تحریر: رانا اعجازحسین
روز ازل سے ہی اللہ تبارک و تعالیٰ کا قاعدہ اور ضابطہ رہا ہے کہ وہ اپنے مقربین کے ساتھ خاص قسم کا معاملہ کرتا ہے۔ایسا معاملہ جو عام انسانوں کے ساتھ نہیں کیا جاتا۔ محبوبانِ بارگاہ الٰہی کو امتحان اور آزمائش کی سخت سے سخت منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ انہیں قدم قدم پر جاں نثاری او رتسلیم ورضا کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ امّت مسلمہ کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد تمام مخلوقات میں انبیائے کرام علیہم السلام کا مرتبہ ہے۔ وہی اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب واقرب ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجی گئی آزمائش میں پورے اترے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے رب کریم کے ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کیا۔ انبیائے کرام علیہم السلام کو اشاعت دین کی محنت کے سبب امتحان وآزمائش سے دو چار ہونا پڑا۔ ہر نبی اور رسول کے امتحان کا انداز مختلف تھا۔ اللہ تعالیٰ کے انہیں برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک سیّدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر اور تسلیم ورضا اور اطاعتِ ربّانی کے پیکر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا خلیل ( گہرا دوست) قرار دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی استقامت دین کے لیے یپش کی جانے والی عظیم قربانیوں سے عبارت ہے۔ اللہ رب العزت کو آپ علیہ السلام کا جذبہ قربانی و استقامت اسقدر پسند آیا ،کہ یہی جذبہ قربانی ہر دور کے لیے ایمانی معیار اور کسوٹی قرار دیا گیا ہے۔ آپ علیہ السلام کو قدم قدم پر امتحانات وآزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ ہر امتحان وآزمائش میں کامیاب وکامران ہوئے۔ یہاں تک کہ عقیدہ توحید بیان کرنے او ربت شکنی کی پاداش میں آپ علیہ السلام کو بادشاہ نمرود نے آگ میں ڈالا تو آپ علیہ السلام عظمتِ دین اور عقیدہ توحید کی سر بلندی کے لیے پوری طرح ثابت قدم رہے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ کا فرمان مبارک جاری ہوا ’’ ہم نے حکم دیا آگ کو، اے آگ! سرد ہو جا اور ابراہیم علیہ السلام پر سلامتی والی ہو جا۔‘‘ ( سورۃ الانبیاء :69) شاعر مشرق علامہ محمداقبال نے اس حقیقت کو بہت خوب صورت انداز میں بیان کیا ہے۔
آج بھی ہو جو ابراہیم علیہ السلام کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
ابھی یہ آزمائش ختم نہ ہوئی تھی کہ اس کے بعد پنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام اور بیوی حضرت حاجرہ کو فاران کے بیابان میں چھوڑنے کا حکم ملا۔ یہ بھی کوئی معمولی امتحان نہ تھا، سخت آزمائش کا مرحلہ تھا۔ بڑھاپے اور پیرانہ سالی کی تمناؤں کا مرکز، راتوں اور دنوں کی دعاؤں کا ثمر، قلب ونظر کا چراغ سیّدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام کو آپ صرف حکم الٰہی کی تعمیل میں ایک بے آب وگیاہ مقام پر چھوڑ آتے ہیں۔ اس طرح کہ پیچھے مڑکر بھی نہیں دیکھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شفقت پدری جوش میں آجائے اور حکم ربانی کی تعمیل میں لغزش ہو جائے۔ ان کٹھن منزلوں کو عبور کرنے کے بعد اب تیسری آزمائش کی تیاری ہے، جو پہلے دونوں امتحانوں سے کہیں زیادہ سخت ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام تین رات متواتر خواب دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں ’’ اے ابراہیم ! تو ہماری راہ میں اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کر دے۔‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام تسلیم ورضا اور اطاعتِ ربانی کا پیکر بن کر تیار ہو گئے۔ چوں کہ اس امتحان وآزمائش میں بیٹا بھی شریک تھا۔ اس لیے باپ نے اطاعت شعار اور فرماں بردار بیٹے کو اپنا خواب اور خدا کا حکم سنایا۔ سیّدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے والد کی طرح اولو العزم، ثابت قدم ، عزیمت واستقامت، تسلیم ورضا اور اطاعت ربانی کے پیکر تھے۔ فوراً ہی سر تسلیم خم کر دیا اور کہا ’’ اگر خدا کی یہی مرضی ہے تو آپ انشاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘
یہ فیضانِ نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل ؑ کو آداب فرز ندی؟
حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جانب سے بارگاہ خدا وندی میں حضرت اسماعیل کی یہ قربانی، ایک عظیم اور یاد گار قربانی تھی۔ جس کی مثال دینے سے آج تک دنیا قاصر ہے۔ چشم فلک نے بھی اطاعتِ الٰہی کا ایسا منظر نہ دیکھا تھا۔ صبرو استقامت اور جاں نثاری بھی محو حیرت تھے کہ ایسا باپ جسے بڑھاپے میں اولاد نصیب ہوئی، اسی پر وہ چھری پھیرنے چلا ہے۔ اللہ رب العالمین کی جناب میں قربانی کا ثبوت انسانی تاریخ کے آغاز ہی سے ملتا ہے۔ بنی نوع انسان کے والدحضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی کا ذکر قرآن میں کچھ اس طرح ہے ’’ اور سنا دیجیے، انہیں حال آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا سچا، جب کہ ان دونوں نے قربانی پیش کی، تو ان دونوں میں سے ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی نہ ہوئی ، تو اس (قابیل) نے کہا ، میں تجھے ضرور قتل کردوں گا، اس ( ہابیل) نے کہا بے شک ، اللہ تو پرہیز گاروں ہی سے قبول فرماتا ہے۔‘‘ (سورۃ المائدۃ، آیت:27) اس کے بعد بھی تقریباً تمام الہامی اور غیر الہامی مذاہب او رمعاشروں میں قربانی کا تصور ہمیں ملتا ہے۔ لیکن یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کو پوری تاریخ انسانی میں ایک منفرد اور بلند مقام حاصل ہے۔ تاریخ کے اوراق اس عظیم قربانی کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں۔
سیّدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مزار مبارک اسرائیل کے شہر ’’ الخلیل‘‘ میں واقع ہے ( جہاں آپ علیہ السلام کے قدموں کی جانب ہندوستان کے ایک عظیم راہنما اور نامور شاعرو ادیب مولانا محمد علی جوہرؒ کی قبر بھی ہے۔) لیکن ان کی اس عظیم المرتبت قربانی کو تا قیامت امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قانون الٰہی بنا دیا گیا ہے، چنانچہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض صحابہ نے عرض کیا ’’ یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ و سلم ان قربانیوں کی حقیقت اور تاریخ کیا ہے ؟ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ یہ تمہارے ( روحانی اور نسلی) مورث حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔‘‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا’’یا رسول اللہ !صلی اللہ علیہ و سلم ان قربانیوں میں ہمارا کیا اجر ہے ؟ ‘‘ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ قربانی کے ہر جانور کے بال کے عوض ایک نیکی ہے۔‘‘ (مسند احمد، سنن ابن ماجہ) اسی طرح ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یوم النحر (دس ذوالجہ) میں ابن آدم کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ پیارا نہیں ہے۔ اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگ ، بال او رکھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدا کے نزدیک مقام قبولیت کو پہنچ جاتا ہے۔ لہٰذا! اسے خوش دلی سے کرو۔‘‘ (ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ) حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف قربانی کے فضائل او رحکم بیان نہیں فرمایا، بلکہ ان پر عمل کرکے بھی دکھلایا ہے۔ حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں دس سال مقیم رہے ، اس عرصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر سال قربانی کی۔‘‘ (مشکوٰۃ ترمذی) جبکہ حضرت انسؓ فرماتے ہیں ’’ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے اور میں بھی دو ہی مینڈھوں کی قربانی کیا کرتا تھا۔‘‘ اگر ایک جانب قربانی کا حکم اور اس کے فضائل وارد ہوئے ہیں تو دوسری جانب قربانی نہ کرنے والے کے بارے میں بھی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ جس میں وسعت ہو اور اس کے باوجود وہ قربانی نہ کرے، وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔‘‘ (ابن ماجہ)
عیدالاضحی پر جانوروں کی قربانی جہاں ایک عظیم عبادت ہے، وہاں تجدید عہد وفا بھی ہے۔ قربانی درحقیقت اس وعدے کو دہرانے کا نام ہے کہ ہمارا جینا، ہمارا مرنا او رہماری پوری زندگی اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ یہی ایک مسلمان کی زندگی کا حقیقی مقصد ہے۔ بندگی کے اظہار کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرنا بندہ مومن کا شیوہ ہے۔ قربانی کا مقصد اصلی تقویٰ اورپرہیز گاری کا حصول ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں فرمان باری تعالیٰ ہے’’ خدا تک نہ ان (قربانی کے جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی خون، بلکہ اس تک تمہاری پرہیز گاری پہنچی ہے۔‘‘ (سورۃ الحج) یہ ’’سنت ابراہیمی‘‘ ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ ہم دین کی عظمت وسر بلندی، اسلام کی ترویج واشاعت، اعلائے کلمۃ اللہ، اسلام کی بقاء اورامت مسلمہ کے اتحاد کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں۔بلاشبہ جذبہ قربانی کا شوق بارگاہ الٰہی میں ہمارے تقویٰ کا اظہار اور قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