پراکسی وار

Published on July 23, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 1,035)      No Comments

logo final
تحریر۔۔۔شفقت اللہ
کالج دور میں جب کسی بھی دوست نے چھٹی کرنی ہوتی تھی تو وہ اپنے ساتھی دوست سے کہتا تھا کہ یار میری پراکسی بول دینا اس طرح کلاس میں کئی دوست فنکار ہوتے تھے جو ایک ہی وقت میں تین سے چار دوستوں کی پروکسی آواز بھاری ،باریک ،نرم اور سخت لہجہ میں بدل کر حاضری لگوا دیتا تھا لیکن ایسا صرف اسی وقت ممکن ہوتا جب تعدادزیادہ ہوتی تھی اور ٹیچر کو پہچان کرنے میں مشکل پیش آتی ۔مگر جب پراکسی بولنے والا لڑکا کبھی پکڑا جاتا تو اس کے ساتھ بہت برا ہوتا یہاں تک کہ اسے کالج سے نکال دیا جاتا تھا اسی طرح اب پوری دنیا میں پراکسی وار چل رہی ہے تمام ممالک دوسرے ملکوں میں پراکسی پیدا کرتے ہیں اور پھر ان کے ذریعے ان ممالک میں اپنی موجودگی بنائے رکھتے ہیں ۔پروکسی کے لفظی معنی نائب کے ہیں مطلب کوئی بھی شخص جب کسی کو اپنا نائب بنا کر اس کے ذریعے اپنی موجودگی ظاہر کرتا ہے تو وہ اس شخص کیلئے پراکسی کاکام کر رہاہے ۔پاکستان میں اس پراکسی وار کو انجام تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ ملک میں موجود دہشتگردوں کے خاتمے کیلئے آپریشن شروع کیا گیا تو اس میں مختلف قسم کے چیلنجز سامنے آئے جن سے نمٹنے کیلئے وقتاََ فوقتاََلائحہ عمل تیار کئے جاتے رہے جیسا کہ پہلے جب فون کالز کو ٹیپ کیا جاتا تھا تو لوگ پکڑے جاتے لیکن جب پتا چلتا کہ سم پکڑے جانے والے شخص کے نام پر ضرور تھی لیکن اس کا استعمال کوئی اور کر رہا تھا۔اس صورت حال کے پیش نظر پی ٹی اے کی جانب سے پالیسی دی گئی کہ اپنی سموں کو بائیو میٹرک کروائیں جب لوگ سم بائیومیٹرک کروانے جاتے تو لوگوں کو علم ہوتا کہ ان کے پاس تو صرف ایک ہی نمبر چل رہا ہوتاتھا اور باقی پانچ چھ نمبر جن کا اسے علم ہی نہیں وہ بھی اس کے نام پر چل رہے ہیں اس طرح ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ سمیں بلاک کر دی گئیں جس پر دہشتگردوں کے ہاتھ بندھ گئے نہ کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے درپیش چیلنجز سے نمٹنا آسان ہو گیا بلکہ معصوم لوگ جو بھینٹ چڑھ جاتے تھے انہیں بھی سکون ہوگیا ۔حال ہی میں افغان مہاجرین کا مسئلہ سامنے آیا کہ جب وزیر داخلہ نے اعلان کیا کہ تمام لوگوں کے شناختی کارڈ وں کی تصدیق دوبارہ سے کی جائے جس کیلئے سرکاری طور پر ایک نمبر بھی الاٹ کیا گیا تھا کہ اپنے شناختی کارڈ کی تصدیق کیلئے شناختی کارڈ نمبر میسج میں لکھ اس نمبر پر بھیجیں آپکو اپنے خاندان کے افراد کی تعداد اور خاندان کے نمبر کی تصدیق ہو جائے گی تو اس پر بہت سی نئی باتیں سامنے آئیں جنہوں نے نادرا کی ہٹ دھرمی ،ذمہ داری سے لاتوجہی اور کرپشن کو بے نقاب کیا کہ جب مرحوم ایدھی صاحب نے اپنا شناختی کارڈ نمبر سرکاری طور پر دیئے گئے نمبر پر بھیجا تو ان کے خاندان میں چودہ افراد نکلے جبکہ ان کے خاندان میں اصل افراد کی تعداد سات تھی ۔