مُک مُکا کا موجد! محکمہ نیب

Published on July 14, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 382)      No Comments

Bari
نیب ادارہ تو بہت عظمتوں والا ہے اور پکڑ دھکڑ میں بھی رو رعایت نہیں کرتا مگر کچھ کرپٹ عناصر خواہ مخواہ ہی اس سے خائف رہتے ہیں مگر دنیا داری کے تقاضوں کی طرح نیب عموماًہاتھ اسی پر ڈالتی ہے جس کے دوست احباب میں سیاسی مقتدر مچھندر شامل نہ ہوں اور کسی وزیر ،سفیر ،مشیر کا عزیز یا کارندہ نہ ہو۔ اگر یہی ادارہ اپنا احتسابی شکنجہ اوپر سے نیچے کو کسنا شروع کرتا تو آج پورے ملک میں اس کا ڈنکا بج رہا ہوتااور تھوڑا تردد کرکے چند بڑی کلغیوں والے اژدھوں کی گردن دبوچ لی ہوتی تو چھوٹے چھوٹے سنپولیے فوراً بلوں کا رخ کرچکے ہوتے۔ بتھیرے کرپٹ سیاستدان و بیورو کریٹ حتیٰ کہ کئی پارٹی سربراہ،وزرائے اعظم، صدور،وزرائے اعلیٰ ،مرکزی و صوبائی وزراء،پارلیمانی سیکریٹری و مشیر جیلوں میں پڑے گل سڑ رہے ہوتے اور قوم خوشی کے شادیانے بجا رہی ہوتی۔ مگر بڑے بیورو کریٹ اور مقتدر افراد جنہوں نے اس ادارہ کے نوٹیفکیشن جاری کروائے اور جو تبادلوں ،ترقیوں ،تنزلیوں کے کرتا دھرتا ہیں،نیزطاقتور حکومتی افراد اور بڑی مگر مچھ نما شخصیات پر کیسے ہاتھ ڈالا جاسکتا ہے؟یہی ہے وہ ملٹی ملین سوال جس کا حل ڈھونڈنا ضروری اور اہم ہے۔کہ نیب والوں کے ان پر ہاتھ ڈالتے ہوئے پیر جلتے ہیں۔در اصل انھیں کوئی سائنٹیفک فامولا ہی ایسا دے دیا گیا ہے کہ جس پر وہ جیسے چاہیں عمل در آمد کرسکتے ہیں کہ موم کی ناک جدھر چاہی مروڑ دی۔فرض کریں بیس کروڑ روپیہ الم غلم گلم کرنے والا فراڈیا پکڑ لیا ہے تو نیب کا صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ چند فیصد غالباً دسواں حصہ دے کر چھٹکارا پاسکتا ہے اس طرح کسی بھی کرپٹ آدمی کے لیے تو ہر طرح کی چاروں طرف چھوٹ ہی چھوٹ ہے کہ وہ دس ارب کی ہیرا پھیری خواہ سرکاری خزانہ سے ہی کر لے تو ایک ارب جمع کرواؤ اور باہر کے موج میلے دوبارہ شروع کرلو!بھلا گنجے کو اور بھلا کیا چاہیے دو سینگ؟ جب اٹھارہ ارب خرد برد کردہ مال سے بچ ر ہیں تو پھر ایسا سودا تو قطعاً مہنگا نہ ہے اس فارمولے کو کرپٹ بیورو کریٹ و سیاستدان مکمل طور پر سمجھ چکے ہیں اور ہر بڑے سے بڑے کرپٹ عنصر کی دلی خواہش ہے کہ زیادہ سے زیادہ بڑا گھپلا کرلے،کالا دھن بیرونی ممالک میں وکی لیکسی یا کسی دوسری لیک میں جمع کرواڈالے اور ساری زندگی آرام سے حرام مال خود اور اس کی اولادیں کھاتی رہیں ادھر تو پکڑے گئے مال سے تو صرف دسواں حصہ یا کم و بیش ہی جمع کروانا ہو گا ۔اگر آپ بڑے کرپشنی کنگ یا حرام خوروں کی “نانی اماں” ہیں تو اپنی پاکستانی واقفیتوں کی بنا پر آنکھ بچا کر باہر نکل گئے تو موجاں ہی موجاں ہو جائیں گی ادھر کون پکڑنے جائے گا؟ادھر پاکستان میں بھی ہمہ قسم پکڑ دھکڑ کے باوجود گیلانی،راجہ رینٹل (وزرائے اعظم) ،زرداری اور اس کے حواری، گجراتی چوہدری،شریف برادران اور ان کے عزیز و اقارب ،عمرانی اے ٹی ایم وغیرہ سبھی گھپلوں کے دریا بہا کر موج میلے کررہے ہیں ،سیاسی “کاروبار” بھی جاری و ساری ہیں ۔کون انھیں پکڑ سکتا ہے ۔دوبارہ انتخابی امیدواربن کر منتخب ہوگئے تو وارے کے نیارے ہیں کروڑوں لگائیں گے اور اربوں کمائیں گے اور انہوں نے ڈھیروں روپپیہ خرچ کرنے والے محفوظ بغلوں میں چھپا رکھے ہوتے ہیں اور ذاتی طور پر لوٹا ہو ا مال خرچ کرکے بھی منتخب ہو جانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ایک ایک ووٹر کو بھی خریدنا پڑے تو کیا مضائقہ اور کیا پرواہ؟ کرپٹ لیڈروں نے اے ٹی ایم کارڈز بھی انتخابی اخراجاتی مد کے لیے زیر زمین محفوظ رکھے ہوتے ہیں۔مطلب یہ ہوا کہ جو اسمبلیوں میں پہنچ گیا تو پھر کوئی بہت بڑا نحوستی ہوا تو الیکشنی کھیل ہار سکتا ہے۔دوسرے تقریباً اٹھانوے فیصد دوبارہ سیٹوں پر قابض رہ سکتے ہیں اگر دوبارہ، سہ بارہ انہی کرپشنی کنگز نے ہی منتخب ہو کر غریبوں کی گردنوں پر سوار رہناہے تو پھر ایسی لادین جمہوریت اور الیکشنی نظام کا کیا فائدہ؟ حالانکہ آئین کی دفعات 62,63موجود ہیں جن کے تحت کوئی جھوٹا ،کرپٹ ،بد دیانت ،بد عہد فرد امیدوار ہی نہیں بن سکتا(صرف بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر ہر ہفتے جھوٹ بولنے والے تو خود بخود ہی نا اہل قرار پاسکتے ہیں) عوام حیران وپریشان ہیں کہ سرکاری خزانوں کو لوٹنے،نئی بھرتیوں پر کروڑوں کمانے والے کیسے دوبارہ انتخابی امیدوار بن جاتے ہیں؟ کچھ تو ہے جس کی یہ پردہ داری ہے۔ کیسے شریف، زرداری پھر بھی جاری و ساری ہے۔در اصل وڈیرے ،جاگیردار ،نوولتیے سود خور سرمایہ داروں کے ٹولے اور ڈھیروں منافع کمانے والے صنعتکار سبھی ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں اور انکی طاقتور حکمرانی کرسیوں پر براجمان افراد ،لادین بیورو کریسی میں جڑیں بہت گہری ہیں ۔ اگر انکے خلاف مقدمات کا اندراج ہو بھی جائے تو ماشاء اللہ پولیس کے پاس ایسے درجنوں ہتھکنڈے ،ان کی تفتیشی،تحقیقی تحریریں ایسی “اعلیٰ و ارفع” کہ” محترم ملزم صاحب “کی پہلی ہی پیشی پر ضمانت ہو جائے عدالت میں جج صاحب لاکھ پوچھیں تفتیشی بولتے ہی نہیں وہ اپنے آپ کو” گو نگا ،ناسمجھ اور بہرا ” شو کر رہے ہوتے ہیں ج�ئکا سوال گندم تو جواب چنا ہی آئے گا ادھر نامور وکلاء کو بھاری فیسیں ادا کی ہوئی ہوتی ہیں اربوں کھربوں ڈکارنے والوں کی ضمانتیں ہوگئیں تو سمجھیں مقدمہ کھوہ کھاتے میں گیاپھر ایسے دفن شدہ مقدمات کو دوبارہ لگوانا جوئے شیر لانے کے مترادف اور حکومتی مدعیوں کو بھی مال لگ گیا تو انھیں کیا ایسی بکھیڑ پڑی عدالتوں میں کلرک بادشاہوں کا آٹا دلیا کہاں سے آئے گا وہ اول تو پیشیاں ہی نہیں لگاتے اگر مجبوراً لگائیں تو کاز لسٹ کے آخر میں تاکہ مقدمہ کی سماعت کی باری ہی نہ آسکے۔آمدم برسر مطلب کہ بھٹوکے عدالتی قتل کے بعد تین درجن سے زیادہ سال بیت گئے کیا کسی بڑے مگر مچھ کو سزا سنائی جاسکی ہے؟ مقدمات کی فائلیں عدالتی تہہ خانوں میں پڑی گل سڑ رہی ہیں۔ڈبل شاہ کا کیا بنا؟وکی لیکس سرے محل کہاں گئے؟ غریبوں کا خون تک نچوڑ ڈالنے والے دندناتے پھر رہے ہیں یہ سب تبھی ممکن ہو گا جب انتخابی نظام کی درستگی انقلابی بنیادوں پر ہوگی کہ کوئی وڈیرہ ،لٹیرا امیدوار ہی نہ بن سکے ۔جس کے پندرہ لاکھ جمع ہیں پانچ ایکڑ سے زائد زمین کا مالک ہے شہر میں ایک کاروباری دوکان سے زائد ہے وہ امیدوار نااہل قرار پائے،انتخابی اخراجات بذمہ حکومت ہوں پارٹیوں دعوتوں پر سختی سے پابندی عائد رہے،ووٹروں کی خرید و فروخت پر بھی نااہلی کی تلوار لٹکتی رہے اسکے بعد بھی یہ سب تبھی ممکن ہو گا کہ گلی کوچوں ،چکوں،گوٹھوں محلوں سے پسے ہوئے طبقات کے غریب،بھوکے پیاسے بیروزگار اور مہنگائی کے ڈسے ہوئے لوگ اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے تحریک کی صورت میں نکلیں اورپولنگ اسٹیشنوں پر انقلاب برپا کرڈالیں تبھی نیب بھی مؤثرہو کر احتساب کرسکے گی۔گھپلا شاہی مقتدر کارندے گہرے مدفون ہو نگے اور ملک فلاحی مملکت بن سکے گا۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress Blog