ڈرائنگ روم کی سیاست

Published on July 13, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 549)      No Comments

Post
اقتدار،اختیارات کی قوت انسان کواندھاکردیتی ہے صاحب اختیاراپنے پاؤں تلے سب کچھ روندڈالنے کی خواہش کے ساتھ اپنی قوت اوراختیارات میں اضافہ کامتمنی رہتاہے اقتدارواختیارات کانشہ کئی نشوں سے بڑھ کرہوتاہے مگربعض لوگ اقتدار واختیارات کو قدرت کی عطاکردہ نعمت سمجھ کرانسانوں کے سروں کی فصل کو مسمارنہیں کرتے بلکہ انسانیت سے محبت ان کی زندگی کی میراث ہوتی ہے ایسے صاحب اقتداراختیارات کوامانت سمجھ کر ان میں خیانت اوربددیانتی نہیں کرتے کیونکہ جوصاحب اقتدار،صاحب اختیار اپنی طاقت کواپنے مخصوص ٹارگٹ کے لے استعمال کرتا ہے وہ نہ صرف انسانوں کابلکہ رب کائنات کابھی مجرم ہوتاہے ایسے صاحب اقتداردنیامیں بھی رسواہوتے ہیں اورقدرت کی گرفت سے بھی نہیں بچ سکتے سیاسی،انتظامی اورسماجی عہدوں پرفائز بعض عناصرنے اقتدارکواندھے قانون کے طورپراستعمال کیااوربعض اقتداروطاقت ملنے پرپھل داردرخت کی طرح جھک گئے اوراس پھلداردرخت سے ہرگزرنے والے نے فائدہ اٹھایاایک ایسا ہی صاحب اختیاروفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو سمجھا جاتا ہے جن کے پاس بچے جمورے تو بے شمار ہیں لیکن سہی معنوں میں کارکنوں کا فقدان ہے ٹیکسلا ان کا آبائی حلقہ ہے اس حلقہ میں بے شمار نام نہاد سیاسی کارکن موجود ہیں جن سے چوہدری صاحب اکثر خفارہتے ہیں جس کا انھوں نے کئی مقامات پربرملا اظہار بھی کیا ہے کئی ایسے کارکن بھی ہیں جو جماعت سے ہٹ کہ بھی چوہدری صاحب سے عقیدت کا رشتہ رکھتے ہیں کئی ایسے شہزادے کارکن بھی ہیں جو اچھل اچھل کر چوہدری صاحب کے ساتھ تصویریں بناوا کر اپنے ڈرائنگ روم کی زینت بنالیتے ہیں اور پھر انتظامیہ کو بلیک میل کر کے اپنے مفادات کے اصول پہ لگ جاتے ہیں ،یہاں پر ہی بس نہیں کرتے بلکہ حقیقی کارکنوں کی راہ میں روڑے اٹکاکر عہدوں کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں ٹیکسلا میں موجود مسلم لیگ ن کی قیادت اور عوام کے درمیان رابطوں کا فقدان ہی واحد وجہ ہے جو مسلم لیگ ن کی شکست کا موجب بنتی ہے غریب کارکن اور کوہستان ہاوس کی بلند درودیوار کی انچائی کا فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ کارکن کو جب منزل نظر نہیں آتی تو اپنا راستہ بدلنے پر مجبور ہو جاتا ہے کارکن اور مقامی قیادت کے فاصلوں کو کم کرنے کی اشد ضرورت ہے لیکن یہ خوش فہمی ہی کافی نہیں ہے کہ حاجی دلدار جیسی قدآور شخصیت کا مسلم لیگ ن میں آنے سے پارٹی مضبوط ہوگئی ہے پارٹی کا اصل ووٹر پارٹی کارکنوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے جسے رابطے میں رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ مسلم لیگ ن کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے بے شک آئندہ الیکشن میں ان کے حریفوں میں سے وہ شخص نہیں ہے جو ووٹر کو کنٹرول کرنا جانتا تھا میری مراد صدیق خان مرحوم سے ہے لیکن ان کے لگائے پودے تنا آور درخت بن چکے ہوں گئے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس حلقے کے لیے جس قدر محنت کی ہے اگر مقامی قیادت بھی تھوڑی محنت کر لے اور ڈارئینگ روم کی سیاست کی بجائے عوامی سیاست کریں، لوگوں کے ساتھ رابطوں میں رہیں ، انکے دکھ درد میں شریک ہوں ، مقامی قیادت کی نا اہلی سے عوام کو بے شمار شکایات ہیں جس کا برملا اظہار انھوں نے چوہدری نثار علی خان کو اپنے خطوط ارسال کر کے اور بلمشافہ چوہدری نثار علی خان سے ملاقات کے دوران کیا، جس پر متعددمرتبہ چوہدری نثار علی خان نے مقامی قیادت پر سخت برہمی کا اظہار بھی کی مگر مقامی قیادت اپنی تصحیح کرنے کے بجائے اسء ڈگر پر کاربند ہے یا تو ان پر چوہدری نثار علی خان کی باتو ں کا کوئی اثر نہیں ہوتا یا پھر وہ چوہدری نثار کی باتوں