قادر ہے وہ پاک ذات جس نے اس کائنات کو بنایا اور اس میں سب سے مناسب ماحول میں ہم انسانوں کو رہنے کا شرف بخشا ۔جب اللہ تعالیٰ انسان کوتخلیق کر رہے تھے تو فرشتوں نے عرض کیا کہ کیا ہم آپ کی عبادت کیلئے کم ہیں جو آپ انسان کو پیدا کر رہے ہیں کہ جو زمین میں فتنہ برپا کرے گا تو اللہ ربّ العزت نے فرمایا کہ جو مجھے علم ہے وہ تم نہیں جانتے ۔اور جب آدم ؑ تخلیق ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تجھے پیدا کیا تو آدم ؑ نے وہ تمام نام بتائے جو اللہ نے سکھائے تھے ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا درجہ دیتے ہوئے فرشتوں سے کہا آدم ؑ کو سجدہ کرو لیکن شیطان نے انکار کیا اور تکبر کرنے لگا جس پر اللہ تعالیٰ نے اسے تا قیامت رسوا کر دیا اور روز محشر بھی رسوا ہو گا ۔بے شک انسان اس قابل ہے کہ فرشتے اسکو سجدہ کریں آج بھی ایسے اللہ کے بندے موجود ہیں جو کلمہ حق کہنے والے مرد مؤمن ہیں اور کئی اس دنیا فانی سے رخصت ہو گئے وجود نہیں ہے لیکن آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں ایسا ہی ایک مرد مؤمن ،اللہ کا مجاہد کلمۂ حق کہنے والا ہمارے درمیان موجود ہے جس نے نظام تعلیم ،تہذیب و ثقافت تو یاجوج ماجوج سے سیکھی لیکن اللہ نے اس کے دل میں ایسی روشنی جلا رکھی ہے کہ اپنی تعلیم کے برعکس اللہ و رسول کی بات کرتا ہے ۔ہمیشہ حق بات کرتا ہے اور امت مسلمہ کی بات کرتا ہے ۔جو سرزمین پاک پر پیدا ہونے کو اپنی خوش قسمتی اور مسلمان ہونے کو اپنا اعزاز مانتا ہے ۔جو ہر صورت وطن عزیز اور مسلمانوں کے بچوں کو اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کی تعلیم دیتا ہے اور ایسی زندگی گزارنے کی تلقین کرتا ہے جو عصر حاضر کے فرعونوں کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنے کی ہمت رکھتا ہے وہ مرد مجاہد کوئی اور نہیں ہمارے قابل احترام ،معزز اوریا مقبول جان صاحب ہیں ۔جنہوں نے مشرق میں علامہ محمد اقبال ؒ کے بعد قلم و الفاظ اور اپنے اشعار سے مسلمانوں کی رو ح پروری کی ہے اور کر رہے ہیں۔چمکتا چہرے اور چہرے پر لالی ،چمکتی گہری آنکھیں اور آواز ایسی کہ دل میں گھر کرتی جائے ۔ اوریا مقبول جان پاکستان کے معروف کالم نگار ،شاعر ،دانشور ،ڈاراما نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔بطور کالم نگار و دانشور ان کے کالم باقاعدگی کے ساتھ مقامی اخباروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔وہ اپنی شاعری اور منفرد انداز تحریر کے باعث کئی ادبی اعزازات حاصل کر چکے ہیں ۔انہیں 2004 میں پاکستان کے بہترین کالم نگار کا اعزاز بھی مل چکا ہے اوریاجان ایک دیانتدار مامور اداری بھی ہیں جن کی دیانت داری اور انصاف پسندی کا پاکستان میں بہت چرچا ہے وہ مختلف شہروں میں ڈپٹی کمشنر کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں آپ واحد بیوروکریٹ ہیں جو سیکرٹری لیول تک پہنچ کر اٹھارہ جنوری 2016 کو 31 سال کی سروس کر کے ریٹائرہوئے ۔ گزشتہ روز اوریا مقبول جان نے بندہ نا چیز کے وطن ضلع جھنگ کو اپنی آمد سے شرف بخشا کہ جب قرآن اکیڈمی میں ستائیسویں رمضان المبارک کی شب کے سلسلے میں ’’شب قدر رحمتوں کی برسات قیام پاکستان کی رات ‘‘کے عنوان کے حوالے سے تقریب منعقد کی گئی تھی جس میں جان صاحب نے شرکت کی ۔ان کی آمد واقعی باعث فخر ہے کہ جب انہوں نے اپنے خیالات سے نظام تعلیم ،سیاست اور نظام معاشیات کو اسلام کی روشنی میں بیان کیا کہ کس طرح یاجوج ماجوج ہمیں کھائے جا رہی ہے اور کوئی اس کو روک نہیں سکتا !کیسے اللہ تعالیٰ کا عذاب ہم پر نافذ ہے یہ عذاب انہوں نے کیا خوب بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے اس چیز پرکہ وہ تم پر آسمانوں سے عذاب نازل کرے تمہارے پاؤں کے نیچے سے اور یہ کہ تمہارے دلوں میں نفاق پیدا کر کے گروہوں میں بانٹ کر ایک دوسرے کی طاقت کا مزہ چکھائے ۔انہوں نے اس وقت امت پر مسلمہ پر جاری اللہ تعالیٰ کے عذاب سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ اس سے کیسے نجات حاصل کی جا سکتی ہے ۔بغض ،کینہ اور مفلسی سے بچنے کیلئے مذہب اسلام ہی ہے جسکی تعلیمات ہمیں سیدھا راستہ دکھاتی ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ کیسے پاکستا ن،نزول قرآن اور راتوں میں سب سے عظیم رات کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے ۔’’میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے‘‘یہی وہ سرزمین ہے جس کے بارے میں رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ مجھے یہاں سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے ۔چودہ اگست کی رات کو جب پہلی دفعہ رات بارہ بج کر پانچ منٹ پر اعلان ہوا کہ یہ ہے ریڈیو پاکستان اور لوگوں نے ہجرت شروع کر دی تو دس لاکھ کے قریب قربانیاں ہوئیں وہ قربانیاں کس لئے دی گئیں تھیں! کیا کسی کو یاد ہے ؟اس وقت بر صغیر پاک و ہند کے تمام مسلمانوں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر ہمیں مذہب اسلام کی پیروی بھرپور طریقے سے کرنی ہے تو اس کا واحد حل علیحدہ سرزمین کا حصول ہے ۔جب بھی مسلمانوں نے یہ ٹھان لی کہ اسلام کے پرچم کو بلند کرنا ہے اور تو ہمیشہ انہیں نصرت ملی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان آزاد ہوا تو ملاؤں نے کمر باندھ لی اور اسلامی ادارہ قائم ہوا ،ملاؤں نے کمر باندھی تو قادیانیت کو پوری دنیا میں کافر قرار دے دیا گیا اور اس وقت بھی مسلمانوں کی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی غیب سے مدد کی۔اوریا مقبول جان کہتے ہیں کہ آج جو عذاب ہم پر نافذ ہے اس سے بچنے کیلئے ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم ایک امت مسلمہ بن کر سوچیں سرحدی خطوط تو ہمارے اپنے کھینچے گئے ہیں اسلام تو پوری دنیا کیلئے ایک ہی ہے ۔عصر حاضر کا واحد مرد مجاہد جو پوری امت مسلمہ کا سوچتا ہے واقعی ایسے عظیم انسان کی جھنگ میں آمد ہمارے لئے باعث فخر و نجات ہے واقعی اللہ کی ایسی تخلیق مسجود ملائک ہے۔