تحریر۔۔۔ ملک محمد سلمان
زندگی کی چہل پہل جاری تھی۔ آنے والی گھڑی سے بے خبر بیمار تندرستی کی امید لگائے زیر علاج تھے توغم سے نڈھال وکلاء’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ کا شکار ہونے والے اپنے شہید قائد کی میت لینے کیلئے سینکڑوں کی تعداد میں اسپتال آئے ہوئے تھے۔
اچانک زور داردھماکے کے بعد سب درہم برہم ہوگیا فضا میں زخمی بچوں ،عورتوں اور مردوں کو چیخ وپکار سے کہرام برپا تھا،ہر طرف لہو ،کسی ماں کا لخت جگر اس سے چھین لیا گیا ، کسی کا بھائی بچھر گیا تو کہیں زندگی بھرساتھ نبھانے کا عہد کرنے والے ساتھی ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑ گئے ،ہر طرف خون ہی خون تھا چند سیکنڈ میں کھلتے چہرے مرجھا گئے،انسانی اعضاء بکھر گئے اور زخمیوں کی دل دہلا دینے والی چیخیں فضا میں گونجتی رہیں۔ مسخ شدہ لاشیں دیکھ کر ورثاء اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے ۔قیامت صغریٰ برپا کر دی گئی، پر امن نہتے شہریوں کو سماج دشمن عناصرنے اپنی بزدلانہ کاروائی کے لئے سوچی سمجھی منصوبہ بندی سے ابدی نیند سلا دیا۔میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں جن کے ذریعے اس بد ترین وا قعہ پر اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کروں ،ایک بہت المناک سانحہ گزرا ہے ، درجنوں گھروں میں ماتم جاری ہے اور پورا ملک سوگ کی کیفیت میں ہے،ہر آنکھ اشکبار ہے اور ہر دل افسردہ ہے۔
زخمیوں کی عیادت اور شہداء کی تعزیت کیلئے فوری طور پر کوئٹہ پہنچ کر وزیر اعظم اور چیف آف آرمی سٹاف نے شدید غم و غصے اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے دشمن کو عبرت ناک انجام تک پہنچانے کا عزم کیا اوردونوں نے اس بات پر اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا دشمن سی پیک کے خلاف ہے،حضوروالا اگر’’ دونوں بڑے‘‘ مسئلے کی جڑ کو سمجھ چکے ہیں تو پھر اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں بھی دورائے نہیں ہونی چاہئیے کہ’’ سی پیک ‘‘منصوبے کی سب سے زیادہ تکلیف ازلی دشمن بھارت کو ہے۔
قبل ازیں وزیراعلیٰ بلوچستان ثنا اللہ زہری بھی میڈیا میں کہہ چکے ہیں کہ صوبے میں دہشت گردی کی جتنی بھی کارروائیاں ہوئی ہیں ان میں ’را‘ ملوث ہے
اتنی طویل منصوبہ بندی کہ دہشت گردوں نے پہلے بلوچستان بارایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کی ٹارگٹ کلنگ کی، وکلا میت لینے اسپتال پہنچے تو خودکش حملہ ہوگیا۔جس طرح اسے ملٹی سٹیج پلان کیا گیا ، اس کے لیے اس سطح کی ٹارگٹ سیلیکشن جو ایک بھیڑ کو جنم دے پھر ہسپتال میں ایک دوسری کاروائی۔ اس تمام کی منصوبہ بندی، ریکی اور کوارڈینیشن کسی انٹیلی جنس ایجنسی سے کم سطح کا کام نہیں۔ پاکستان میں امن کی بحالی اور سی پیک و دیگر معاشی امکانات پاکستان کے بد خواہوں کے لیے بہت بڑا چیلنج ہیں جو انہیں کچھ بھی کرنے پر آمادہ کر سکتے ہیں۔اگست کا مہینہ پاکستان کے لیے کیا اہمیت رکھتا ہے اور بلوچستان میں یا بلوچستان سے باہر کون اس مہینہ کو خون رنگ کرنے میں دلچسپی رکھ سکتا ہے۔ تخریب کاری کی آگ کے شعلے ہمارے ازلی دشمن کی ناپاک اور بزدلانہ سازش ہے جو وجودِ پاکستان کے یوم اول سے اسی کوشش اور عمل میں لگا ہوا ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم اور ناکام ریاست بنا کر دنیا کے نقشے سے اسکا وجود ختم کر دے۔
کوئٹہ کے سول اسپتال میں خوفناک دھماکے کے نتیجے میں تقریباً 70افراد جاں بحق جبکہ 108زخمی ہوئے ہیں۔حیران کن امر ہے کہ دہشت گردی میں وہی طریقہ واردات اپنایا گیا جو 2013ء کے دھماکے میں اختیارکیاگیاتھا۔جنوری 2013ء میں کوئٹہ کے علمدار روڈ پر ایک دکان میں دستی بم سے حملہ کیا گیا، جب لوگ وہاں جمع ہوگئے تو دہشت گردوں نے بڑا دھماکا کردیا، ایک حملے کے بعد دوسرے حملے میں تقریباً سو افراد جاں بحق ہوئے۔تین سال قبل 8اگست کے ہی دن دہشت گردوں نے ایسے ہی طریقہ واردات کا انتخاب کیا، پہلے ایک پولیس افسر کوٹارگٹ کیا، پھرنمازجنازہ کے موقع پر خودکش دھماکا کرکے اعلیٰ پولیس افسران سمیت 38پولیس اہلکاروں کو شہید کر دیا۔
قبل ازیں فروری 2010ء میں دہشت گردوں نے کراچی میں شارع فیصل پر بس کو نشانہ بنایا، جاں بحق اور زخمی افراد کو جناح اسپتال منتقل کیا گیا تو دوسرا حملہ جناح اسپتال میں کردیا گیا، جس میں25 افراد جاں بحق اور 50 سے زائد زخمی ہوئے۔
اسی طرح کی کاروائی اگست 2008ء میں ڈیرہ اسماعیل خان میں کی گئی، پہلے ایک نوجوان کو ٹارگٹ کیا گیا جب اس کی میت اسپتال پہنچائی گئی تو وہاں خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑالیا، اس حملے میں 25سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے ۔انٹیلی جنس ادارے با خوبی واقف ہیں کہ یہ مخصوص اور مکارانہ طریقہ بدنام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی’’را‘‘ کا ہے۔
چندماہ قبل بلوچستان سے بھارتی نیوی کا حاضر سروس آفیسر کلبھوشن یادیو کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جو گذشتہ کئی سال سے پاکستان میں جاسوسی کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک چلا رہا تھا،گرفتار بھارتی افسر نے انکشاف کیا تھا کہ بھارت پاکستان میں مسلک کی بنیاد پر بھی لوگوں کے قتل عام میں شریک رہا ہے، کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے قتل عام کے لیے بھی بھارت سے فنڈ مہیا کئے تھے ،سانحہ صفورا چورنگی میں ملوث جو چار ملزم گرفتار ہوئے ان کے بھی ‘‘را ‘‘سے تعلق کے ٹھوس ثبوت ملے تھے ،اگر ماضی کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں نظر آتی ہے کہ یہ بھی ’’ را‘‘ ہی کی کارستانی ہے۔
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں۔۔۔؟ بیرونی دشمنوں کے بعد آخر میں نادان دوستوں کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔پاکستان جل رہا ہے ،ملک دشمن عناصر نے میرے وطن کے لوگوں کا سکھ چین ،آرام و امن سب کچھ چھین لیا ہے ۔ سیاسی جماعتیں آپس میں دست و گریباں اور ٹکراؤ کا شکار ہیں۔ صرف جھوٹ، فریب، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، تباہ کرنے اور مکر کی سیاست چل رہی ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا پر گمراہ کن پروپیگنڈا کرنا کہ دھرنے کو ناکام بنانے کیلئے یہ گورنمنٹ نے خود کروایا ہے۔خدارا ! کچھ تو شرم کرو ،سیاسی عداوت کو ذاتی اور ملک دشمنی میں نہ بدلو۔لاشوں کی سیاست کا نہ میت کو فائدہ ہوتا ہے نہ لواحقین کو!