پیرس(یو این پی) فرانس کی انتظامیہ نے گزشتہ سال دسمبر سے اب تک انتہا پسندی کی تبلیغ کے شبے میں 20 مساجد اور عبادتی ہالز کو بند کر دیا۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق مطابق فرانس کے وزیر داخلہ برنارڈ کیزنیو کا کہنا تھا کہ فرانس میں ایسی مساجد اور عبادتی مقامات کی کوئی جگہ نہیں ہے، جہاں لوگوں کو نفرت کے لیے اکسایا جاتا ہے اور جہاں مخصوص جمہوری اقدار بالخصوص مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات کا احترام نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ ’ان ہی وجوہات کی بنا پر میں نے چند ماہ قبل یہ فیصلہ کیا کہ ایسی مساجد کو ایمرجنسی کے نفاذ، قانون یا انتظامی اقدامات کے تحت بند کر دیا جائے اور اس سلسلے میں اب تک 20 مساجد بند کی جا چکی ہیں اور آگے مزید بند ہوں گی۔‘ برنارڈ کیزنیو نے یہ بات مسلمانوں کی فرانسیسی کونسل کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد بات کرتے ہوئی کہی۔ فرانس میں تقریباً 2 ہزار 500 مساجد و عبادتی ہالز ہیں، جن میں سے 120 میں مذہبی منافرت پر مبنی تعلیمات دیئے جانے کا شبہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ فرانسیسی وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ 2012 سے اب تک فرانس سے 80 افراد کو بے دخل کیا جا چکا ہے، جبکہ مزید درجنوں افراد کی بے دخلی کا عمل جاری ہے تاہم انہوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔ برنارڈ کیزنیو کی فرانسیسی مسلم کونسل کے رہنماؤں سے ملاقات ایک ایسے موقع پر ہوئی، جب فرانس کو دہشت گردی کا سامنا۔ چند روز قبل ہی فرانس کے شہر نیس میں ٹرک کے ذریعے 84 افراد کی ہلاکتوں اور چرچ کے پادری کے قتل کے واقعات پیش آئے تھے۔ ان حملوں کے بعد سیکیورٹی ناکامی کے علاوہ کئی مساجد کی غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے گئے۔ فرانس کے وزیر اعظم مانول والز نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ مساجد کی غیر ممالک سے مالی مدد پر عارضی پابندی عائد کرنے پر غور کر رہے ہیں۔