تحریر ۔۔۔ پرویز احمد ہاشمی
جس بات کا خدشہ تھا بالا آخر وہی ہوا اور قندیل بلوچ بھی قتل ہو گئی ۔ان باقی لڑکیوں کی طرح جو اس سے چند دن قبل اپنے اپنے گھروالوں کے ہاتھوں قتل ہو چکی تھیں جو اس سنگدل اور انتہا پسند معاشرے میں اپنے ہی رکھوالوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتاری جا چکی تھیں ان میں کراچی کی وہ معصوم لڑکی جو اپنے بھائی کے ہاتھوں گولی کھاکر اپنی آخری سانسیس لے رہی تھی اور اسکا قاتل بھائی موبائل پر گیم کھیل رہا تھا اور پاس ہی بہن اسکے ہاتھوں گولی کا نشانہ بن کر بے بسی سے موت کے منہ میں جاری تھی جبکہ اسکا دوسرا بھائی اپنے موبائل سے اپنی مرتی ہوئی بہن کی ویڈیو بنا رہا تھا اسکے بعد خیال نے پرواز کی تو لاہور کی وہ معصوم یاد آئی جس نے اپنی مرضی سے شادی کرنے کی غلطی کی تھی جسکی سزا شاید اس معاشرے میں موت ہی ہے دوسری بڑی او بھیانک غلطی اس سے یہ ہوئی کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کرنے کے باوجود اپنے والدین کی عزت کو تر جیح دی اور ان کے کہنے پر اپنے شوہر کی محفوظ پناہ سے نکل کر والدین کے ساتھ چلی گئی پھر ایک نام نہاد غیرت سامنے آئی اور اس بیٹی نے اپنی ماں اور بھائیوں کے ہاتھوں لگائی گئی اس آگ کے شعلوں میں جھلس کر اپنی آخری ہچکی لی پھر وہ معصوم بیٹی یاد آئی جس کو خیبر پختون خواہ کے ایک شہر کے چند نام نہاد غیرت مندوں نے دنیا کی سب سے محفوظ پناہ گاہ اس کی ماں کی گودمیں دبکی ڈری سہمی اپنی جان بچانے کی آخری کوشش کرتے ہوئے چھین لیا اور زندہ گاڑی میں جلا دیا گیا اور اس کی حقیقی ماں اپنی بیٹی کو چند بھیڑ یئے نما لوگوں سے نہ بچا سکی اور بے بسی کی تصویر بن کر بیٹی کو وحشی درندوں کے حوالے کردیا اور وہ (بیٹی ماں مجھے بچا لو) کی صدائیں لگاتی اپنی جان نہ بچا سکی بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے آگے میں کس بیٹی کا ذکر نہیں کر سکتا ۔مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے اور نہ ہی میرے قلم میں اتنا دم ،عوامی حکومتوں کا کام ہوتا ہے عوامی مفادات کے پیش نظر قانوں سازی کرنا اور پبلک گڈ کیلئے مناسب اور فوری اقدامات کرنا ۔لیکن موجود حکومت کا توٹریک ریکارڈ ہے یہ ہر وہ کام اس وقت کرتی ہے جب پانی سر سے گذر چکا ہوتا ہے لیکن اسی پاکستان میں جب مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں آئے روز مسجدوں اور عبادت گاہوں میں بم پھٹنے سے معصوم لوگ اڑائے جا رہے تھے یہ عوامی حکومتیں خاموش نظر آتی تھیں اور ان کو روکنے کیلئے قومی سلامتی کے اداروں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ان انتہا پسند دہشت گردوں کے ظلم و بربریت سے معصوم پاکستانی شہریوں کو بچایا جائے اور آپریشن ضرب عضب کے ثمرات سامنے آئے اور یہ ظالم بھیڑئے پاک فوج کے ہاتھوں واصل جہنم ہوئے لیکن انتہا ء پسندی اور عدم برداشت اپنی انا پرستی کو غیرت کا نام دیکراب معصوم بچیوں اور بیٹیوں کو بے رحمانہ طریقہ سے قتل کرنے کی ایک نئی رسم جنم لے چکی ہے ۔