تحریر۔۔۔ فضل خا لق خان
گزشتہ ایک ماہ سے سوات میں تواتر سے پے درپے دھماکوں نے یہاں کی عوام کو ایک بار پھر تشویش میں مبتلا ء کردیا ہے ۔ چونکہ سوات کے سیاحتی مقامات میں آج کل موسم انتہائی خوش گوار اور معتدل ہونے کی بناء پر ملک کے دیگر گرم علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کے لئے نہایت کشش رکھتے ہیں اور اسی بناء پر رمضان کے مہینے میں لاکھوں کی تعداد میں گرم علاقو ں کے رہائشیوں نے یہاں مہنگے داموں ہوٹلوں میں کمرے بک کرانے کے بعد لوگوں کی ذاتی عمارات کو بھی کرایہ پر حاصل کرکے رہائش اختیار کی، اس کے بعد عید کے موقع پر سرکاری اعدادو شمار کے مطابق چار لاکھ سے زائد افراد نے سوات کے سیاحتی مقامات پر عید کے مزے لوٹے جبکہ اصل تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے ۔ سوات میں کشیدگی خاتمے کے بعد لوگوں کی توجہ سوات کی جانب مبذول کرانے کیلئے عسکری قیادت کی جانب سے بھی گاہے بہ گاہے اقدامات کئے جاتے ہیں جس میں ثقافتی میلوں کا اہتما م بھی ایک تواتر سے کیا جارہا ہے ،اگر چہ ان میلوں ٹیلوں کو یہاں کی عوام میں وہ پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی ہے کیونکہ منعقد کرنے والوں کی جانب سے اس میں مقامی لوگوں ، یہاں کی ثقافت اور طرز زندگی کی نظر انداز کرکے دیگر علاقوں کی ثقافت اور ان کی رہن سہن کو اجاگر کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے جس کی قطعاً کوئی ضرور ت نہیں ہوتی لیکن نہ جانے کس کا ایجنڈا ہے جسے یہاں کی لوگوں پر ایک تواتر کے ساتھ ہر سال مسلط کیا جاتا ہے ۔ پچھلی کئی سال سے اگر چہ یہ سلسلہ جاری ہے لیکن امسا ل جبکہ 12اگست سے 14 اگست تک ایک بار پھر سمر فیسٹول کا اہتمام کیا جارہا ہے لیکن مقام حیرت یہ ہے کہ سیاحتی علاقے بحرین سے آگے کالام تک روڈ کسی صورت قابل استعمال نہیں ہے ، اس پر عام گاڑی سے سفر کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ، فیسٹول منعقد کرانے والوں کے خاص مہمانوں کو تو وہاں تک پہنچانے کے لئے انتظامات کرلئے جاتے ہیں‘ رہے ان سے کم درجے کے بلائے گئے مہمان تو وہ بھی کسی نہ کسی طریقے سے وہاں پہنچ جائیں گے اور جو تیسرے درجے کے شہری ہیں وہ راستوں کی مشکلات سے گزرتے ہوئے یا تو فیسٹول کے دوسرے دن پہنچ جائیں گے اور یا تب پہنچیں گے جب فیسٹول اختتام پذیر ہوچکا ہوگا ۔ سوات کے سیاحتی علاقوں کی لوگوں کا معاشی دارومدار سیاحت کے شعبے سے وابستہ ہے جس کے لئے وہ پورا سال گرمی کے ان دنوں کا انتظار کرتے ہیں جس میں باہر سے آنے والے سیاحوں کی آمد سے ان کا کاروبار چمکتا ہے ۔ اب کی سال بھی یہی انتظار ہورہاتھا لیکن عین عید کی چھٹیوں کے دوران کالام کے علاقے مانکیال کے مقام پر نامعلوم افراد کی جانب سے دھماکے کرکے یہ پیغام دیا گیا کہ یہ علاقہ اب بھی پرامن نہیں ہے اور یہاں آنے والوں کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ، یوں تو اس وقت میڈیا کے ذریعے اس بات کا چرچا بھی کیا گیا کہ حالات پر امن ہیں اور سیاح بلا خوف وخطر یہاں آکر خوبصورت مقامات سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں لیکن حقائق کو کون جھٹلائے گا کہ جب لوگ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ جن میں خواتین اور بچوں کی اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے ایک ایسے مقام پر موجود ہوں جہاں کے باسیوں کو خود تحفظ میسر نہ ہو، جہاں بم پھٹتے ہوں ،جہاں سیکیورٹی پر مامور اہلکار خود جانوں کی قربانیاں دے کر ملک کی آن پر قربان ہورہے ہوں وہاں وہ نہتے سیاح شہری کس طرح محفو ظ رہیں گے، اور یہی وجہ تھی کہ مانکیال کے مقام پر ہونے والی ان دھماکوں کے نتیجے میں بہت سارے سیاح جو کثیر مالی اخراجات اور راستے کی ڈھیر ساری مشکلات جھیل کر کالام تک پہنچے تھے اپنا سفر مختصر کرکے واپس جانے پر مجبور ہوئے۔