جب ان ’’مان نہ مان میں تیرا مہمان ‘‘سات افراد کا پتہ کیا گیا تو کوئی گل خان نکلا تو کوئی شیر خان مطلب یوں کیا گیا کہ نادرا کی جانب سے افغانیوں کو جب شناختی کارڈز بنا کر دینے تھے تو انہیں کسی خاندان کا نام تو دینا ہی تھا جس کیلئے قدیم پاکستانی رہائشیوں کے خاندانوں میں انہیں بن بتائے ٹھوس دیا گیا جو کہ اب پکڑے جا رہے ہیں اور انہیں واپس افغانستان بھیجا جا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا نقصان جن لوگوں کا ہوا ہے وہ کرپشن مافیا ہیں ۔جن لوگوں نے عوام کے پیسوں کو لوٹا اور من و عن جائیدادیں بنائیں پھرحکومت کی نظروں اور ٹیکسوں سے بچنے کیلئے پراکسی پیدا کئے ۔شناختی کارڈوں کی تحقیقات میں وہ پراکسی پھنس رہے ہیں ویسے تو پراکسی کبھی پکڑے نہیں گئے لیکن اب وہ بھی پکڑے جائیں گے اور ان کے ساتھ ان کو استعمال کرنے والے لوگ بھی ۔ان کرپشن مافیا کے جب خاندان میں بھی کوئی نہیں بچا کہ جس نام جائیداد کروائی جائے تو ان لوگوں نے ایسے لوگ پیدا کئے اور ان کے نام پر جائیدادیں خریدی گئیں یہاں تک بیرون ملک میں بڑی بڑی مارکیٹیں اور فلیٹس بھی ان لوگوں کے نام پر خریدے گئے جن کے گرد عنقریب گھیرا تنگ ہونے جا رہا ہے ۔کچھ لوگ تواپنے ایجنٹوں کے ذریعے نسانی فسادات ،مذہبی فسادات اور دیگر ملکی سالمیت کے خلاف کاروائیاں کر کے تعصب پیدا کر رہے ہیں یہ چند پاکستانی لوگوں کو ورغلا کر لالچ دے کر ملک میں اندرونی انتشار پیدا کرتے ہیں جبکہ مختلف قسم کے فرقہ وارانہ لٹریچر بیرون ملک سے بھیج کر لوگوں کا استعمال کر کے انہیں پھیلاتے ہیں ۔پراکسی وار کی ایک صور ت یہ بھی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر اسلامی پروگرامز کے نام پر ایسے پروگرام نشر کر رہے ہیں جس سے اسلامی تشخص کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے بے حیائی ،فحاشی ،عریانی عام ہوتی جا رہی ہے ۔آج کے پاکستان کے بچے ٹیپو سلطان کی جگہ پرتھوی راج چوہان کو اپنا آئیڈیل سمجھنے لگے ہیں ۔دیکھا جائے تو یہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گا کہ اس جنگ میں سب سے زیادہ بیوروکریٹس اس جال میں پھنسیں گے کیونکہ سرکاری ملازم کے بارے میں میڈیا یا کوئی بھی عام آدمی آواز اٹھائے کہ اس کی تنخواہ تو اتنی ہے کہ بڑی مشکل ایک فیملی کا گزارہ ہو سکتا ہے تو پھر اس کی اتنی زیادہ جائیداد کیسے بنا لی اور لگژری لائف کیسے گزار رہا ہے؟ ان باتوں سے بچنے کیلئے کرپشن کے ماسٹر مائنڈ بیوروکریٹس پراکسی پیدا کرتے ہیں اور کرپشن کا سارا مال انہی پراکسیوں پر انویسٹ کر دیتے ہیں ۔لیکن اب ان لوگوں کیلئے بھاگنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا سب سے زیادہ دہشتگردی پراکسی وار تھی اور جب تک اسے ختم نہیں کیا جائیگا تب تک دہشتگردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے ۔لیکن یہاں چند سوالات یہ بھی ہیں کہ اگریہ لوگ پکڑے بھی جاتے ہیں تو کیا حکومت ماسٹر مائنڈز تک رسائی حاصل کر پائے گی ؟ اگر ماسٹر مائنڈ تک رسائی مل بھی جاتی ہے تو ان کا انجام کیا ہوگا؟کیا ان سے سب کچھ ری کور کیا جائیگا؟کیا احتساب جیسا کوئی دیو واقعی موجود ہے؟معاملات چاہے جو بھی ہوں لیکن پاکستان کا مستقبل مستحکم ہوتا نظر آ رہا ہے۔انشا ء اللہ۔۔۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Weboy