روشنی کے قلم سے
بتا اے قاتل. . .
کون سی آنکھ ہے جو اشکبار نہیں
کون سا دل ہے جو کہ عزادار نہیں
کیا سوچ کر تو نہیں کیا وار عاشق رسول پر ؟
کیا تیرا کوئی کنبہ ،کوئی گهر بار نہیں ؟
روزه دار تها وہ ، مداح سراه تها وہ
جسکو کیا قتل تو نے اے دشمن نبی و آل نبی
تیرا حال ہو بدتر مثل ابن ملجم ، یزید و ضیاه
جو رکهتا ہے درد دل، کیا وه تجه سے بیزار نہیں؟
بتا اے قاتل,امجد
مر کر بهی وہ زنده و جاوید ہے
اور تو مار کر بهی کیا لعنت و زلت سے دوچار نہیں؟
کبهی سبط جعفر کبهی زکی خرم کو
نشانہ بناتے ہو تم
اک ظلم کے بعد اک ظلم ڈهاتے ہو تم
مان لو
مان لو اے قاتل ,امجد
اے دشمن,انساں
تم ہارے ہو ہارو گے
انتظار کرو
ابهی سب محو تماشا ہیں
وقت سے اپنے ہوشیار نہیں
ان میں ابهی جو کوئی مثل مختار نہیں. .
مناتے ہیں لفظی سوگ
ظلم پر رہتے ہیں ہمیشہ خاموش
مگر تم یہ جان لو
ابهی ان میں کچھ میثم بهی ہیں
حبیب بهی سلیمان بهی ہیں
ابراہیم بهی مختار بهی ہیں
جئیں گے مریں گے بهی
مگر بن کر کبهی غدار نہیں
ان کی غیرت جاگ اٹهی تو
ملے گی پھر تم کو، کوئی دیوار نہیں
ابهی جاگا ان میں کوئی میثم تمار نہیں
کوئی مختار نہیں
انتظار کرو
شب ظلمت گزر رہی ہے
صبر کا دامن چاک ہونے دو
روشنی کو نمودار ہونےدو
پهر روز حساب ہو گا
ابهی وہ وقت قرار نہیں
ابهی جاگا مختار نہیں . . .
اے دشمن,نبی و علی
نہ ظلم سے جگاو
میثم مزاج لوگوں کو
نہ گولیاں چلاو
مختار مزاج دلوں پر
ورنہ قیامت سے پہلے
قیامت ہو گی
دن رات ہو گا
رات دن ہو گی
ڈرو روز حساب سے
خدا کے عذاب سے
باز رہو ہم سے
کہ ابهی
جاگا مختار نہیں ہے
ابهی وقت قرار نہیں ہے
ابهی جاگا مختار نہیں ہے