اب گزشتہ جمعہ22 جولائی کو ایک بار پھر علاقے کی سیاحتی سیزن کے دُشمنوں نے ایک با ر پھر وار کرتے ہوئے کالام سے چھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع علاقے ’’بھان‘‘ میں ایک بار پھر ریموٹ کنٹرول بم دھماکہ کرکے اس میں تین افراد کو نشانہ بنایا جس کے بعد سیکیورٹی پر مامور اداروں کے اہلکاروں کے پہنچنے پر ایک اور دھماکہ کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ سیکیورٹی پر مامور اداروں کے اہلکار بھی محفوظ نہیں اور یوں ایک قیمتی جان نائب صوبیدار کی صورت میں ضائع ہونے کے ساتھ دیگر چار افراد شدید زخمی کردئیے گئے جن میں سے اطلاعات کے مطابق ایک سیکیورٹی اہلکار کی حالت تشویشنا ک ہے ۔
صورت حال کی تناظر میں یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ سوات کا مثالی امن جسے یہاں کی عوام کی تعاؤن سے سیکیورٹی اداروں کی قربانیوں کی بدولت ممکن بنایا گیا ہے کو خراب کرنے کے لئے ایک بار پھر سازش کے تانے بانے بنائے جارہے ہیں ، نادیدہ ہاتھ یا تو سوات کا سیاحتی سیزن تباہ کرنے کے درپے ہیں اور یا وہ ایک بار پھر اس علاقے کا امن تباہ کرنے کی مذموم سازشیں کررہے ہیں جسے بروقت روکنے کیلئے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے نہ کہ زبانی جمع خرچ کے لوگوں کو وقتی طورپر خاموش کیا جائے ۔
سوات میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران تواتر سے سیکیورٹی اداروں سمیت پولیس اور دیگر اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جس سے عام لوگوں کا تشویش میں مبتلا ء ہونا ایک قدرتی امر ہے ،سیاحتی علاقوں کے عوام اس تشویش میں مبتلا ء ہونے میں حق بہ جانب ہیں کہ ان کے سیاحتی سیزن کو باقاعدہ طورپر ایک سازش کے تحت تباہ کیا جارہا ہے جن کا قلع قمع کرنا سوات میں سیکیورٹی پر مامور درجن بھر اداروں کی اولین ذمہ داری ہے کہ آخر کا ریہ دھماکے سیاحتی مقامات ناران، مری سمیت دیگر مقامات پر کیوں نہیں ہورہے ہیں ، کیا کوئی قباحت ایسی ہے جو یہاں ہورہی ہے لیکن دیگر سیاحتی مقامات ان سے مبرا ہیں جو ہر سال صرف سوات کے سیاحتی مقامات کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔دوسری جانب حکومتی بے حسی کی بھی انتہا ہے کہ سال 2010 کے سیلاب میں تباہ شدہ ان سیاحتی مقامات کی سڑکوں کو کھنڈرات کی شکل میں چھوڑ دیا گیا اور ان کی تعمیرومرمت پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے ، علاقے کی لوگوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت سمیت دیگر سیکیورٹی پر مامور ادارے سوات میں حالیہ بم دھماکو ں اور امن خراب کرنے کی کوشش کرنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کیلئے اقدامات اُٹھائیں تاکہ گزشتہ ایک عشرے سے سوات کی تباہ حال سیاحتی شعبے کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدددی جاسکے۔