رشید احمد نعیم۔ ۔۔پتوکی
طارق بن زیاد کا شمار ان عظیم فاتحین میں ہو تا ہے جنہوں نے دنیا کا نقشہ ہی بدل ڈالا اورجن کی شجاعت ، ہمت اور بہادری کے کارنامے تاریخ عالم میں سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔طارق بن زیاد فاتح سپین کے نام جانے جاتے ہیں۔آپ افریقہ کے رہنے والے اور بربر نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ نے ایک مختصر فوج کے ساتھ بہت بڑی فوج کو شکست دے کر دین اسلام کا پرچم بلند کیا تھا۔طارق بن زیاد افریقہ کے گورنرموسیٰ بن نصیر کے نائب تھے۔یہ خلیفہ ولید بن عبدالملک کا دورِ حکومت تھا۔طارق بن زیاد نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ کم عمری میں ہی جنگی فنون سیکھ لیے تھے۔اس زمانے میں شمالی افریقہ میں مسلمانوں کی حکومت تھی ۔اسلامی سلطنت میں امن و امان اور خوش حالی کا دور دورہ تھا۔ اس کے برعکس یورپ کے ملک سپین میں راڈرک کی حکومت تھی۔جس نے ظلم وستم کی انتہا کر رکھی تھی۔ بادشاہ اور اس کے درباری ،امیروزیر سب امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی بسر کر رہے تھے جبکہ غریب عوام غربت کی چکی میں پس رہے تھے۔راڈرک بادشاہ کے ظلم وستم سے تنگ آ کر اُس کا گورنر جولین مسلمانوں کے ساتھ تعاون پر آمادہ ہو گیا ۔ موسیٰ بن نصیر نے خلیفہ ولید بن عبدالملک سے سپین فتح کرنے کی اجازت طلب کی۔اجازت ملنے پرانہوں نے طارق بن زیاد کو سات ہزار جان نثاروں کا لشکر دے کر سپین کی مہم پر روانہ کیا۔طارق بن زیاد فرض شناس اور بلند ہمت انسان تھے۔طارق بن زیاد نے افریقہ کے جنوبی ساحل کی طرف پیش قدمی کی اور وہ اندلس( سپین) میں ایک پہاڑی کے قریب اُترے جو بعد میں جبلِ طارق کے نام سے مشہور ہوئی۔راڈرک ایک لاکھ فوج لے کر مسلمانوں سے مقابلے کے لیے بڑھا۔طارق بن زیاد نے موسیٰ بن نصیرسے مزید مدد کی درخواست کی جس پر موسیٰ بن نصیر نے پانچ ہزار فوج روانہ کر دی ۔ یوں مسلمان فوج کی کل تعداد بارہ ہزار ہوگئی۔مسلمانوں کی فوج صرف تلواروں اور نیزوں سے لیس تھی جبکہ اس کے مقابلے پر ایک لاکھ کا لشکر تھا جس کے پاس گھوڑے اور اسلحہ تھا ۔ اسلامی لشکر جب ساحل پر اُتر گیا تو طارق بن زیاد نے ایک انتہائی جراٗت مندانہ قدم اُٹھایا ۔اُس نے وہ تمام جہاز اور کشتیاں جلانے کا حکم دیا جن کے ذریعے وہ یہاں پہنچے تھے۔طارق بن زیاد کے ساتھی دشمن کی تعداد اور اُن کے جنگی سازو سامان کی کثرت دیکھ کر متاثر ہوئے۔طارق بن زیاد نے اس موقع پر ایک ولولہ انگیز تقریر کی۔ جس میں کہا’’ مسلمانو! خوب سمجھ لو کہ اب تمہارے لیے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ۔ دشمن تمہارے آگے ہے اور سمندر تمہارے پیچھے۔اب عزم وہمت کے سواکوئی چارہ نہیں۔ تم اپنی جانوں پر کھیل جاؤ تاکہ کامیابی تمہارے قدم چوم لے ۔تم اس علاقے میں اللہ تعالیٰ کے دین کو سر بلند کرنے کے لیے آئے ہو۔تم جو عزم کرو گے اللہ تعالیٰ اس میں تمہاری مدد کرے گا اور تمہارا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔اگر میں مارا جاؤں تو آپس میں جھگڑا مت کرنا ۔اگر تم دشمن کو پیٹھ دکھاؤ گے تو قتل کر دیے جاؤ گے یا گرفتار ہو کر برباد ہو جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں آگے بڑھو ۔جب میں حملہ کروں تو تم دشمن پر ٹوٹ پڑو اور اُس وقت تک دم نہیں لینا جب تک جزیرہ فتح نہ ہو جائے‘‘طارق بن زیاد کے خطبے نے مسلمانوں کے دلوں کو گرما دیا اور اُن میں جوش و ولولے کی ایک نئی روح پھونک دی ۔دونوں لشکروں میں مقابلہ ہوا بالآ خر طارق بن زیاد ایمانی طاقت کے بل بوتے پر اپنے قلیل لشکر کے ساتھ کثیر لشکر پر غالب آ گئے اور جنوبی سپین پرطارق بن زیاد کا قبضہ ہو گیا ۔ مسلمانوں نے پیش قدمی جاری رکھی اور سپین کے کئی اہم شہروں قرطبہ، مالقہ،البیرہ اور تدمیر کو فتح کر لیا ۔ اندلس( سپین) کی تاریخی فتح کے بعد آٹھ سو سال تک اندلس پر حکمرانی کرتے رہے۔سپین کی فتح نے یورپ کی معاشرتی زندگی پر زبردست اثر ڈالا۔ عیسائیوں نے مسلمانوں سے رواداری اور فراخ دلی سیکھی۔ مسلمانوں کے حسنِ انتظام سے علاقے کے لوگوں کی حالت بہتر ہوگئی۔ وہ مسلمانوں کے زیرِ سایہ پُر امن اور خوش حال زندگی بسر کرنے لگے۔ طارق بن زیاد95 ہجری میں موسیٰ بن نصیر کے ساتھ دمشق آ گئے اور وہاں قیام کے دوران اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے