تحریرو تحقیق: حسیب اعجاز عاشرؔ
دعا مانگ لیا کرتو دوا سے پہلے
کوئی نہیں دیتا شفاء خدا سے پہلے
دُعا۔۔۔۔’’د ‘‘سے دل پاک ہو ،’’ع‘‘ سے عقیدہ پختہ ہو ،اورپھر’’ الف‘‘ سے اللہ، صرف اللہ اور بس اللہ ،سے رجوع کر لیا جائے تو سارے بیڑے پار لگ جائیں۔۔قول ہے کہ دعا دستک کی طرح ہے اور مسلسل دستک سے دروازہ کھل ہی جاتا ہے۔۔دعا سراسر عبادت ہی عبادت ہے۔دعا اظہار بندگی ہے۔دعا عبادات کا مغز ہے۔دعا انبیاء کی سنت ہے۔دعا مومن کا ہتھیار ہے۔دعائیں تقدیریں بدل دیتیں ہیں۔دعا دین کا ستون ۔دعا آسمان و زمین کا نور ہے۔یہ ایک فطری عمل ہے کہ مومن خوشحالی میں بارگاہِ الہی میں سجدہ شکر پیش کرتا ہے اور پریشانی میں بھی سب سے پہلے اپنے اللہ ہی کو یاد کرتاہے۔اُس سے ہم کلام ہوتا ہے۔گرگراتا ہے ۔روتا ہے۔اوراُسے ایسے منالیتا ہے جیسے ایک ننھا بچہ اپنی ماں سے کوئی اپنی ضرورت منوا لیتا ہے۔اور اللہ تعالی تو اپنے بندوں کے ساتھ ستر ماؤں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے،یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے بندوں کو پریشان حال رہنے دے۔
وہ بخشتا ہے گناہِ عظیم بھی لیکن۔۔ہماری چھوٹی سی نیکی سنبھال رکھتا ہے
اللہ تعالی قران میں فرماتا ہے کہ ’’تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا ،یقین مانو! جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں اور ابھی ذلیل ہو کر جہنم میں پہنچ جائیں گے(المومن ۶۰)۔۔۔۔فرمانے الہی ہے ’’جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے پوچھیں تو(کہہ دیں) میں قریب ہوں، ہر پکارنے والے کی پکار کو جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارے(البقرۃ)۔۔۔حدیث نبویﷺہے: اللہ تعالی شرم و حیا اور ذوالفضل و کریم ہے اور جب اللہ تعالی کے سامنے کوئی دونوں ہاتھ اُٹھا کر دعا کرتا ہے تو خالی ہاتھ واپس ہوتے اِس کو شرم آتی ہے(ابوداؤد)۔
دعا کی اہمیت ۔۔۔۔۔
دعا کی اہمیت کی گواہی تو قرآن پاک بھی دیتا ہے کہ۔۔ آغاز (سورۃ الرحمن)بھی دعا ہی دعا ہے اور اختتام(سورۃالناس) بھی دعا ہی دعا۔اُس رحیم و کریم ذات نے اپنے بندوں کو ایسی آسان عبادت سے نواز دیا ہے کہ جس کے لئے کسی وقت و حالت کی قید نہیں۔جسکا بدلہ اجر ہی اجر،کامیابی ہی کامیابی،بخشش ہی بخشش ہے۔۔۔۔۔حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں رسولﷺ نے فرمایا ’’جو شخص اللہ سے (دعا) نہیں مانگتا اللہ اس سے ناراض ہوتا ہے‘‘(ترمذی)۔۔۔حدیث نبویﷺ ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک دعا سے زیادہ کوئی چیز مکرم نہیں(ابن ماجہ)۔۔۔۔۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا ’’اللہ تعالی کے نزدیک دعا سے زیادہ عظمت والا کوئی عمل نہیں(صیح سنن ترمذی)۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا’’جس شخص کے لئے دعا کا دروازہ کھولا گیا اس کے لئے گویا رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے اور جو چیز اللہ سے مانگی جاتی ہے ان میں سب سے زیادہ اللہ تعالی کے نزدیک پسندیدہ عافیت ہے(صیح سنن ترمذی)۔
دعا کی فضلیت ۔۔۔۔۔
ٓ آپﷺ نے فرمایا، دعا عبادت ہے اور فرمایا اللہ کے ہاں دعا سے بڑھ کر کوئی عمل افضل نہیں(نسائی،ابوداؤد)۔۔۔حضرت محمد ﷺکا ارشاد ہے کہ ’’جس نے صدق دل سے اللہ تعالی سے شہادت کی تمنا کی اللہ تعالی اس کو شہیدوں کے درجے تک پہنچا دے گا اگرچہ اس کی موت بستر پر ہو‘‘۔۔۔۔۔آپ ﷺ نے فرمایا وہ چیزیں جو مرنے کے بعد میت سے منقظع نہیں ہوتیں،ان میں ایک دعا بھی ہے‘‘۔۔۔۔۔آپ نے فرمایا: قضا کو کوئی چیز نہیں ٹال سکتی سوائے دُعا کے(ترمذی)۔۔۔۔۔فرمان بنویﷺ ہے کہ (قضاو) قدر سے بچنے کی کوئی تدبیر فائدہ نہیں دیتی، ہاں اللہ سے دعا مانگنا اس آفت اور مصیبت میں بھی نفع پہنچاتا ہے جو نازل ہو چکی اور اس مصیبت میں جو ابھی تک نازل نہیں ہوئی اور بے شک بلا نازل ہونے کو ہوتی ہے کہ اتنے میں دعا اس سے جا ملتی ہے ،پس قیامت تک ان دونوں میں کش مکش ہوتی رہتی ہے(اور انسان دعا کی بدولت اس بلا سے بچ جاتا ہے)۔۔۔۔سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ محمدﷺ نے فرمایا: تقدیر کو دعا ہی ٹال سکتی ہے اور نیک اعمال سے ہی عمر میں اضافہ ہوتا ہے (ترمذی)۔
قبولیت دعا کے اوقات۔۔۔۔۔
دن ہو یا رات ہر گھڑی میں توبہ کرنے والے کی دعا قبول ہو جاتی ہے۔۔ ۔۔ابوموسی الاشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اللہ عزوجل رات کے وقت اپنا ہاتھ پھیلاتتا ہے تا کہ دن میں گناہ کرنے والا توبہ کرے (تو اس کی توبہ قبول فرمائے) پھر دن کے وقت اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تا کہ رات میں گناہ کرنے والا توبہ کرے(تو اس کی توبہ قبول فرمائے) یہاں تک کہ سورج غروب ہو جاتا ہے(مسلم)۔۔۔۔۔ابوہریرہؓسے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ ‘‘جمعہ کے دن میں ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ اگر کسی مسلمان بندے کو حسنِ اتفاق سے خاص اس گھڑی میں خیر اور بھلائی کی کوئی چیز اللہ تعالی سے مانگنے کی توفیق مل جائے تواللہ تعالی اسکو (وہ چیز) عطا ہی فرما دیتا ہے(مسلم و بخاری)۔۔۔۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کا رسولﷺ نے فرمایا ہمارا رب ہر رات جب آخر تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو آسمان دنیا پر اترتا ہے اور فرماتا ہے ،’’کون مجھ سے دعا کرتا ہے میں اسکی دعا قبول کروں ؟ کون مجھ سے مانگتا ہے میں اسکو دوں؟ کون مجھ سے گناہوں کی معافی چاہتا ہے کہ میں اس کے گناہ معاف کروں؟(صیح بخاری)۔۔۔۔ٓآپﷺ نے فرمایا: دو وقت دعا رد نہیں ہوتی، اذان کے اوقات اور جنگ کے وقت(ابوداؤد)۔۔۔۔حبیب اللہﷺ نے فرمایا: سجدے میں بندہ اپنے رب کے بہت نزدیک ہو جاتا ہے تو تم زیادہ دعا مانگا کرو(صیح مسلم)۔
