ہے اور اپوزیشن جماعتوں کے عہدے داران ، حلیف اور حمایتی اینکرز سے لیکر سیاسی تجزیہ نگار بھی دلائل کے ساتھ روزانہ ثابت کرتے ہیں کہ حکومت نے تین سالہ حکومت میں آج کے بنیے اور کل کے سیٹھ کو سچ کر دکھایا ہے اور عوام کو تین سالوں میں سوائے بیانات کے کچھ نہیں ملا اور اب بھی بجٹ کے نام پر ظلم کا پہاڑ توڑا گیا ہے اس پر وہیں ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھا ل دی جاتی ہیں اور دل بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے کہ تم نے نادان سے بحث کیوں کی ۔کہتے ہیں کہ ایک دفعہ دن کے وقت جنگل میں گدھے اور چیتے کی بحث ہوگئی ،چیتے نے کہا کہ آسمان کا رنگ نیلا ہے اور گدھے نے کہا کالا ہے حالانکہ بات چیتے کی ٹھیک تھی مگر چیتے نے کہا کہ چلو جنگل کے بادشاہ کے پاس چلتے ہیں ،دونوں شیر کے پاس گئے اور واقعہ سنایا تو شیر نے کہا کہ چیتے کو جیل میں ڈالو ۔۔چیتے نے احتجاج کیا کہ بادشاہ سلامت بات بھی میری ٹھیک ہے اور جیل بھی مجھے ہی جانا پڑ رہا ہے تو بادشاہ نے کہا کہ بات سچ جھوٹ کی نہیں ،تمہارا قصور یہ ہے کہ تم نے ایک گدھے سے بحث کیوں کی ۔۔؟تو عرض یہ ہے کہ اس لاحاصل بحث سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا سوائے اس کے کہ قوم کا وقت برباد ہو اور جو مسائل فوری طور پر توجہ طلب ہیں وہ بھی سامنے نہ آئیں اس لیے گزارش ہے کہ اس کو چھوڑ کر کہ کیا کھویا کیا پایا کے گرداب سے نکل کر یہ سوچیں کہ جو ہے اسے کیسے بچانا ہے اورعام آدمی کے مسائل کو اجاگر کیسے کرنا ہے اور حکومت کو مجبور کریں کہ پرانی روش چھوڑ کر خلوص دل سے عوام کیلیے کام کریں
یہ تو طے ہے کہ وزیراعظم پاکستان اپنے خطاب میں واضح کر چکے ہیں کہ احتساب اگر ہوگا تو سب کا ہوگا صرف ہمارا نہیں ویسے بھی ان کا مؤقف اس معاملہ میں یہ ہے کہ مسئلہ آف شور کمپنیوں کا نہیں ہے بلکہ مجھے اور میرے خاندان کو تضحیک کا نشانہ بنا کر منظر عام سے غائب کر کے مطلوبہ سیاسی نتائج کا حصول ہے ان کے حمایتی بھی اسی بات پر زور دیتے ہیں کہ اپوزیشن کا مقصد بس ٹانگیں کھینچنا ہے اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا ہے جس کی وجہ سے یہ معاملہ تاحال الجھا ؤ کا شکار ہو کر اپنی حثیت کھو چکا ہے ۔ترقی کی راہ سے یاد آیا کہ ایک خبر نظر سے گزری کہ میاں صاحب نے اسحاق ڈار کوعمدہ بجٹ پیش کرنے پر مبارکباد دی ہے اور کہا ہے کہ واقعی ہم نے تن سال عام آدمی کی حالت بہتر کرنے کے لیے کوششیں کی ہیں ،دل بے ساختہ کہہ اٹھا ’’کہ اس سادگی پر کون نہ مر جائے‘‘ دور کیوں جائیں بجٹ پر سیر حاصل بات پھر ہوگی مگر حقیقت یہ ہے کہ حالیہ بجٹ میں بھی عام آدمی کے لیے کچھ بھی نہیں ہے اور جناب وزیر اعظم اگر آپ عام آدمی کی حالت کے لیے واقعی متفکر ہوتے تو کسی بھی قسم کے منصوبے کا اعلان ہی نہ کرتے کیونکہ جن ملکوں میں یہ منصوبے بنتے ہیں ان کے عوام بھوک و ننگ سے خود کشیاں نہیں کرتے ،ان کے عوام گندہ گٹروں ملا پانی نہیں پیتے ،وہاں تیزابی پانی سے سیراب کی گئی سبزیاں نہیں ملتیں ،وہاں ونٹی لیٹر نہ ہونے سے معصوم بچے نہیں مرتے ،لوگ رھیڑیوں اورچارپائیوں پر گھسیڑ گسھیڑ کر ہسپتالوں کا رخ نہیں کرتے ،پیسے نہ ہونے کیوجہ سے کفن کے بغیر کوئی اپنا بچہ نہیں دفناتا ،ہسپتال کی سیڑھیوں پر اور رکشوں میں مائیں بچے جنم نہ دیتیں ہیں باقی تمام حقائق سے سب آگاہ ہیں کیونکہ یہ وہ زمانہ نہیں کہ خلیفہ رات کوگلیوں میں گشت کر کے دیکھے کہ کس گھر میں بچے بھوک سے بلک رہے ہیں اور ماں ہنڈیا میں پتھر پکا رہی ہے آج سب جانتے ہیں کہ جس عورت نے گذشتہ رات خود کشی کی وہ بھوک اور ننگ سے تنگ تھی اور اس کی آہ و فغاں محلے کے غریب مکینوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ۔حقائق سے نظر مت چرائیں حقائق تلخ ضرور ہیں مگر حل طلب ہیں صدائے حق ہے کہ ایسا نظام تشکیل دیں کہ غریب سرمایے سے محروم نہ رہے ہر انسان کو اس کا حق ملے اور اس سے بحثیت انسان سلوک کیا جائے ۔یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک بے گھر گھرانے کو ہو شیاری و عیاری سے رہائش کا کرایہ 25 فیصد زائد دینے پر مجبور کر دیا جائے کیونکہ جب ایک مالک مکان کو کرایہ پر دئیے گئے گھر کا پراپرٹی ٹیکس 25 فیصد زیادہ دینا پڑے گا تو یہ بوجھ یقیناًایک بے گھر کرائے دار پر پڑے گا ۔وفاقی اور صوبائی ٹیکسوں کا اندازہ لگایا جائے تو پرائیوٹ سروس والے اور چھوٹے کاروباری گھرانے مزید خود کشیوں پر ضرور مجبور ہونگے ۔لہذا دور اندیشی اور بندہ پروری سے کام لینا چاہیئے کیونکہ یہی وہ نادانیاں ہیں جو کہ ان گرمیوں میں سیاسی سرگرمیوں کو عروج پر لے جائیں گی ۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Free WordPress Themes