نئی دہلی(یو این پی) بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی اٹھہتر رکنی کابینہ کے چوبیس وزراء یعنی اکتیس فیصدکے خلاف مجرمانہ نوعیت کے مقدمات درج ہیں۔ ان میں سے اٹھارہ فیصد کے خلاف قتل، اقدام قتل اور اغوا جیسے جرائم کے مقدمات قائم ہیں،یہ بات بھارت میں سیاسی اور انتخابی اصلاحات کے لیے سرگرم ایک غیر سرکاری تنظیم ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں بتائی ہے۔ یہ رپورٹ وزیر اعظم نریندر مودی کی کابینہ کے وزیروں کے انتخابات میں حصہ لینے سے قبل خود انہی کی طرف سے داخل کرائے جانے والے حلفی بیانات کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔بھار ت میں کسی بھی پارلیمانی ادارے کے لیے الیکشن میں حصہ لینے والے ہر امیدوار کو الیکشن حکام کو ایک ایسا حلف نامہ بھی جمع کرانا پڑتا ہے، جس میں اس امیدوار کے اپنے اثاثوں اور واجب الادا قرضوں کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف درج مقدمات (اگر کوئی ہوں تو) کی تفصیلات بھی بتانا پڑتی ہیں۔اے ڈی آر نامی الیکشن واچ ڈاگ نے اپنی اس رپورٹ میں کہا ہے کہ مجرمانہ نوعیت کے مقدمات صرف مرکزی وزراء کے خلاف ہی درج نہیں بلکہ ملک بھر کی ریاستی (صوبائی) اسمبلیوں کے 609 وزراء4 میں سے 201 کے خلاف بھی مختلف نوعیت کے مجرمانہ مقدمات درج ہیں۔ اسی طرح مختلف یونین ریاستوں میں سات وزیروں کو اپنے خلاف قتل اور چھ کو فرقہ ورانہ تشدد میں ملو ث ہونے کے الزامات کا سامنا بھی ہے۔جن ریاستی وزیروں کے خلاف قتل کے مقدمات درج ہیں، ان میں بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار، اتر پردیش کے رام کرن آریہ اور گجرات کے چوہدری شنکر بھائی بھی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ چھتیس گڑھ کے مہیش کمار گڈگا، راجستھان کے گلاب چند کٹاریا، راجندر راٹھور اور بہار میں رام وچار رائے ان وزراء میں شامل ہیں، جن کے خلاف اقدام قتل کے مقدمات درج ہیں۔بھارت میں طویل عرصے سے یہ بحث چلی آ رہی ہے کہ ایسے کون کون سے اقدامات ہو سکتے ہیں، جن کی مدد سے سیاست میں صرف وہی افراد آ سکیں، جن کے خلاف مجرمانہ نوعیت کا کوئی بھی مقدمہ درج یا زیر سماعت نہ ہو اس رپورٹ کے مطابق مختلف ریاستوں کے ایک سو تیرہ وزیروں کے خلاف سنگین نوعیت کے جرائم کے مقدمات قائم ہیں۔ اس معاملے میں جھاڑکھنڈ سرفہرست ہے، جہاں کے گیارہ وزراء میں سے آٹھ یعنی بیاسی فیصد کے خلاف سنگین جرائم کے مقدمات درج ہیں۔ دہلی کے سات میں سے چار(ستاون فیصد)، تلنگانہ کے سترہ میں سے نو (تریپن فیصد)، مہاراشٹر کے انتالیس میں سے اٹھارہ (چھیالیس فیصد)، بہار کے اٹھائیس میں سے گیارہ(انتالیس فیصد) اور اتر اکھنڈ میں آٹھ میں سے دو (پچیس فیصد) وزراء4 نے خود اپنے اپنے حلفی بیانات میں اپنے خلاف سنگین جرائم کے مقدمات کی تصدیق کی ہے۔بھارت کے مشہور تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف اوبجیکٹیو اسٹڈیز کے چیئرمین اور معروف ماہر سماجیات ڈاکٹر محمد منظور عالم نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بھارت میں سیاست اور جرائم کے مابین تعلق پر بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’دراصل جرائم پیشہ افراد کو پہلے استعمال کیا جاتا ہے اور بعد میں وہ خود لیڈروں کو استعمال کرنے لگتے ہیں۔ کئی سیاسی رہنما الیکشن جیتنے کے لیے جرائم پیشہ افراد کی مدد حاصل کرتے ہیں۔ لیکن ایسے سیاست دانوں کی انتخابی کامیابی کے بعد جرائم پیشہ افراد یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ آخر وہ خود بھی الیکشن جیت کر اسمبلی یا پارلیمنٹ میں کیوں نہ پہنچ جائیں اور وزیر کیوں نہ بنیں۔‘‘کیا اس صورت حال میں بہتری لائی جا سکتی ہے؟ اس حوالے سے ڈاکٹر منظور عالم کا کہنا تھا، ’’انتخابات سے قبل تفصیلات (گوشوارے) جمع کرواتے وقت جن امیدواروں نے اپنے حلفی بیانات میں اپنے خلاف مجرمانہ نوعیت کے مقدمات کی تفصیلات بتائی ہوں، انہیں اس وقت تک الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جانا چاہیے، جب تک کہ ان کے خلاف دائر مقدمات میں ان کے حق یا مخالفت میں کوئی عدالتی فیصلہ نہ آ جائے۔‘‘بھارت میں طویل عرصے سے یہ بحث چلی آ رہی ہے کہ ایسے کون کون سے اقدامات ہو سکتے ہیں، جن کی مدد سے سیاست میں صرف وہی افراد آ سکیں، جن کے خلاف مجرمانہ نوعیت کا کوئی بھی مقدمہ درج یا زیر سماعت نہ ہو۔ سماجی سطح پر ہونے والی یہ بحث ابھی تک اپنی تکمیل کو نہیں پہنچی۔