لندن( یواین پی) دانش وروں اور سماجی کارکنوں کی جانب سے جمعہ 22 جولائی کو الزام عائد کیا گیا ہے کہ فیس بک بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے حوالے سے پوسٹس سنسر کر رہا ہے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سخت کرفیو نافذ ہے اور گزشتہ 14 روز سے جاری بھارت مخالف مظاہروں اور جھڑپوں کے نتیجے میں 48 مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں۔ برطانیہ، امریکا، بھارت اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے فیس بک صارفین کی بتایا گیا ہے کہ ان کی جانب سے کشمیر میں ہونے والے تشدد کے حوالے سے پوسٹ کردہ تصاویر اور ویڈیوز کو فیس بک مستقل طور پر ڈیلیٹ کر رہا ہے۔ ان صارفین کا کہنا ہے کہ انہیں یہ پوسٹ ہٹائے جانے کے بعد فیس بک کی جانب سے پیغام موصول ہوتا ہے کہ ’آپ کی پوسٹ برادری کے معیارات اور ضوابط کے خلاف‘ تھی۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آٹھ جولائی کو علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ میں ہلاکت کے بعد بڑے پیمانے پر مظاہروں کا آغاز ہو گیا تھا، جو تاحال جاری ہیں۔ کیلی فورنیا بارکلے یونیورسٹی کی پروفیسر ہما ڈار کا، جن کا تعلق کشمیر سے ہے، کہنا ہے کہ ان کی جانب سے وانی کی تصاویر اور ان کی آخری رسومات میں ہزاروں افراد کی شرکت سے متعلق ایک ویڈیو کے پوسٹ کیے جانے کے بعد سے ان کی پروفائل یا ان کا صفحہ مستقل طور پر بند ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں فیس بک کی جانب سے پیغام موصول ہوا ہے، جس میں کہا گیا تھا، ’’ہم کسی بھی صورت اسے دوبارہ بحال نہیں کریں گے۔‘‘ لندن کی ویسٹ منسٹر یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر ڈیبیش آنند کے مطابق بھارتی سکیورٹی فورسز کی سرگرمیوں اور مظاہرین کے خلاف طاقت کے بے دریغ استعمال پر تنقید سے متعلق ان کی پوسٹس کو دو مرتبہ مٹایا گیا: ’’فیس بک نے معذرت کی مگر ایک ہی دن میں دوسری مرتبہ میری پروفائل بلاک کی گئی اور اس کی وجہ ایک تنقیدی پوسٹ بنی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’جب کشمیر میں بھارتی حکومت کے تشدد سے متعلق بہت سی پوسٹس ڈیلیٹ اور دانش وروں کی پروفائلز بلاک کی گئیں، تو اس سے واضح ہو گیا کہ فیس بک اس سلسلے میں سنسر شپ سے کام لے رہا ہے‘‘۔