پاناما سے بچنا نا گزیر

Published on July 13, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 603)      No Comments

logo final
جب بھی کہیں انقلاب آیا اس کے پیچھے ہمیشہ دو وجوہات تھیں یا تو وہاں عوام اتنی رج گئی تھی کہ احتجاج کے سوا ہاضمے کا دوسرا راستہ نہیں تھا یا پھر اتنی بھوکی تھی کی انقلاب کے سوا کوئی راستہ نظر نہیں آتا تھا۔ لیکن بر صغیر پاک و ہند میں صرف ایک دفعہ انقلاب آیا اور وہ بھی پاکستان کی صورت میں کہ جب اس قوم نے ٹھان لی تھی کہ چاہے جتنی بھی قربانیاں ہو جائیں ہر قیمت پر ایک الگ ریاست حاصل کر کے ہی دم لینا ہے کہ جس میں ہم آزادی کیساتھ اللہ کی بندگی اور شکر گزاری کر سکیں جو اللہ کی نصرت سے ہم نے حاصل کیا ۔دنیا کی تاریخ میں جب بھی مسلمانوں نے ارادہ پختہ کر کے اللہ پر مکمل ایمان کے ساتھ کچھ کرنے کی کوشش کی تو اللہ نے غیب سے مدد فرمائی اور کامرانی کا تاج ان کے سر پر سجایا ۔لیکن جیسے جیسے مسلمانوں نے اللہ کی رسی کو ڈھیلا چھوڑا اسی طرح سے رسوا ہوا اور آج پوری دنیا میں مسلمانوں کی تذلیل سب کے سامنے ہے وہ صرف اس لئے کہ ہم نے اللہ کی رسی کو چھوڑ دیا ہے ۔رزق کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے اور وہ پتھر میں موجو د اور زمین کی ساتوں تہوں کے نیچے اور ساتوں آسمانوں کے اوپر موجود ہر مخلوق کو پیٹ بھر رزق دے رہا ہے لیکن ہم اتنے کم ظرف اور کمزور ایمان ہو گئے ہیں کہ ہمیں اللہ کی باتوں پر یقین ہی نہیں آتا جو سچا رب ہے جس نے ہر بات سچ کر دکھائی ہے ۔یا ہم نے بھی بنی اسرائیل کا شیوہ اپنا لیا ہے کہ من و سلویٰ روز روز ہم سے نہیں کھایا جاتا ہم نے خود سے کھیت اگانے ہیں ؟؟یہی بنی اسرائیل کے کچھ لوگ آج ہم پر مسلط ہیں کہ جو آخرت سنوارنے کی بجائے اپنی اگلی نسلیں سنوارنے میں مگن ہیں ’’سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں ‘‘ ۔تقریباََ اڑتالیس روز پہلے میاں محمد نواز شریف کو دل کا عارضہ زور پکڑ گیاتو وہ علاج کی غرض سے لندن چلے گئے جہاں ان کے دل کے چار بائی پاس آپریشن ہوئے لیکن وہ پیچھے بہت کچھ ادھورا چھوڑ گئے جو اپنی طرف سے تو ملک کے مستقبل کے وزیر اعظم کے کندھوں پر چھوڑ گئے لیکن وہ انہیں سلجھا نہیں پائیں اور معاملا ت جوں کے توں پڑے ہیں ۔ ملک کو بھی اندرونی و بیرونی طور پر مختلف چیلنجز کا سامنا رہا بلکہ خارجی پالیسی کی کمزوریاں بھی کھل کر سامنے آ گئیں کہ جب افغانستان نے بارڈر پر ہرز ہ سرائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارا ایک نوجوان شہید کر دیا اور بھارت کی جانب سے جو ہٹ دھرمیاں جاری رہیں وہ الگ حد یہ کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ایک بار پھر سے درا ڑ آ گئی کہ جب پاکستان کی سرحدی حدود میں طالبان کمانڈر ملا اختر منصور کو ڈرون حملے کا نشانہ بنایا گیا ۔مسئلہ کشمیر کا معاملہ بھی بہت حد تک بگڑ چکا ہے بھارتی افواج کی جانب سے بربریت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور ا ب بات سیریا اور شام کے جیسے مسلمانوں کا قتل عام بڑھتا جا رہا ہے ۔میاں صاحب پاکستان تو تشریف لا چکے ہیں لیکن ان کے چہرے کے تاثرات بہت پیچیدہ ہیں جیسے کہ وہ ناراض ہوں کسی سے ! پتہ نہیں اب وہ پارٹی سے ناراض ہیں ؟فیملی سے ناراض ہیں یا اسٹیبلشمنٹ سے ؟خیر کچھ بھی اچھا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا اور ویسے بھی پاکستان کے نصیب کھلے تھے کہ ایک مدت بعد جمہوریت بحال ہوئی تھی لیکن ان باریوں والوں نے انجمن افزائش نسل کو بڑھوتری دینے کیلئے ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے ۔کسی بھی ادارے کی ناکامی پر جب تحقیقات کی جاتیں ہیں تو اس کے پیچھے کرپشن کا جن نکلتا ہے جو کسی کے قابو میں ہی نہیں آتا ۔رواں سال کے آغاز میں ہی ایک اور کرپشن کا جن بے قابو ہو گیا ہے جس نے پاکستانی عوام کے ذہنوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے اور اس جن کا نام پاناما لیکس ہے جس میں پوری دنیا کے بڑے بڑے کرپشن کے سورماؤں کے نام آئے ہیں اور بدقسمتی سے انہیں میں ہمارے ملک کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا پورے خاندان کے ساتھ نام آیا ہے جس پر پانی ڈالنے کیلئے تابڑ توڑ کوششیں کی گئیں کبھی غیر اخلاقی حرکت ثابت کر کے جان چھڑانی چاہی تو کبھی کمیشن کے اکھاڑے میں دھول اڑا کر! لیکن اس بار بات الگ نظر آ رہی ہے کیونکہ کوئی جھانسہ کام نہیں آیا عوام اس وقت صرف ایک بات پر ڈٹی ہوئی ہے اور وہ ہے احتساب !عوام دیکھنا چاہتی ہے کہ اس احتساب لفظ کے حقیقی معنی کیا ہیں ؟ اور احتساب جیسا کوئی دیو ہے تو وہ اس جن کو نگل کیوں نہیں جاتا؟آج چار ماہ گزرنے کے با وجود تمام سیاسی پارٹیوں کے مابین ٹی او آر والے راستے پر اکتفا نہیں ہو سکا اور نہ ہی مستقبل میں ایسا کوئی پیچ اپ ہوتا نظر آرہا ہے کیونکہ میاں صاحب کی جو نظریں لندن میں زرداری کیساتھ ملاقات کر کے مفاہمت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے میں ٹکی ہوئیں تھیں وہ تو ہو نہیں سکا ویسے بھی میاں صاحب خود بے بس نظر آتے ہیں نہ تو وہ ڈاکٹر عاصم کیلئے کچھ کر سکتے ہیں اورنہ ہی عزیر بلوچ کے بارے میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دے سکتے ہیں اور پیپلز پارٹی بھی ایم کیو ایم کیلئے کچھ نہیں کر پارہی ۔ بلاول بھٹو زرداری اور اعتزاز احسن صاحب پیپلز پارٹی میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں بھی ٹی او آر کے معاملے پر میاں صاحب کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہیں ۔پاکستان عوامی تحریک نے بھی چودہ کے بدلے چودہ قصاص کا نعرہ لگا دیا ہے جو اس بار لگتا ہے پیچھے ہٹنے والے نہیں اور پاکستان تحریک انصاف تو اول دن سے ہی کرپشن ،دھاندلی کو لے کر حکومت کے درپے ہے! لیکن پھر بھی فرض کیا کہ سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے سے ٹی او آ ر پر مفاہمت ہو بھی جاتی ہے لیکن طاہرالقادری اور اسکے بعد احتساب کا لفظ جپتی عوام اس بار ایسے ہاتھ سے جانے نہیں دے گی ۔پاکستان تحریک انصاف ،پیپلز پارٹی اور پاکستان عوامی تحریک میاں صاحب کے خلاف الیکشن کمیشن میں نا اہلی کی پٹیشن بھی جمع کروا چکے ہیں جسکی شنوائی اور فیصلہ دینا بھی الیکشن کمیشن کیلئے مجبوری ہے !نیب اور دہشتگردوں کے خلاف پنجاب میں داخل ہوتا ہوا آپریشن بھی نواز حکومت کو مسائل سے دو چار کرے گا اسکے علاوہ الیکشن کمیشن کے باقی اراکین کو تقرر کرنا اور نومبر میں نئے آرمی چیف کی تقرری بھی میاں صاحب کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے ۔رہا این آر او کا معاملہ تو وہ کسی صورت ہونے والا نہیں ان تمام چیلنجز کو مد نظر رکھتے ہوئے نواز حکومت کی کشتی بیچ سمندر بھنور میں پھنسی ہے جسکو نکالنا اور بچا کر ساحل تک پہچانا نا ممکن سا نظر آتا ہے ۔یہاں سوال یہ ہے کہ کیا نومبر تک نواز حکومت رہتی ہے اور اپنے پانچ سال مکمل کرتی ہے ؟کیا پاکستان میں بڑھتی ہوئی کشیدگی او ر خارجی پریشر حالات کو مارشل لاء کی طرف لے جاتے ہیں ؟کیا نواز حکومت اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ مفا ہمت پر اکتفا ہو جانے کی صورت میں عوام کو اعتماد میں لے پائے گی؟ان سو دنوں میں پاکستان کی تاریخ لکھے جانے کا امکان ہے۔۔

Readers Comments (0)




WordPress Blog

WordPress Blog