پیدا ہونے والے سب انسانوں نے مر کر واپس اللہ کے پاس جانا ہے۔کئی مہینوں کی بیماری کے بعد عبدالستار ایدھی صاحب چھ گھنٹے انتہائی نگہداشت میں رہنے کے بعد ۹۲؍ سال کی عمر کے بعد اللہ کو پیارے ہو گئے۔ سلام ایدھی!ایدھی صاحب میں اللہ نے خلق خدا کی خدمت ایثار و قربانی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھااور دنیا گواہ ہے کہ انہوں نے اللہ کی طرف سے دیے گئے اس اعزاز کا حق بخوبی ادا کر دیااور اللہ کے ہاں اجر کے مستحق ٹھہرے ۔یہ اللہ کی دین ہے جسے چاہے نواز دے ۔ایدھی صاحب اس شعر کی زندہ جیتی جاگتی تصویر تھے’ ’درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ۔۔۔ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں‘‘ ۔ ان میت کو ان کے بیٹے فیصل ایدھی صاحب نے سہراب گوٹھ سرد خانے میں غسل دے دیا ہے۔ اس کے بعد ان کی میت ایدھی ہاؤس میٹھادر منتقل کی گئی جہاں ان کے قریبی رشتہ دار انے آخری دیدار کیا۔ ایک بجے پاکستان کے پرچم میں لپٹی میت نیوی کا دستہ ان کی میت نیشنل اسٹیڈیم لیکر گئی۔ اس کے بعد ان کی میت پاک فوج کے جوانوں کے حوالے کی جائے گی جو پورے پروٹوکول کے ساتھ ایدھی صاحب کی میت کو نیشنل اسٹیدیم لے کر جائیں گے۔ اور پوری سیکورٹی کے تحت ان کا جنازہ بعد نماز ظہر مولانا احمد خان نیازی پڑھائیں گے۔ اس کے بعد ان کو ایدھی ولیج میں دفنایا جائے گا قومی فوجی اعزاز گارڈ آف آنرر یعنی توپوں کی سلامی دی جائے گی اور دفنایا جائے گا۔ جہاں ۲۵؍ سال پہلے انہوں نے اپنے لیے خود قبر گھودی تھی۔ وزیر اعظم پاکستان، نواز شریف صاحب کی خواہش تھی کی ایدھی صاحب کی نماز جنازہ میں شرکت کریں مگر بیماری کی وجہ ممکن نہیں ۔انہوں نے اپنے بھائی شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب کو ہدایات کی ہے کہ وہ صوبہ پنجاب کے ساتھ ساتھ ان کی بھی نمائندگی کریں۔صدر مملکت ممنون حسین اورپاک فوج کے سالار جنرل راحیل شریف نے ایدھی صاحب کے انتقال پر افسو س کا اظہار کیا ہے۔ حکومت پاکستان نے ایک دن ،سندھ ، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان نے تین روز سوگ منانے کا کہا ہے ۔صدر پاکستان نماز جنازہ میں شرکت کریں گے۔ سپہ سالا راحیل شریف، ایئر چیف ، نیوی کے چیف اور ڈی جی رینجرزنماز جنازہ میں شرکت کریں گے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ اپنے قابینہ کے ساتھ ایدھی صاحب کی جنازے میں شرکت کریں گے۔ ایدھی صاحب کو پاکستان اور دنیا کے تمام اعزازوں سے نوازا گیا۔ کراچی اور حیدر آباد کے تاجر وں نے سوگ کے لیے کاروبار ۲؍ روز بند رکھنے کا اعلان کیاہے۔ پاکستان کی ساری سیاسی اور مذہبی قیادت کے نمائیدے پہنچ رہے ہیں اور کچھ پہنچ چکے ہیں۔ایدھی صاحب نے پاکستان اور دنیا بھر میں ایدھی فاوئڈیشن کے تحت فلاحی ادارے ایدھی سنٹر،جھولہ، پاگل خانہ،ایدھی ولیج،ایدھی چائلڈ سنٹر، یتیم خانے، اولڈ ایج ہاؤس، منشیات کے عادی افراد کی بحالی، بلڈ بنک اور خواتین کے لیے آشیانہ وغیرہ قائم کئے جو پورے ملک میں کام کر رہے ہیں۔ فیصل ایدھی نے اعلان کیا ہے کہ ان کے والد کی وفات کے باوجود ایدھی ادارے روز مرہ کی خدمت ادا کرتے رہیں گے۔ پاکستان میں اپنی اپنی کیمونٹی کی فلاح و بہبود کے لیے بڑے بڑے ادارے اور شخصیات کام کررہی ہیں۔ اللہ ان کو اس نیک کام کا ضرور اجر دے گا مگر ایدھی صاحب نے میمن کیمونٹی سے تعلق کے باوجود ہ صرف اپنی کیمونٹی کی خدمت ہی نہیں کی بلکہ پوری انسانیت کی خدمت کا جزبہ لیکر اُٹھے تھے اور اس پر عمل کر کے اللہ کے ہاں نیک بندوں میں شامل ہو گئے۔ ایدھی صاحب نے پورے پاکستان اور دنیامیں اپنا نیٹ ورک قائم کیا ہو اہے۔ جو کام ایک فلاحی ریاست کا ہوتا ہے جو پاکستان کی حکومتیں نہ کر سکیں وہ کا م صرف ایک فرد ایدھی صاحب نے کر کے دکھایا ہے۔ ایدھی صاحب سے میرا کا تعلق ۱۹۶۹ء میں قائم ہوا تھا۔ میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی کا ملازم تھا جو کراچی میں اپنی فیکٹری سلائی مشینیں تیار کرتی ہے اور پورے پاکستان میں فروخت کرتی ہے۔ میں میٹھا در میں ایدھی صاحب کے دفتر جایا کرتا تھا کیونکہ وہ سلائی مشنیں خرید کر غریبوں میں تقسیم کرتے تھے۔ اس زمانے میں ان کا فون نمبر ۲۲۵۲۲۵ ہوا کرتا تھاجو پورے پاکستان میں جانا پہچانا جاتا تھا۔مجھے یہ نمبر از بر ہو گیا تھا۔ ایک دفعہ کراچی صدر میں ایک افیون چی فٹ باتھ پر پڑا تھا لوگ اس کے ارد گرد جمع تھے ۔ میں ادھر سے گزرا اورمیں نے۲۲۵۲۲۵ پر فون کیا اور اپنا نام بتایا وہ فورناً پہچان گئے اور کہنے لگے سلائی مشن والے ہو ۔ انہوں نے فوراً ایدھی ایمبولنس بھیجی اورُ اس افیونچی کو علاج کے لیے اُٹھا کر لی گئی۔ اس طرح ایک دفعہ میری رہائش کے قریب ایک نوجوان پاگل خاتون محلے میں اِدھرَ ادھر گھوم رہی تھی۔ میں نے ۲۲۵۲۲۵ پر فون کیا اور ایدھی صاحب نے ایدھی ایمبولنس فوراً بھیج دی اور اس پاگل خاتون کو ایدھی ہوم میں علاج کے لیے منتقل کر دیا۔یہ تو میرا ذاتی مشاہدہ ہے جو میں نے بیان کیا۔ اس طرح نہ جانے پورے ملک میں کتنے لوگ ایدھی صاحب سے رابطے کرتے رہے ہونگے اور ایدھی صاحب انسانیت کی خدمت کرتے رہے ہیں۔ میں نے ایدھی صاحب کو ہمیشہ ایک لوہے کی کرسی پر بیٹھے دیکھا۔ ہمیشہ ملیشیا کے کپڑے پہنتے تھے ان کی وصیت کے مطابق ا ن ہی پرانے کپڑوں کے کفن
میں دفنایا جائے گا ۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کی آنکھیں عطیہ کر دی گئیں۔میں نے اسی زمانے میں کراچی، میٹھادر ان کے دفتر میں ایک ملاقات میں نے اربوں روپے غریبوں پر خرچ کرنے والے ایدھی صاحب سے پوچھا کہ آپ ہر وقت خلقِ خدا کی خدمت میں لگے رہتے ہیں تو آپ کی گزر اوقات کیسے ہوتی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ میری ایک خاندانی بلڈنگ ہے اس کے کرایہ سے میری گزر اوقات ہوتی ہے۔وقت گزرتا گیا مجھے کمپنی پاکستان کے مختلف علاقوں میں ٹرانسفر کرتی رہی تھی۔ ۱۹۹۸ء میں ملتان سے کراچی تبدیل ہو کر آ رہا تھا کہ حسن اتفاق کہ ملتان ایئر پورٹ کے لاؤنج میں ایدھی صاحب سے ملاقات ہوئی ۔ میں نے ان کو سلام کیا وہ فوراً مجھے پہچان گئے ۔میں نوٹ کیا کہ اُس عظیم شخصیت نے وہی ملیشیا کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ چھ دہایوں سے بے سہارا لوگوں کی خدمت کرنے والا، خلقِ خدا کی خدمت کے لیے ملتان آیا تھا۔ میری اللہ سے دعا ہے کہ وہ ایدھی صاحب کو جنت الفردوس میں اپنے نیک بندوں کے ساتھ رکھے آمین۔بلا آخر ایدھی صاحب کی میت ایک بجے میٹھادر سے قومی پروٹکول میں پاک بحریہ کے دستہ کی زیر کمان روانہ ہوئی اور ٹھیک ایک بج کر پچیس منٹ پر نیشنل اسٹیڈم پہنچ گئی ہے۔ نیشنل اسٹیڈیم کی حفاظت فوج کر رہی ہے۔صف بندی ہو گئی ۔ صدر مملکت ممنون حسین اور سپہ سالار کے ساتھ فیصل ایدھی اور سعد ایدھی رمضان چھیپا پہلے صف میں موجود ہیں۔ اس ہی صف میں گورنر سندھ، وزیر اعلیٰ پنجاب، چیئر مین سینٹ اور سندھ کے دوسرے سرکاری افراد موجود ہیں۔ ایدھی صاحب کی میت ایک بج کر پچاس منٹ پر پورے فوجی اعزاز کے ساتھ جنازے کی جگہ لایا گیا ہے اور ٹھیک دو بجے ایدھی صاحب کی نماز جناز ہ مولانا احمد خان نیازی ادا کر دی گئی اور توپوں کی سلامی دی گئی۔الوداع ایدھی صاحب الوداع۔ ایدھی کی میت ایدھی ولیج روانہ کر دی گئی جہاں ان تدفین کچھ دیر بعد فوجی اعزاز کے ساتھ کی جائے گی۔اللہ ان کی محنت قبول فرمائے آمین۔