اسلام آباد(یو این پی)انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز (آئی پی آر )کے زیر اہتمام گزشتہ روز اسلام آباد میں ایک سیمینار کا انعقاد ہوا جس کا موضوع ’ کیا پاکستان تنہائی کا شکار ہے ‘ نیز علاقائی چیلنجز اور مواقع۔ سیمینار سے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے خارجہ امور طارق فاطمی، ممتاز محرر پروفیسر ایناٹول، ممتاز صحافی اور مبصر زاہد حسین کے علاوہ چیئرمین انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز ہمایوں اختر خان نے بھی اظہار خیال کیا۔ چیئرمین آئی پی آر ہمایوں اختر خان نے کہا کہ پاکستان کو ایک مستقل اور پائیدار خارجہ پالیسی بنانی چاہیے تا کہ خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ کر سکے۔ ہمایوں اختر نے مزید کہا کہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کیلئے کئی دہائیوں تک جدوجہد کی ہے۔ افغانستان کے اچھے تعلقات نا صرف دونوں ممالک کے لیے ضروری ہے بلکہ پاکستان کے وسطیٰ ایشائی ممالک تک رسائی توانائی کے منصوبوں کی تکمیل اور اقتصاداری راہداری منصوبے کو زیادہ سے زیادہ سود مند بنانے کیلئے بھی انتہائی ضروری ہے۔ ہمایوں اختر خان نے مزید کہا کہ افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ایران کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے نیز پاکستان کو چاہیے کہ اگر امریکہ سے اختلاف ہے تو ان کو بھی حل کرے۔ اس موقع پر وزیر اعظم معاون خصوصی برائے خارجہ امور طارق فاطمی نے کہا کہ تمام ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنا پاکستان کی ہمیشہ سے کوشش ہے لیکن اس کا مقصد ہے نہیں ہونا چاہیے کہ دوسرے ممالک کے ناکامیوں کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال دیا جائے اس موقع پر طارق فاطمی نے افغانستان کے ساتھ پیدا ہونے والی کشیدگی اور اس سلسلے میں ہونیوالے مذاکرات کے سلسلے میں شرکاء تفصیل سے بتایا، طارق فاطمی نے مزید کہا کہ پاکستان نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ افغانستان سے اچھے تعلقات قائم کیے جائے اور یہ کوشش آئندہ بھی جاری رہے گی نیز پاکستان افغانستان کی قدر بھی کرتا رہے گا سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ممتاز محرر پروفیسر ایناٹول نے کہا کہ دنیا کا کوئی ملک نہیں چاہتا کہ پاکستان افغان طالبان کو پناہ دے اور افغانستان کے اندر ان کی مدد کریں۔ اس موقع پر پروفیسر ایناٹول نے واشنگٹن کے اپنے حالیہ دورے کے بارے میں شرکاء کو آگاہ کیا اور بتایا کہ افغان امن مذاکرات کے بارے میں پاکستان کے کردار کے مطلق واشنگٹن کیا رائے رکھتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ امن مذاکرات فل فور شروع ہونے چاہیے لیکن پاک افغان حالیہ کشیدگی کی وجہ سے اس کے امکانات بہت کم نظر آر ہے ہیں۔ اس موقع پر ممتاز صحافی اور مبصر زاہد حسین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ سیکورٹی کو مد نظر رکھ چلائی جا رہی تھی نیز پاکستان کی خارجہ پالیسی انڈیا سے خدشات کو مد نظر رکھ کر بنائی جاتی تھی جبکہ خطے میں پاکستان کیلئے مزید مفادات بھی عزیز تھے۔ لیکن پاکستان نے اس طرف توجہ نہ دی جبکہ چین اور بھارت نے علاقائی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے فیصلے کیے۔ اس کے علاوہ زاہد حسین نے مزید کہا کہ پاکستان کا اصل مسئلہ معیشت کے کمزوری ہیں موجودہ دور میں بھی پاکستان کی شرح نمو 3 سے 4 فیصد کے درمیان ہے جو کہ کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے پاکستان نے خطے میں اگر اپنا رول ادا کرنا ہے تو اس کو اپنی معیشت کو مضبوط کرنا ہو گا۔