رمضان المبارک کی آخری عشرے کی طاق راتوں میں۔فرض نماز کے بعد، آذان و اقامت کی درمیان ۔جمعہ کے خطبے کے دروان وقفے میں۔ سفر میں،بارش کے برستے ہوئے۔خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑنے پر۔قرآن پاک کی تلاوت کے بعد، افطار کے وقت۔ شبِ قدر میں۔آب زم زم پیتے ہوئے۔بیماری کی حالت میں۔تہجد کے اوقات دعاؤں کی قبولیت ہوتی ہے۔۔۔۔جبکہ۔۔باب کعبہ اور حجر اسود کی درمیانی جگہ۔ملتزم۔مطاف۔جمرہ وسطی۔جمرہ عقبی۔روضہ پاک کے پاس۔میدان عرفات ۔میزاب۔حدودِ بیت اللہ۔مقام ابراھیم۔منی۔مروہ۔صفا جیسے مقدس مقامات پر اللہ تعالی دعاؤں کر رد نہیں فرماتا۔۔۔
کن کی دعا قبول ہوتی ہے۔۔۔
بریدۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا’’اللھم انی اسلک بانی اشھد انک انت اللہ لا الہ انت الاحد الصمد الذی لم یلد و لم یو لد ولم یکن لہ کفو احد‘‘آپ ﷺ نے فرمایا اس شخص نے اللہ کے اسم اعظم کے وسیلے سے دعا مانگی ہے اور اسم اعظم کے وسیلے سے جب اللہ سے مانگا جاتا ہے تو وہ عطا فرماتا ہے اور جب اس سے دعا کی جاتی ہے تو وہ قبول فرماتا ہے (ابو داؤد،ترمذی)۔۔۔حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں رسول ﷺ نے فرمایا،’’تین (ادمیوں) کی دعا قبول کی جاتی ہے جس میں کوئی شک نہیں۔مظلوم کی دعا ،مسافر کی دعا والد کی دعا اپنے بیٹے کے حق میں ‘‘(ابن ماجہ)۔۔۔عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا بہت جلد قبول ہونے والی دعا وہ ہے جو غائبانہ طور پر اپنے کسی مسلمان بھائی کے لئے کی جائے۔(سنن ابوداؤد)۔۔۔حبیب خداﷺ نے فرمایا: تو اللہ تعالی کی مقبولیت کا یقین رکھتے ہوئے دعا کیا کرو، یاد رکھواللہ تعالی غافل یا بے پرواہ دل کی دعا قبول نہیں کرتا(ترمذی)۔۔۔ایک حدیثﷺ کے مطابق جو شخص یہ چاہے کہ اللہ تعالی اس کی دعا سختیوں اور مصیبتوں کے وقت قبول فرمائیں، اس کو چاہیے کہ و ہ فراخی اور خوش حالی میں بھی کثرت سے دعا مانگا کرے۔۔۔۔۔اللہ تعالی ماؤں کی اپنی اولاد کے حق میں ،نیک و صالح اولاد کی اپنے والدین کے حق میں دعا،مجبور اور بے بس کی دعا،عادل حکمران کی دعا،اولیاء کرام کی دعاؤں کو بھی مقبول و قبول فرماتے ہیں۔
دعا کرنے کا طریقہ۔۔۔۔
عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہا تھا اور نبیﷺ ابوبکرؓ اور عمرؓ ایکساتھ تھے،جب میں بیٹھا تو اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کی پھر نبیﷺ پر درود بھیجا پھر اپنے لئے دعا کی تو نبیﷺ نے فرمایا مانگو عطا کیا جائیگا ،مانگو عطا کیا جائیگا(سنن الترمذی)۔۔۔۔۔حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ ’’دعا زمین و آسمان کے درمیان روکی جاتی ہے جب کہ تو اپنے نبیﷺ پر درود نہ بھیجے(ترمذی)۔۔۔۔امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ اگر دعا مانگنے کے بعد ماشاء اللہ لا وقوۃ الا بااللہ بھی کہہ لیا جائے تو بھی کی قبولیت کے معاملہ میں کافی دخیل ہے۔ ۔۔