لیکن حکومت پھر خاموش ہے اور پے در پے در واقعات ہوتے چلے جا رہے ہیں ہر واقعہ میں ہمارا شہرہ آفاق محکمہ پولیس سامنے آتا ہے جو ہر بار کسی نہ کسی معصوم بیٹی کے قتل ہونے کی خبر پاکر موقع پر جا تا ہے لعش قبضہ میں لیتا ہے وہی معمول کی کاروائی کرتا ہے وہی گھر والے جو اسے قتل کرنے میں کسی نہ کسی طرح شامل ہوتے ہیں انہیں مدعی بناتاہے اور روٹین کے عین مطابق مقدمہ درج کرکے ملزم کو پکڑ کر جیل بھجواکر اپنی جان چھڑا لیتا ہے پھر وہی قاتل گھرانہ جو خود ہی مدعی اور وارث ہوتا ہے ۔بعد میں قانون میں موجود نکائس کا فائدہ اٹھاکر اس قاتل کو چھڑانے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور وہجب جیل سے رہا ہوکر اپنا سینہ تان کر اسی علاقہ میں گھومتا ہے اور بڑے غرور اور فخر کے ساتھ اپنی غیرت کی کہانیاں سناتا ہے جیسے کہ اس نے اکیلے بھارت کا لال قلعہ فتح کالیا ہو یا کشمیر کو آزاد کروا لیا ہو،ایسے شخص کوآزاد انہ گھومتا دیکھ کر اس کے اردگردکوئی وحشی اپنی غیرت جگاتا ہے اور پھر کوئی بہن بیٹی بے دردی سے قتل ہوجاتی ہے اور یہ سلسلہ جاریرہتا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک قانون ساز ادارے فور طور پر اسی قانون سازی نہیں کرلیتے ۔جس میں کہ جب بھی کوئی جانور نما شخص غیرت کے نام پر کسی بیٹی کو قتل کرکے قانون کے شکنجے سے بچنے نہ پائے اور جس طرح ایمبولینس میں اس قتل ہونے والی لڑکی کی نعش جاتی ہے بالکل اس طرح سزائے موت کے بعد اس قاتل کی لاش بھی ایمبولینس میں آئے اور لوگوں کو پیغام ملے کہ یہ اس غیرت زدہ قاتل کی لاش ہے جس نے اپنی انا کی تسکین کیلئے اپنی ہی معصوم بہن بیٹی کو ناحق قتل کیا تھا اور اس طرح کے مقدمات میں کوئی گواہ کوئی مدعی قاتل کو نہ چھڑوا سکے ،اور یہ بات تسلی بخش ہوجائے کہ جو بھی غیرت کے نام پر ناحق خون بہانے گا پھانسی کے پھندے میں آئے گا میاں نواز شریف صاحب آپ ملک کے وزیر اعظم ہیں اور میاں شہباز شریف صاحب آپ اسی ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے چیف ایگزیکٹو ہیں اب مزید دیر نہ کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ ان بے گناہ اور بے بس معصوم بیٹیوں کی چیخیں عرش کو ہلا دیں اور قدرت خود حرکت میں آئے لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی میاں صاحب بہت دیر ہوچکی ہوگی ۔فیصلہ کریں میاں صاحب فیصلہ کریں فیصلہ کی گھڑی ہے اب بھی اگر آپ نے فیصلہ نہ کیا تو وقت آپ کے خلاف فیصلہ ضرور کر دے گا اور مجھے پھر اس کام کیلئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف صاحب سے اپیل کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے ،کیونکہ وہ دہشت گردی کے عفریت کو نکیل ڈالنے میں مصروف ہیں انہیں ان کا کام کرنے دیں میاں صاحب یہ کام تو آپ باآسانی کر سکتے ہیں توکر دیجیے فیصلہ ہراس بیٹی کے حق میں جو شاید آپ کی وجہ سے آنے والے وقت میں قتل ہونے سے بچ جائے فیصلہ کی گھڑی ہے میاں صاحب کی گھڑی ۔۔۔۔