تحریر ۔۔۔شیخ توصیف حسین
ایک وہ وقت تھا کہ جب بادشاہ اپنا بھیس بدل کر اپنی رعایا کے حال و احوال جاننے کیلئے بازاروں محلوں اور گلیوں میں گھو ما کرتے تھے یہ سوچ کر کہ ان کے دور حکومت میں کوئی رعایا کا فرد بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر بے بسی اور لا چارگی کی موت نہ مر جائے ایک دفعہ بادشاہ حسب عادت اپنی رعایا کے حال و احوال جاننے کیلئے ایک محلہ سے گزر رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک بزرگ شخص کہ جس کے چہرے پر شرمندگی کے آ ثار جبکہ ہونٹ سمندر میں اُٹھتی ہوئی لہروں کی طرح لرزا رہے تھے اپنے نو جوان بیٹے کو سخت بے عزت کرنے کے بعد گھر سے نکال رہا تھا جس پر بادشاہ کو بڑا تجسس ہوا اور اس نے بزرگ شخص سے پو چھا کہ تم اپنے نو جوان بیٹے کے ساتھ ایسا رویہ کیوں اپنا رہے ہو جس پر اس بزرگ شخص نے بڑی دردبھری آ واز کے ساتھ بادشاہ کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں ایک غریب آ دمی ہوں میری خواہش تھی کہ میرا بیٹا پڑھ لکھ کر ملک و قوم کی خد مت کر کے میرا اور میرے خا ندان کا نام روشن کرے گا بس اسی لیے میں نے دن رات مزدوری کر کے اس بد بخت کو پڑھا لکھا کر محکمہ پولیس میں بطور ایس ایچ او بھرتی کروا دیا کہ یہ قانون کا محافظ بن کر مظلوم افراد کی دادرسی کر کے میرا اور میرے خاندان کا نام روشن کرے گا لیکن یہ بد بخت مظلوم اور بے بس افراد کی داد رسی کرنے کے بجائے قانون شکن عناصر سے بھتہ وصول کر کے ظلم و ستم لوٹ مار اور ناانصا فیوں کی تاریخ رقم کر کے نہ صرف میرے بلکہ میرے خاندان کے نام پر ایک بد نما داغ بن کر رہ گیا ہے اس کے آئے روز کے ظلم و ستم اور ناانصا فیوں سے دلبر داشتہ ہو کر نجانے کتنے مظلوم افراد ہمیں بد دعائیں دینے میں مصروف عمل ہیں جس کے نتیجہ میں لا تعداد موذی امراض نے ہمارے خاندان کے گرد گھیرا بنا لیا ہے یہ بد بخت حرام کی کمائی کے بل بوتے پر اپنے آپ کو اعلی جبکہ مظلوم غریب افراد کو حقیر سمجھتا ہے یہی کافی نہیں اس کی لوٹ مار کے نتیجہ میں میرے پوتے اور پو تیوں کے علاوہ میری بہو شرافت اور حیا کی تہذیب کو بھول کر بے حیائی اور بے شرمی کی تہذیب کو اپنانے کے بعد بے ہودہ گفتگو کی عادی ہو کر رہ گئی ہے جہنیں اپنے بزرگوں سے بھی بات کر نے کی تمیز نہیں ہے بس اسی لیئے اس بد بخت کو اپنے گھر سے نکال کر میں اپنی باقی ماندہ عزت کو بچا نا چا ہتا ہوں اس جیسی راشی او لاد سے بہتر ہے بے اولاد ہو نا جو اپنے خا ندان کی عزت کو ترجیح دینے کے بجائے حرام کی کمائی کو تر جیح دے بادشاہ اُس بزرگ شخص کی ان باتوں کو سننے کے بعد واپس اپنے محل میں چلا گیا جہاں پر اس نے اپنے وزیر خاص کو طلب کر کے یہ حکم دیا کہ جس علاقے میں قانون شکن عناصر لا قانو نیت کا ننگا رقص کر کے مظلوم غریب افراد کو زندہ در گور کر رہے ہیں اس علاقے کا امیر بزرگ شخص کو بنا دیا جائے علاقے کا امیر بننے کے فوری بعد اس بزرگ شخص نے دیکھا کہ ایک پٹواری علاقے کی بیوہ خاتون کی وراثتی زمین اس کے بااثر مخالفوں سے بھاری نذرانہ وصول کر کے انھیں سو نپ رہا ہے تو اُس نے قانون کی بالا دستی کو قائم رکھتے ہوئے پٹواری کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا جس کو چھڑانے کیلئے تحصیلدار پہنچا تو بزرگ شخص نے اُسے بھی قانون شکن پٹواری کی مدد کرنے کے جرم میں گرفتار کر کے پٹواری کے ہمراہ حوالات میں بند کر دیا قصہ مختصر یہی حشر اے سی کا بھی ہوا اُسے بھی حوالات کی ہوا کھانی پڑی یہ بات جنگل کی آ گ کی طرح پورے علاقے میں پھیل گئی جسے سننے کے بعد راشی افسران و دیگر عملہ نے پکڑے جانے کے خوف سے رشوت خوری سے تو بہ کرتے ہوئے اپنے فرائض و منصبی صداقت امانت اور شرافت کے پیکر بن کر ادا کرنے میں مصروف عمل ہو کر رہ گئے کاش اسی طرح ہمارے ملک کے حاکمین بھی ملک بھر میں اُسی بزرگ شخصیت کے حامل اعلی افسران و دیگر عملہ کو تعنیات کرتے تو آج ہمارے ملک کی تقدیر بھی بدل جاتی لیکن افسوس کہ ہمارے ملک کے حاکمین نجانے کس مصلحت کے تحت ایسا کرنے میں قاصر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں آج ہمارے ملک کا ہر ادارہ خواہ وہ صو بائی ہے یا پھر وفاقی کرپشن کے بے تاج بادشاہوں کی آ ماجگاہ بن کر رہ گیا ہے جہاں پر نوٹوں کی چمک سے مر عوب ہو کر نا جا ئز کام منٹوں میں جبکہ جا ئز کا موں کیلئے مظلوم افراد در بدر کی ٹھو کریں کھا رہے ہیں یہاں میں چند ایک مثالیں حاکمین اور بالخصوص اپنے قارئین کی نظر کر رہا ہوں رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں و فاقی و صو بائی حکو مت نے مشترکہ طور پر عوام سے وعدہ کیا تھا کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں بجلی کی غیر اعلا نیہ لوڈ شیڈ نگ برائے نام ہو گی لیکن و اپڈا حکام نے ملک بھر کی طرح ضلع جھنگ میں حکومتی اس وعدے کو سگریٹ کے دھواں کی طرح ہوا میں اُڑاتے ہوئے بجلی کی غیر اعلا نیہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ پہلے کی نسبت دو گنا اضافہ کر کے کاروبار زندگی کو مکمل طور پر تباہ و بر باد جبکہ عوام کو ذہنی مریض بنا دیا یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ واپڈا حکام بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے دورانیہ میں دو گنا اضافہ کے باوجود بجلی کے بلوں کی مد میں ہر غریب خاندان سے چار ہزار روپے سے لیکر آ ٹھ ہزار روپے وصول کرنے میں مصروف عمل ہیں جو کہ غریب عوام کے ساتھ ظالمانہ سلوک ہے مذید براں یہ ہے کہ ضلع جھنگ وہ بد نصیب ضلع ہے کہ جس کے سر کاری ہسپتالوں میں تعنیات سر جن ڈاکٹرز و لیڈی ڈاکٹرز اپنے فرائض و منصبی مذکورہ ہسپتالوں میں ادا کرنے کے بجائے اپنے پرائیویٹ کلینکوں پر ادا کرنے میں مصروف عمل ہیں جہاں وہ مسیحا کا روپ دھارنے کے بجائے ڈریکولا کا روپ دھار کر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا غریب مریضوں کا خون چو سنے میں مصروف عمل ہیں یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ سر جن ڈاکٹرز و لیڈی ڈاکٹرز کی عدم توجہ کے نتیجہ میں سر کاری ہسپتالوں بالخصوص ڈی ایچ کیو ہسپتال جھنگ میں ینگ ڈاکٹرز کا راج قائم ہے جن کی ناتجر بہ کاری کے نتیجہ میں ہر ماہ تقریبا ڈیڑھ دو سو گھروں کے چراغ گل ہو جاتے ہیں یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہوا یوں کہ میں گزشتہ دنوں ایک مریض کی تیمارداری کیلئے ڈاکٹر سجاد اکبر کے پرائیویٹ کلینک پر پہنچا تو وہاں پر مو جود ایک شخص نے نہایت ہی بد تمیزی کے ساتھ یہ کہتے ہوئے میرا استقبال کیا کہ اوئے بیس روپے نکال یہاں پر گاڑی کھڑی کرنے کے بحرحال اس شخص سے فارغ ہو کر کاؤنٹر پر پہنچا اپنے مریض کے بارے میں پوچھنے کیلئے تو وہاں پر مو جود شخص جو دیکھنے میں تو بڑا شریف لگتا تھا لیکن اس کے لب و لہجہ سے مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں اُس کا ملازم ہوں اور وہ میرا آ قا قصہ مختصر میں اس سے گھبرا کر مذکورہ کلینک کے گیٹ پر آ کر اپنے مریض کے ورثا کو فون کیا اور وہ مجھے مریض تک لے گئے وہاں پر مو جود مریض جس کی پاؤں کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی نے باتوں باتوں میں بتایا کہ ڈاکٹر سجاد اکبر بغیر فیس وصولی کے کسی مریض خواہ وہ کتنا ہی سیریس کیوں نہ ہو ہاتھ لگانا بھی گناہ کبیرہ سمجھتا ہے اس نے مجھ سے بھی آپریشن کے تیس ہزار ادویات کے دس ہزار اور کمرے کے دو دن کا کرایہ پانچ ہزار روپے ایڈوانس لیئے ہیں اور یہی حالت اُس کی ہر مریض کے ساتھ ہے اُس کی ان باتوں کو سننے کے بعد میں سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر یہ سوچتا ہوا واپس آ گیا کہ مذکورہ ڈاکٹر مسیحا ہے یا پھر
منافقت کا نصاب پڑھ کر محبتوں کی کتاب لکھنا
بڑا کٹھن ہے خزاں کے ماتھے پر داستان گلاب لکھنا