نصحیتوں کو سیریس لینے کی بجائے اسے محض ٹوپی ڈارمہ گردانتے ہیں ، اور سنی ان سنی کر دیتے ہیں، حقیقت کیا ہے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ درست ہے کہ موجودہ مقامی قیادت جو کہ چوہدری صاحب کے بہت بڑے انویسٹرہیں وہ انھیں کھونہیں سکتے ، دوسرے لفظوں میں یہ لوگ پارٹی کی مجبوری بنے ہوئے ہیں،حالانکہ کہ پارٹی میں کئی ایسے مخلص لوگ موجود ہیں جو پارٹی کے لئے کچھ کرنے کی تمنا رکھتے ہیں ان میں جسے راجہ طاہر ایدوکیٹ نے پارٹی کے لیے بے شمار کام کیے بلدیاتی انتخابات میں سرتوڑ محنت کر کے پارٹی کوجتوایا لیکن پارٹی کی مقامی قیادت نے انھیں کھڈے لائین لگانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ان کے علاوہ حال ہی میں مسلم لیگ ن میں شامل ہونے والے اکرار شاہ نے بھی بڑی محنت کی ۔ ایک نام راجہ سرفراز اصغر کا بھی شامل ہے جو گاہے بگاہے عوامی مسائل کے حل میں مصروف نظر آتے ہیں دن ہو یا رات راجہ سرفراز اصغر لوگوں کی خدمت میں پیش پیش نظر آتے ہیں ،انکے بھائی راجہ شیراز اصغر بھی انکے نقش قدم پر چل کر عوام کے دکھ درد میں نہ صرف شریک رہتے ہیں بلکہ بستی لالہ رخ جہاں سے راجہ شیراز اصغر کینٹ بورڈ کے الیکشن میں اپنے مضبوط حریف ملک فہد مسعود اکبر سے چند ووٹوں سے شکست سے دوچار ہوئے الیکشن ہارنے کے باوجود یہ دونوں بھائی آج بھی اسی طرح لوگوں کی خدمت میں پیش پیش نظر آتے ہیں جیسے عوامی نمائیدگی کا حق نبھا رہے ہوں بلا شبہ ایسے مخلص کارکنان سے پارٹی کا مورال میں اضافہ ہوا ہے، یوم تکبر کے موقع پر بھی راجہ سرفراز اصغر ، راجہ شیراز اصغر اور مسلم لیگ ن یوتھ ونگ کے اسامہ قاضی نے پہلی مرتبہ یوم تکبیر کو شایانے شان منانے کے لئے واہ کینٹ میں گرینڈ ریلی نکالی جس سے بلا شبہ پارٹی کے کارکنان میں نیا جوش ولولہ پیدا ہوا،سینکڑوں افراد پر مشتمل گاڑیوں اور موٹر سائیکل پر یوم تکبیر ریلی عوامی حلقوں میں زیر بحث بنی رہی جس کا تمام تر سہرا راجہ سرفراز اصغر اور انکے بھائی راجہ شیراز اصغر کو جاتا ہے،مخلص کارکنان کو اگر پارٹی میں اہم زمہ داری سونپی جائے تو کوئی شک نہیں کہ یہ لوگ پارٹی کی ترقی اسکی خوشحالی کے لئے گراں قدر خدمات دے سکیں گے،مگر یہاں تو شائد عہدوں کا کرائیٹیریا کچھ اور ہی ہے،یہ وہ تلخ حقائق ہیں جو شائد وقتی طور پر قیادت کو ناگوار گزریں گے مگر حقیقت یہی ہے،ایسے لوگوں کو اگر پارٹی کی کوئی اہم زمہ دارہ سونپی جائے تو ٹیکسلا مسلم لیگ ن کا گڑھ بن سکتا ہے ۔اس میں شک نہیں کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپنے دور حکومت میں ہارنے کے باوجود تعمیر وترقی کے بے شمار منصوبے بھی دیئے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ چوہدری صاحب کوپارٹی کی فعالیت کے لئے چند تلخ فیصلے کرنے ہونگے جس سے عوام کا اعتماد بحال ہو اور پارٹی کارکنان میں نئی تحریک پیدا ہو اور مقامی قیادت اور کارکن کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج ختم ہو،لوگوں کو مسائل کے حل کے لئے سرگرداں قیادت مسلم لیگ ن کی فعالیت کا سبب بن سکتی ہے، ناکہ ڈرائنگ روم کی سیاست کرنے والوں کو مزید پروموٹ یا جائے،ایسے اقدامات سے بلا شبہ نہ صر ف پارٹی کے ووٹ بنک میں اضافہ ہوگا بلکہ چوہدری صاحب کی محنت بھی کسی ٹھکانے لگے گی،ایسا نہ ہو کہ وقت گزر جائے اور مسلم لیگ ن کو عین اتخابات کے موقع پر پھر نئی تحریک کی ضرورت پیش آئے ،موجودہ حالات میں سابق ایم پی اے محمد صدیق خان کی وفات کے بعد حلقہ کی سیاست کا نقشہ تبدیل ہوچکا ہے ، دونوں اطراف سے پیش بندی جاری ہے پہلے تو حلقہ پی پی سات کے ضمنی انتخابات دونوں پارٹیوں کے لئے ایک آزمائش ہونگے تو پھر اسکے بعد 2018 کے جنرل الیکشن،آنے والا دور کس کے حق میں بہتر ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا

Readers Comments (0)




WordPress主题

WordPress Blog