تحریر:۔ شفقت اللہ
اسلام و علیکم پاکستانیوں ! جنگ شروع ہو چکی ہے یہ الفاظ اس رات ریڈیو پاکستان پر وقت کے صدر مملکت ایوب خان کے تھے اور اسکے بعد تمام نشریات بند کر دیں گئی ۔1965 ء میں بھارت اور پاکستان دونوں پڑوسی ممالک کے مابین ہونے والی یہ پہلی جنگ تھی جس میں فریق اول یعنی بھارت نے بین الاقوامی سرحد عبور کر کے فریق ثانی یعنی پاکستان پر جنگ مسلط کر دی ۔اس جنگ کی بنیاد آپریشن جبرالٹر میں قائم ہو چکی تھی ۔تقسیم ہند کے بعد ہی سے پاکستان اور بھارت کے درمیان خاصی کشیدگیاں برقرار رہیں جو عصر حاضر تک جوں کی توں ہیں اگرچہ تمام مسائل میں مسئلہ کشمیر سب سے بڑا مسئلہ رہا مگر دوسرے سرحدی تنازعات بھی چلتے رہے مثال کے طور پر بھارتی گجرات کے ایک بنجر علاقے رن آف کچھ کے مسئلے نے 1956ء میں سر اٹھایا جسکا اختتام بھارت کے متنازع علاقے پر دوبارہ قبضے سے ہوا جنوری 1965میں پاکستانی سرحدی محافظوں نے اس متنازعہ علاقے میں بھارتی جارحیت کو روکنے کیلئے گشت شروع کیا جس سے کشیدگی دن بدن سنجیدہ صورتحال اختیار کرتی گئی جس کے صلے میں آٹھ اپریل 1965ء کو بھارتی افواج نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے پاکستانی سرحدوں پر حملے کرنا شروع کر دئیے ابتدا میں بات چیت کے ذریعے معمہ کو حل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بھارتی ہٹ دھرمی نے دونوں ملکوں کی افواج اور قوم کو ایک دوسرے کے مد مقابل آنے پر مجبور کر دیا دشمن یہ سمجھتا تھا کہ پاکستان کمزور ہے اور اسکے پاس نہ تو اتنے وسائل ہیں کہ جنگ کر سکیں اور نہ ہی اتنی فوج لیکن جن کے حوصلے بلند ہوں انہیں کسی بلا کا ڈر نہیں جن کے سر صرف خدائے یکتا و غالب کے سامنے جھکتا ہو وہ سر کٹانا تو پسند کرتے ہیں جھکانا نہیں ۔آپریشن جبرالٹر کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اس وقت جنگ میں بدل گئی جب بھارتی فوج کی جانب سے درگاہ حضرت بل کی بے حرمتی کی گئی جس سے کشمیری مسلمانوں میں شدید غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور پھر اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وادی کشمیر کی حیثیت سے متعلق بھارتی پارلیمان میں پیش ہونے والے قانون نے بھی کشمیری مسلمانوں میں شدید اضطراب کی سی کیفیت پیدا کر دی اور وہ آزادی کیلئے مستعد نظر آنے لگے ۔آپریشن جبرالٹر کے نتائج بڑے خطرناک نکلے اور اسی کی وجہ سے کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال اور سرحدوں پربھارتی ہٹ دھرمی پاکستان نے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا آپریشن جبرالٹر کے بطن سے ہی اس پاک بھارت جنگ نے جنم لیا ۔جنگ کی شروع پہلے ہی بھارت کی جانب سے کی جا چکی تھی اور اب 25اگست 1965 کو لائن آف کنٹرول کو عبور کیا اور نہتے معصوم لوگوں پر گولہ باری اور گولیاں برسائیں لیکن ایمان کی طاقت اور سینوں میں قرآن لئے یہ لوگ نہ تو ڈرے اور نہ ہی انکے حوصلے پست ہوئے بلکہ پاک افواج کے شانہ بشانہ جنگ لڑی ۔اگست کے آخر تک دشمن نے تین اہم پہاڑی مقامات پر قبضہ کر لیا تھا لیکن ہم بھی کسی سے کم نہیں تھے اور دشمن کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے تتوال ،پونچھ اور اوڑی کے علاقوں میں پیش رفت کرتے ہوئے قبضہ کر لیا ۔یکم ستمبر 1965کو پاکستان نے جوابی حملے کا آغاز کیا اور اس آپریشن کو گرینڈ سلام کا نام دیا جس کا مقصد جموں کشمیر کے اہم شہر اکھنو پر قبضہ کرنا تھا جہاں سے بھارتی فوجیوں تک رسد کا راستہ اور مواصلاتی سلسلہ کاٹ دیا جاتا ایوب خان نے حساب لگایا کہ ہندو صحیح وقت اور جگہ پر کھڑے رہنے کا حوصلہ نہیں کریں گے اس آپریشن نے دشمن کی جڑی اکھاڑ دیں اور بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے ساتھ عسکری طاقت نہ ہونے کے برابر تھی لیکن ایمان کی طاقت بہت بڑی چیز ہوتی ہے ہمیشہ سے اگر امت مسلمہ کو کسی چیز نے جوڑے رکھاہے تو وہ مذہب اسلام ہے اسی کی کڑی میں بندھ کر ہر سطح پر تعصب سے پاک ہو جاتے ہیں اس جنگ میں بھی یہی ہوا پاکستانی عوام نے افواج پاکستان کے شانہ بشانہ جنگ لڑی لوگوں نے اپنا تمام تر سروسامان عورتوں نے اپنے زیورات ،لڑکیوں نے جہیز ،جوانوں نے خون گویا ہر طبقہ نے اپنی بساط کے مطابق قربانی دی اور اپنے وطن عزیز کو بچایا ۔اس ملک کے فنکار اور گلوکار بھی پیچھے نہیں رہے نور جہاں کے گیت ،اے وطن کے سجیلے جوانوں ،اے پت ہٹاں تے نہیں وکدے و دیگر نے جوانوں اور عوام کے خون کو گرمائے رکھا اور ان کا حوصلہ بلند رکھا اور انہیں گیتوں کی بنا پر نورجہاں کو ملکہ ترنم کے خطاب سے بھی نوازا گیا ۔وہ ایک عالم ہی کچھ اور تھا کہ جب عورتیں اپنے بھائیوں ،شوہر ،والد اور بیٹوں کو قربان ہونے کیلئے بھیجتیں تھیں ہر فوجی اور عام آدمی شہادت کا عزم لئے سر پر کفن باندھے نکلتا تھا اور دشمنوں کیلئے ایٹم بم کا کام کرتا وسائل نہ ہونے کی وجہ سے حوصلے پست نہیں ہوئے بلکہ اور بلند ہوئے اپنی چھاتیوں پر بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں تلے لیٹ جاتے اور تباہ کر دیتے جب بھی مسلمانوں نے حق کیلئے آواز اٹھائی اور اللہ کا مقصد پورا کرنا چاہا تو اللہ نے بھی غیب سے نصرت فرمائی اتنی بڑی فوج کے سامنے اپنے بندوں کو رسوا نہیں ہونے دیا کئی واقعات ملتے ہیں اور بھارتی فوجی افسر بھی خود تسلیم کرتے ہیں کہ ایسے حادثات اور واقعات رو نما ہوئے جن کو ہم سوچ بھی نہیں سکتے ایک افسر نے ٹی وی پر انٹر ویو دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں میں ایک ایسی سفید فام فوج تھی جو ہم نے کیا پہلے کبھی کسی نے نہیں دیکھی ہو گی وہ لوگ سفید گھوڑوں پر سوار ہماری طرف بڑھے اور تا حد نظر ہماری فوجوں کی نشستیں اکھاڑتے ہوئے آگے نکل گئے اور لوٹ کر نہ آئے ۔عوام کا ولولہ یہ تھا کہ توپوں ،گولیوں اور ٹینکوں کے مقابل سوٹے اور ڈنڈے لے کر میدان جنگ میں کود پڑے اور دشمن سے مقابلہ کیا ۔اس جنگ میں اڑتیس سو پاکستانی فوجیوں نے جام شہادت نوش کیا جن میں سے میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کو بعد از شہادت پاکستان کے سب بڑے شجاعت کے اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا ۔اس جنگ میں دو لاکھ ساٹھ ہزار پاکستانی افواج نے دشمن کی سات لاکھ فوج کے خلاف ایمان کی طاقت کا لوہا منوایا اور پرچم ستار و ہلال کو سربلند کیا ۔دشمن کی سات سو بیس توپوں کے مقابلے میں ہماری پانچ سو باون توپوں نے آگ اگلی اور ان کے گندے ارادوں کو نیست و نابود کیا ۔کہتے ہیں وقت خود کو دوہراتا ضرور ہے لیکن انسان سمجھتا نہیں عصر حاضر میں آپریشن جبرالٹر کی طرح برہانی وانی کی شہادت نے بھی وادی کشمیر میں پھر سے تحریک آزادی کی ایک نئی لہر چلا دی ہے جس کا شور دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اور اسکی گونج بھارت میں آسام اور دوسرے خالصتان کے علاقوں میں سنائی دیتا ہے چنانچہ اس پر اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں چپ سادھے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی یہ کسی کے بس میں نہیں رہا ہے آئے روز بڑھتی ہوئی کشمیری مسلمانوں کی شہادتیں بھی بھارتی افواج کیلئے کبھی نہ بھرنے والا ناسور بنتا جا رہا ہے ۔دوسری جانب بھارتی وزیر اعظم کی ہرزہ سرائی بھی کھل کر سامنے آ گئی ہے اور وہ کتنا جمہوری ہے یہ انکی اپنی پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ بتا رہے ہیں اس وقت بھارت ایک عالمی دہشتگرد کے طور پر اپنا لوہا منوانے کی کوشش کر رہا ہے جسے سبھی رد کر رہے ہیں لیکن دشمن 1965کی جنگ بھی نہ بھولیں کہ کس قدر اس قوم میں جذبہ ہے قربانی کا ،محبت کا ،ہم آہنگی اور بھائی چارے کا بھارتی تو چاہے اپنے بانی کا پیغام بھول چکے ہیں لیکن ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ قائد اعظم نے ہمیں ایمان ،اتحاد ،تنظیم ،یقین و محکم کا درس دیا ہے جو ہمیشہ ہمارے سینوں میں پنپتا رہے گا ۔ہمارے پاس توحید کی طاقت اور ایمان کی ایسی دولت ہے جسے کسی ہتھیار کی ضرورت نہیں اور اس مٹی سے ہمیں جو محبت ہے وہ آپ نے پینسٹھ کی جنگ میں بھی دیکھی تھی اور اب بھی دیکھو کہ جب آپریشن ضرب عذب کی بدولت ہم نے کس طرح دشمن کے ناپاک ارادوں کو نیست و نابود کرتے ہوئے ناکوں چنے چابنے پر مجبور کیا ہے اور عالمی طاقتیں بھی اس فتح کو دیکھ کر دنگ رہ گئیں ہیں کہ اتنی پر عزم فوج اور صبر و استقامت والی قوم دنیا میں نظر دوڑائیں کہیں نظر نہیں آتی ۔پینسٹھ کی جنگ ویسے تو سترہ دن لگاتار چلتی لیکن اس کی فتح کو منانے اور ہمارے شہدائے وطن ،شہدائے اسلام کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے چھ ستمبر کا دن مقرر کیا گیا ہے ۔اس جنگ کے متعلق دشمن اپنی عوام کے سامنے سر خرو ہونے کیلئے کامیابیوں کے دعوے کرتا ہے لیکن یہ سچ ہے کہ دشمن نے اپنا پندرہ سو مربع میل سے زائد کا رقبہ گنوایا اور بری طرح شکست کھائی جسکی گواہی اقوام متحدہ اور امریکہ خود دیتا ہے اور پاکستان کی استقامت و صبر دیکھ کے حیرت میں بھی مبتلا ہے ۔