نیویارک میں بیٹھےہوئے ایک شخص خلیل چشتی جو اپنے آپ کو مذہبی اسکالر کہتے ہیں انہوں نے ایدھی صاحب کی وفات کے اگلے روز 9 جولائی کواپنے فیس بک پر ایک تیسرئے درجے کے مضمون ’’عبدالستار ایدھی: سکے کے دورخ ‘‘ جس کے مصنف کا نام ’’ڈاکٹر حسن مدنی ‘‘ ہے شایع کیا، بعد میں پاکستان میں بھی یہ مضمون دو ویب سائٹ پر شایع کیا گیا جس میں سے ایک ویب سائٹ پر ڈاکٹر حسن مدنی کانام ہے جبکہ دوسری ویب سائٹ پر ابو عبداللہ نامی ایک صاحب نے اس مضمون کو اس طرح شایع کیا جیسے یہ مضمون انہوں نے لکھا ہو، مگر ان کی بدقسمتی کہ اس ویب سایٹ سے منسلک کچھ لوگوں نے اس پوسٹ پر اعتراضات اٹھائے تو ابو عبداللہ نے یو ٹرن لیا اور ذمہ داری خلیل چشتی پر ڈال دی لیکن اپنی طرف سے بحث برابر جاری رکھی اور آخر میں بتایا کہ اس شرانگیز مضمون کے مصنف کا نام ’’ڈاکٹر حسن مدنی ‘‘ ہے ۔ ڈاکٹر حسن مدنی، خلیل چشتی اور ابو عبداللہ کے ایمان کا حال یہ ہے کہ عبدالستار ایدھی جس کی پوری زندگی انسانیت کی خدمت میں گذری ہو اس کے مرنے کے فوری بعد، لوگوں کی اس کے بارے میں خوش گمانی دور کرنا اپنے ایمان کا حصہ سمجھ رہے تھے۔
ڈاکٹر حسن مدنی کا مضمون تو بہت طویل ہے لیکن شروع میں لکھا ہے کہ ’’ عبدالستار ایدھی صاحب کے انتقال کی خبر ملی (افواہ) تو بھائی جان کہنے لگے سمجھ نہیں آئی “انا للہ وانا الیہ رجعون” پڑھنا تھا کہ “الحمد للہ”۔ ایدھی صاحب کے متعلق دو متفرق پہلوؤں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ مذہبی پہلو اور انسانی خدمت کا پہلو جو بظاہر انتہائی شاندار ہے۔ مذہبی پہلو اتنا “خوفناک” اور “بھیانک” ہے کہ آج کل کی عجلت پسند عوام کافر سے کم پر راضی نہ ہوں، اور واقعی مذہبی پہلو دیکھتے ہوئے ایدھی صاحب کا اسلام بڑا “ڈانوا ڈول” سا لگتا ہے لیکن کافر ٹھہرانا مسلمان رکھنے سے ہزار درجے مشکل کام ہے۔ بنظر طائر دیکھا جائے تو خدمت خلق کا بڑا تابناک باب نظر آتا ہے۔ لیکن جہاں تک میری “مولویانہ” سمجھ شریف میں بات آئی ہے کہ یہ سب ایک بہت بڑا مفسدہ ہے۔ اور ایک عالم نے یوں ہی بے ساختہ نہیں کہی دیا کہ “ایک تخریب کار اپنے انجام کو پہنچا”۔
ڈاکٹر حسن مدنی نے مزید لکھا ہے کہ اب خدمت خلق کا ایدھی ترجمہ “خاصا اوکھا” ہے جو اگرچہ دیگر وجوہات میں سرگرم ہے لیکن مرکزی طور پر:۔
۔1۔ بھاگ کر شادی کر لینے والی لڑکیوں کو پناہ دینا
۔2۔ جو خواتین بچوں کی پرورش نہیں کرنا چاہتی ان کے بچے سنبھال کر ان کو آزاد کرنا
۔3۔ حرام کاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کی پرورش۔
اب یہ کچھ عجیب سی بات ہے کہ درج بالا مقاصد کے تحت صرف پاکستان میں “ہزاروں” ایمبولینسیں، مراکز اور ڈسپینسریاں۔۔۔ یعنی پاکستان نہیں ناپاکستان ہوگیا یہ۔۔ معاذاللہ
ڈاکٹر حسن مدنی کے اس مضمون کو جو جھوٹے الزامات کی کیچڑ میں لتھڑا ہوا ہے، اگر آپ پورا پڑھینگے تو ایسا لگے کہ ایدھی ساری زندگی گناہ کرتا رہا ہے اور شاید ایدھی پاکستان میں صرف حرام کاری کی خدمت کررہا تھا۔ اس بات کے جواب میں اردو مجلس فورم پر ام نورالعین لکھتی ہیں کہ ’’ ہمیں ایدھی کےمتعلق سنی سنائی ہانکنے سے پہلے کم از کم ایک بار تجربہ کرنا چاہیے کہ لاوارث لاش کو اپنے ہاتھوں سےغسل دینے اور کفن پہنانے سے کیا لذت ملتی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ایدھی کے جھولوں میں پڑئے سب بچے ’’ایسے ویسے بچے‘‘ ہیں۔ کیا کسی کو یاد ہے کہ اسلام کے نزدیک ایسے ویسے بچے بھی بھی ایک انسانی جان ہیں جس کا بچانا فرض ہے اور جس کی بہتر پرورش انسانی معاشرئے کی ذمہ داری ہے اور جو اپنے ماں باپ کے جرم کے ذمہ دار نہیں‘‘۔ ڈاکٹر حسن مدنی کا مضمون تین جگہ شایع ہوا ہے لیکن سب سے زیادہ تبصرئے خلیل چشتی کی فیس بک کی پوسٹ پر کیے گئے ہیں جن میں اکثریت نے اس مضمون کو پسند نہیں کیا ہے، کچھ نہ پسند کرنے والے تبصرئے مندرجہ ذیل ہیں:۔
۔1۔کیا قاضی حسین احمد صاحب کے انتقال پر کوئی منفی پوسٹ دیکھی؟
۔2۔ بہت دکھ ہوا آپکی یہ پوسٹ پڑھ کر۔ ایک اسکالر اتنا ظالم بھی ہوسکتا ہے کہ آج کے دن ہی پوسٹ کرئے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں اسلامی اسکالرز کی عزت لوگوں کے دلوں میں کم ہورہی ہے۔
۔3۔ افسوس جس نبی مہربان نے منافقوں کے سردار کا جنازہ پڑھانے سے گریز نہیں کیا، اس کی امت کے روحانی پیشواؤں کا یہ حال ہوچکا ہے کہ ایک آدمی کے مرنے کے فوری بعد لوگوں کی اس کے بارے میں خوش گمانی دور کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
۔4۔ ایدھی مذہبی اسکالر نہیں تھے، نہ ہی زیادہ پڑھے لکھے تھے، لیکن انہوں نے انسانیت کے لیے بہت کچھ کیا، ہم ان کے کچھ بیانات کو نظرانداز بھی کرسکتے ہیں، مجموعی طور انہوں نے اچھے کام کیے ہیں، ہمیں امید ہے کہ انکی موت کے بعد اللہ انکو اچھا مقام دیگا۔
۔5۔ یتیموں کا والی، بیواوں کا آسرا، کٹی پٹی گلی سڑی لاشوں کو گلی کوچوں اور گندی نالیوں سے اٹھانیوالا عبدالستار ایدھی اب حقیقت کی دنیا میں پہنچ گیا ۔
۔6۔ ایک تیسرئے درجے کی تحریر جو ڈاکٹر حسن مدنی نے تحریر کی اور آپ جیسے مذہبی اسکالرنے شیر کی ہے، مجھےآپ سے بہت مایوسی ہوئی ، یہ قطعی اسلام کی کوئی خدمت نہیں ہے۔
۔7۔ برادران حسن مدنی اور چشتی صاحب! آپ تو ہمارے مربین ہیں … کن جھمیلوں میں خود کو الجھا رہے ہیں ….. ایسے تبصرے ایک ایسے انسان کی وفات پر نہیں بنتے جسکی شخصیت کا تعارف اسکا ویلفیئر کا کام ہو …. آپ تو ایدھی مرحوم کی شخصیت کے مختلف پہلو کو ایسے ڈسکس کر رہے ہیں گویا وہ ایک ریلیف کا کام کرنے والا نہیں بلکہ وقت کا امام تھا ….اور پھر دوسرے پہلو میں جس طرح انکی خدمات کی ایسی کی تیسی پھیری ہے اس پر تو خاموشی ہی بہتر کہ ہم اب اپنے مربین کو کیا کہیں۔
۔8۔ میرا سوال چشتی صاحب سے یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ یہ مضمون ایدھی کی موت کے بعد شایع کیا گیا، اگر ایدھی کی زندگی میں شایع کیا جاتا تو شاید مرحوم کوئی جواب دیتے۔اسلام اپنے اوپر لگائے ہوئے الزامات کی صفائی دینے کی اجازت دیتا ہے۔ میرا یہ بھی سوال ہے کہ مرنے والے کےلیے یہ کون طے کریگا کہ وہ اچھا مسلمان تھا یا برا، مخلوق یا خالق۔ میں اس بات کا پرزور یقین رکھتا ہوں کہ اس مضمون کو شایع کرنے کا وقت انتہائی نامناسب ہے۔ اللہ آپکو ہدایت دئے۔
۔9۔جناب چشتی صاحب، آپ بہت قابل احترام ہیں، آپ سے محبت اور عقیدت رکھنے والوں نے مختلف انداز میں تبصرہ کیا ہے، نچوڑ یہ ہے کہ مرنے کے بعد ایسی پوسٹ آپ سے متوقع نہیں تھی۔
۔10۔ کیا پاکستان میں ایک بھی مذہبی اسکالر ایسا ہے جس نے عام آدمی کی فلاح و بہبودکےلیے ایدھی صاحب جتنا کام کیا ہو۔
اللہ تعالی ڈاکٹر حسن مدنی، خلیل چشتی اور ابو عبداللہ اور ان جیسوں کو ہدایت دئے کہ وہ بھی کچھ انسانیت کی بھلائی کےلیے کچھ کام کریں۔ایدھی سے بغض کیوں کیا جارہا اس کی وجہ مذہبی رہنماوں کی ذھنی تنگدستی ہی کہی جاسکتی ہے۔ پورئے ملک میں ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس 15 سو سے زیادہ ایمبولینسز ہیں جبکہ تین فضائی ایمبولینسز بھی ہیں۔ ایمبولینس سروس کے ساتھ ساتھ ہسپتال، کلینکس، پاگل خانے، معذوروں کی بحالی کے مراکز، بلڈ بینک، یتیم خانے، لاوارث بچوں کے مراکز، پناہ گاہیں اور سکول بھی کام کر رہے ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن قدرتی آفات کے وقت پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی امدادی خدمات فراہم کرتی ہے۔ عبدالستار ایدھی کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ ہر ایدھی مرکز کے باہر ایک ایسےجھولے کا اہتمام ہے کہ اگر کسی وجہ سے کوئی عورت جو بچے کی دیکھ بھال نہیں کرسکتی اپنے بچے کو اس جھولے میں چھوڑ کرجاسکے۔ ہمارئے مذہبی رہنما خود تو کوئی رفاہی کام کرتے نہیں لیکن انہیں ایدھی مرکز کے باہر بچے کے جھولے سے سخت اختلاف ہے، لیکن 100 الفاذ کی کہانی کے موجد مبشر علی زیدی ہمیں ایدھی کے اس جھولے کی ایک خوبصورت کہانی سنا رہے ہیں:۔
انعام ۔۔۔۔۔۔۔۔ مبشر علی زیدی
میں جنت میں چاندی کا محل دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ وہ ایک خوب صورت باغ میں تعمیر کیا گیا تھا۔
میں ایدھی صاحب کا انٹرویو کرنے وہاں پہنچا تھا۔ محل کے باہر چاندی کی بگھیاں کھڑی تھیں۔
محل کا دروازہ اور دیواریں بھی چاندی کی بنی ہوئی تھیں۔
محل میں داخل ہوا تو ایدھی صاحب دکھائی دئیے۔ وہ بڑے سے جھولے میں بیٹھے تھے۔
میں نے تعجب کیا، ’’ایدھی صاحب! محل میں سب اشیا چاندی کی ہیں، پھر یہ جھولا سونے کا کیوں؟‘‘۔
ایدھی صاحب نے کہا،
یہ مجھے ایدھی سینٹر کے باہر جھولا رکھنے کا انعام ملا ہے۔