اللہ تعالی کی حمد و ثناء پڑھی جائے ،دعا کے اول و آخر درود شریفﷺ کاورد کیا جائے ،پہلے ،درمیان میں اور آخر میں دعا ’’ربنا اتنا۔۔۔النار‘‘ پڑھی جائے۔دعا صدق دل، حضور قلب اور خشوع و خضوع سے ساتھ مانگی جائے۔ہتھیلیاں پھیلا کر رکھا جائے، دونوں ہاتھ مونڈھوں کے برابر ہوں۔۔دل میں خوف خدا ہو۔آنکھیں پرنم ہوں۔دعا پر اعتماد ہو۔۔۔دعا میں بخل نہ کریں، دل کھول کر مانگیں کیونکہ اللہ خزانے میں کچھ بھی کمی نہیں۔۔
دعا قبول نہ ہونا۔۔۔
یہ شکوہ غلط ہے کہ دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔دعاؤں کی قبولیت کی تین صورتیں ہیں ۔اول تو مانگنے والے کو عطا کر دیا جاتا ہے،یا دوسری صورت میں اُس دعا کے بدلے کسی مصیبت کو دفع کر دیا جاتا ہے ۔یا پھر اُس دعا کے بدلے اللہ تعالی آخرت میں اجر عظیم عطا کرتا ہے۔اِس اپنے حق میں ہر دعا مانگنی چاہیے اور بار بار مانگنی چاہیے کیونکہ رضائے الہی سے یہ دعائیں اس دنیا میں ہمارا بھی دفاع کرتی اور آخرت میں بھی ۔۔
ٓآپﷺ نے فرمایا کہ اگر انسان گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے تو اس کی دعا مقبول ہوتی ہے بشرطیکہ جلد بازی نہ کرے آپﷺ دریافت کیا گیا کہ جلد بازی سے کیا مراد ہے؟ آپﷺ نے فرمایا یوں کہنے لگے کہ میں نے بہت دعا کی لیکن لگتا ہے میری دعا قبول نہیں ہوئی، چنانچہ ناامید ہو کر دعا کرنا چھوڑ دے(مسلم)۔۔۔حدیث نبویﷺ ہے،آدمی طویل سفر پر پراگندہ حال ہوتا ہے اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھانا ہے اور کہتا ہے اے میرے رب اے میرے رب حالانکہ اسکا کھانا حرام، پینا حرام،اسکا لباس حرام، اور حرام سے پلا بڑھا ہے پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی؟(مسلم)۔۔۔۔دعا کی قبولیت کے حوالے سے حضرت علیؓ نے فرمایا’’یہ نہ سوچو کہ اللہ تعالی دعا فوراً قبول کیوں نہیں کرتا،شکر کرو کہ اللہ رب العزت ہمارے گناہوں کی سزا فوراً نہیں دیتا‘‘۔
حضرت ابراہیم ؒ فرماتے ہیں(مفہوم) اے الوگو۔تمہارے دل آٹھ چیزوں سے مردہ ہو گئے ہیں تو پھر دعائیں کیسے قبول ہوں۔۱۔تم نے خدا کی معرفت حاصل نہیں کی۔۲۔تم نے محبت رسولﷺ کا دعوی کیا مگر ان کی سنت پر عمل نہ کیا۔۳۔تم نے موت کو برحق جانا مگر اس کیلئے تیاری نہ کی۔۴۔تم نے اللہ کی نعمتیں کھائیں مگر اس کا شکر ادا نہ کیا۔۵۔تم نے قرآن مجید پڑھا مگر اس پر عمل نہ کیا۔۶۔تم نے دعوت شیطان کا دعوی کیا مگر اس کی مخالفت نہ کی۔۷۔تم نے دوسروں کی عیب جوئی کی مگر اپنے عیب نہ دیکھے۔۸۔تم نے مردوں کو دفن کیا مگر عبرت حاصل نہ کیا۔۹۔قبروں کو ڈھاتے ہو اور بڑے بڑے محلات تعمیر کرتے ہو۔۱۰۔مال جمع کیا مگر حساب دینے سے غافل ہو
دعاکی قبولیت پر اللہ کا شکر ادا کیا جائے۔۔۔
دعا۔۔ ترجمہ’’تمام تعریفیں اللہ کے لئے جس کے غلبہ و بزرگی کے سبب اچھے کام پورے ہو جاتے ہیں۔
(واللہ اعلم)۔۔۔اللہ تعالی ہمیں دین پڑھنے ،سمجھنے ،سمجھانے اوراس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔آمین