تحریر ۔۔۔ مدثر اسماعیل بھٹی
چودہ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان ایک آزاد اِسلامی ریاست بن کر دُنیا کے نقشے پر اُبھرا۔جس کے لیے بے شمار لوگوں نے جدوجہد کی اور قربانیاں دیں لیکن اُن قربانیوں اور جدوجہد کے ذکر میں چند لوگوں کا نام آتا ہے اور جن لوگوں نے اپنا سب کچھ قربان کیا ظلم وستم برداشت کیے اُن عام لوگوں کا برائے نام ہلکا پھلکا سا ذکر کیا جاتا ہے۔پاکستان میں جشنِ آزادی بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے مختلف تقاریب منعقد کی جاتی ہیں آتش بازی کر کے خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے گھروں اور بازاروں جھنڈیوں اور سبز ہلالی پرچم سے سجایا جاتا ہے۔ٹی وی،اخبارات میں آزادی کی اہمیت کو اُجاگر کیا جاتا ہے اور پا کستان بنانے کے لیے کی گئی جدوجہد کا حال بیان کیا جاتا ہے وطن کی سلامتی اور خوشحالی کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔اتنی خوشیاں کیوں نہ منائی جائیں آخر کار اس ملک میں ہم آزاد ہیں جسے ہمارے بزرگان نے قربانیاں دے کر طویل جدوجہد سے حاصل کیا انگریزوں کی غلامی سے نجات ملی اور خالصتاً اسلام کے نام پر ملک پاکستان قائم ہوا ۔لیکن اب مجھے ۱۴ اگست کو کوئی خاص خوشی محسوس نہیں ہوتی بلکہ ایک عجیب سی الجھن ہوتی ہے۔چند سال قبل ۱۴ اگست کو محلے کے ایک مکان کی دیوڑھی میں چند ضعیف العمر خواتین بیٹھی بات چیت کر رہی تھیں اور ساتھ ساتھ پان بھی چبا رہی تھیں ۔میرا اُدھر سے گذر ہوا تو میں نے سب کو سلام کیا سب نے خوش دِلی سے دعاؤں کے ساتھ سلام کا جواب دیا ۔پھر میں نے سب کو آزادی کی مبا رکباد دی تو سب نے خیر مبارک کہا لیکن اُن میں سے ایک خاتون کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔میں نے حیرانی اور پریشانی کے عالم میں بزرگ خاتون سے آنسو ؤں کا سبب پوچھا تو باقی خواتین نے کہا کہ بیٹا کچھ وجہ نہیں ہے تم جاؤ جہاں جا رہے تھے خدا تمہاری عمر دراز کرے ۔لیکن رونے والی بزرگ خاتون نے مجھے بیٹھنے کو کہا تو میں قریب پڑی لکڑی کی پیڑھی پر بیٹھ گیا اورسوالیہ نظروں سے بزرگ خاتون کی طرف دیکھنے لگا ۔عُمر رسیدہ چہرے،سفید بالوں اور بھیگی آنکھوں والی خاتون چند لمحے میری طرف دیکھتی رہی اور پھر اپنی طوطلی زبان میں مجھ سے کہا کہ بیٹا یہ دن تمہارے لیے خوشی کا دن ہو گا لیکن اِس دن مجھ پر قیامت گزری تھی ۔میری بے چینی اور بڑھ گئی بے چینی کے عالم میں وجہ پوچھی تو فرمانے لگی کہ ہم لوگ ہندوستان میں پانی پت کے علاقے میں رہتے تھے اور بھینسوں کے بیوپار کا کام تھا ہمارے باقی رشتے دار بھی بیو پاری تھے ۔وہاں ہندو بھی مقیم تھے اور ان کے ساتھ میل جول ،رہن سہن بھی اچھا تھا ۔میری شادی کو چند دن ہی ہوئے تھے اور پاکستان اور بھارت بننے کی وجہ سے اکثر مسلمان ہجرت کر کے پاکستان جا رہے تھے اور ہندو،سِکھ بھارت آرہے تھے ایک دن میرے بھائی و دیگر رشتہ دار کلکتہ اور دیگر شہروں سے اُدھار کی رقم اکٹھی کرنے چلے گئے اگلے دن ہی یہ خبر ملی کہ پاکستان میں سکھوں اور ہندؤں کا قتلِ عام ہوا ہے اور لُوٹ مار کی گئی ہے یہ خبر سننے کے بعد ہمیں خوف محسوس ہونے لگا شام کے وقت اطلاع ملی کہ ہندؤں اور سکھوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیے ہیں اُس وقت ہمارے مردوں میں سے صرف میرا خاوند موجود تھا میری ساس نے برادری کی خواتین اور بچوں کو ایک بڑی حویلی میں جمع کیا جس میں گہرا کنواں موجود تھا اور میرا خاوند جو لاٹھی چلانے کا ماہر تھا حویلی کے باہر پہرے پر بیٹھ گیا میری ساس نے سب کو کہا کہ اگر ہندو یا سکھ آ جائیں اور کوئی چارہ نہ رہے تو کنویں میں چھلا نگ لگا دیناتاکہ تمہاری عزت محفوظ رہے ۔ہماری رات بڑی بے چینی اور خوف کے عالم میں گزری۔علی الصبح چیخوں اور نعروں کی آواز نے ہمیں چونکا دیا ہم لوگ حویلی کی چھت پر چلے گئے اور سوراخوں سے باہر دیکھنے لگے کچھ دیر بعد سِکھوں کی ایک ٹولی آئی تو میرے خاوند نے دلیری سے اُن کا مقابلہ کیا اور کئی سکھوں کو زخمی کر دیا ابھی لڑائی جاری تھی کہ ایک اور ٹولی آئی اور اُنہوں نے بھی میرے خاوند پر حملہ کر دیا ۔اِس دوران ہم سب کی دِلوں کی دھڑکنیں تیز ،آنکھوں میں آنسو اور لبوں پر خُدا سے مدد کی دُعائیں تھیں ۔تلواروں،خنجروں اور ڈنڈوں سے مسلح بیسیوں آدمیوں سے ایک لاٹھی سے مسلح شخص کب تک لڑتا ۔تلواروں کے وار کو روکنے کی وجہ سے لاٹھی کٹتی چلی گئی اور آخر وہ واحد ہتھیار بھی نہ رہا ۔سِکھوں نے پے در پے تلواروں کے وار کر کے میرے خاوند کو شدید زخمی کر دیا اور زخمی حالت میں وہ زمین پر گِر گیا۔اُس کے گرتے ہی ایک سکھ اُس پر بیٹھ گیا اور خنجر سے گردن کو دھڑ سے الگ کر دیا خون کے ایسے پُھوارے نکلے کہ زمین تر ہو گئی اور میرے خاوند کا دھڑ تڑپ تڑپ کر بے جان ہو گیا ۔جس وقت وہ ظالم میرے خاوند کی گردن پر خنجر پھیر رہا تھا اُس وقت میرے خاوند کی نظریں حویلی کی جالیوں کی طرف تھیں مجھے اُس وقت یوں لگا کہ وہ مجھے ہی ڈھونڈ رہی ہیں ۔جیسے جیسے وہ بزرگ خاتون بتاتی جاتی تھی ویسے ویسے اُس کی آنکھوں میں آنسو بڑھتے جا رہے تھے اور لب کپکپا رہے تھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ منظر ابھی بھی اُس کی آنکھوں کے سامنے ہے ۔پھر بزرگ خاتون نے بتایا کہ میرے خاو ند کو خون میں نہلانے کے بعد ظالموں نے حویلی کے دروازے کا رُخ کیا اور اسے توڑنے کی کوشش شروع کر دی حویلی میں موجود عورتوں اور بچوں نے چیخ وپکار شروع کر دی چند لڑکیوں نے کنویں میں چھلانگ لگا دی اور کئی عورتیں دروازے کو زور لگا کر سہارا دے رہی تھیں ۔کافی دیر تک جب دروازہ نہ ٹوٹا تو وہ ظالم چلے گئے ۔تھوڑی دیر بعد میری ساس باہر نکلی اور اپنے بیٹے کے دھڑ کو گھسیٹ کر دیوار کے ساتھ لگایا اُس کے کٹے ہوئے سر کو دھڑ کے اوپر رکھ کر اُس کے گرد اپنا دوپٹہ لپیٹ دیا اور واپس آ گئی ۔کنویں میں چھلانگ لگانے والیوں کو بچانے کی بہت کوشش کی لیکن اُن میں سے بھی کوئی زندہ نہ بچی ۔حویلی میں موجود ہر کسی کی آنکھ میں آنسو،مایوسی اور خوف تھا ۔دوپہر کے وقت میں اور میری چچا زاد بہن چپکے سے دروازہ کھول کر باہر نکلے کہ باہر پڑے شہید کی لاش کو اندر لے آئیں ابھی ہم روتے روتے شہیدکی لاش کو گھسیٹ رہی تھیں کہ اچانک سکھوں کی ایک ٹولی آ گئی ہم حویلی کے اندر بھاگنے کی بجائے خوف سے چیخنے لگیں ہماری چیخیں سُن کر ایک عورت نے فوری حویلی کا دروازہ بند کر دیا ۔اِن الفاظ کے ساتھ ہی اُس بزرگ خاتون کی رونے کی وجہ سے ہچکی بندھ گئی میں نے قریب پڑے جگ سے پانی کا گلاس بھرا اور خاتون کو دیا وہ کپکپاتے ہاتھوں سے پانی اس طرح پی رہی تھی کہ زیادہ تر پانی اس کے دوپٹے اور کپڑوں پر گر رہا تھا ۔تھوڑی دیر بعد وہ دکھیاری بزرگ خاتون کہنے لگی کہ وہ ظالم مجھے اور میری چچازاد بہن کو زبردستی اُٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے اُن میں سے ایک سکھ مجھے ایک ٹوٹے پھوٹے گھر میں لے گیا اور مجھے باندھ کر بہت مارا پیٹا ۔ایک اور سکھ کی مدد سے ظالم نے سُوا گرم کر کے میری زبان پر مارا جسکی تکلیف اس قدر تھی کہ میں دعا کرتی رہی یااللہ مجھے موت دے دے۔چند دن تک جب میری مدد کو کوئی نہ آیا تو مجھے لگا کہ میرا سارا خاندان مارا جا چکا ہے قریباًچھ ماہ تک میں اُس قید میں طرح طرح کی اذیتیں جھیلتی رہی آخر ایک دن دروازے پر دستک ہوئی تو اُس سکھ نے دروازہ کھولا ۔دروازے پر میرا سُسر اور پولیس تھی میں بھاگ کر سُسرسے چمٹ گئی اور بلک بلک کر رونا شروع کر دیا پھر میں سُسر کے ساتھ پاکستان آ گئی کچھ دن بعد میری شادی میرے دیور سے کر دی گئی ۔میرے سُسر نے سب کو سختی سے روک دیا تھا کہ کوئی مجھ سے ان دنوں کے بارے نہیں پوچھے گا آج تک میں وہ دن اور مہینے نہیں بھولی ۔میری آنکھوں میں بھی آنسو تیرنے لگے پھر بھی میں نے ہمت کر کے پوچھا کہ آپکی چچا زاد بہن کا کیا بنا؟تو کہنے لگیں کہ میرا سُسر جو میرا چچا بھی تھا اس کا ہندوستان میں بہت اثر ورسوخ اور جان پہچان تھی وہ مجھے پاکستان چھوڑ کر واپس چلا گیا تھا اور آخر ڈیڑھ سال بعد میری چچا زاد بہن اور اپنی بیٹی کو ڈھونڈ کر اپنے ساتھ پاکستان لے آیا میری چچا زاد بہن کا وہاں ایک بیٹا بھی تھا وہ کافی عرصہ اپنے بچے کو یاد کر کے روتی تھی پھر اسکی بھی شادی کر دی گئی ۔آج وہ بزرگ خاتون اس دُنیا میں موجود نہیں لیکن جب بھی چودہ اگست کا میرے سامنے ذکر ہوتا ہے تو دِل بُجھ سا جاتا ہے اور میں یہ سوچتا ہوں جس پاکستان کی وجہ سے ہزاروں قربانیاں دی گئیں ۔ہم نے اُس پاکستان کے لیے کیا کیا؟پاکستان پر اقتدار کو اپنا حق سمجھنے والے لُٹیروں،کرپشن کرنے والوں اور ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے والوں کو پاکستان کے قیام کے لیے جانیں دینے والے شہداء،اذیتیں برداشت کرنے اور اپنے پیاروں کو اپنی آنکھوں سے ذبح ہوتے ہوئے دیکھنے والی خواتین اور اپنا گھر بار چھوڑ کر کسمپرسی کی زندگی گزارنے والے عام لوگ روزِ آخرت گریبان سے پکڑ کر بارگاہِ الٰہی میں دہائی دیں گے اور ایسا یقیناًہو گا تب خدا کے غضب سے بچنا ناممکن ہو گا۔سب سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ ہے کہ اُن شہداء اور مظلوموں کا ذکر کوئی نہیں کرتا سب قائد اعظم،علامہ اقبال اور ایسے نامور لوگوں کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں جو کہ پڑھنے بھی چاہئیں۔ لیکن اُن عام لوگوں کا ذکر بھی ضروری ہے جن کے بغیر کوئی شخص لیڈر نہیں بن سکتا۔لیڈر کے حق میں نعرے مارنے والے بھی عام لوگ ہوتے ہیں اور اس کے حکم پر لبیک کہنے والے بھی عام لوگ ہوتے ہیں۔ووٹ ڈالنے والے بھی عام آدمی ہوتے ہیں۔الیکشن جتوانے والے بھی عام آدمی ہوتے ہیں لیکن اُن عام آدمیوں کا کہیں نام نہیں ملتا بلکہ اُن کا استحصال کیا جاتا ہے آخر کب تک ایسا چلتا رہے گا عام آدمی کو ہوش کب آئے گی؟مجھے رب کائنات سے امید ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب عام آدمی کی حکمرانی ہو گی۔اللہ پاک مجھے،آپ سب کو،پوری قوم کو اور پاکستان کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔آمین۔۔۔