تحریر۔۔۔ حافظ شاہد پرویز
دوہزار سولہ کی میرٹ پالیسیوں پر پنجاب حکومت کی جانب سے عملدآمد کروانے کی بھرپور کوششوں کے باوجود آج بھی تھانہ کلچر اور پنچائیتی سسٹم میں غریب اور پسے ہوئے طبقات کو دبانے کے سلسلہ میں کوئی کمی نظر نہیں آرہی ۔ پنجایتی نظام کے تحت غریب افراد کو کمزور سمجھ کر نیچا دیکھانے کیلئے وڈیرے حضرات تھانوں میں پکڑوا کر ان کی شدید پٹوائی کرتے ہیں۔ جبکہ بسا اوقات تفشیشی عمل کے اس عمل کو قطعی طور پر آف دی ریکارڈ بھی رکھا جاتا ہے تاہم قانون کے مطابق کسی بھی فرد کو چوبیس گھنٹے سے زائد تھانے میں رکھنے کی بالکل بھی اجازت نہیں ہوتی۔تو دوسری جانب پنجایتی سسٹم میں میرٹ کو چھان بین کرنے کی بجائے غریب افراد کو الزام جھوٹا یا درست لگنے کی صورت میں بڑے پیمانے پر گارنٹی چیک یا اشٹام فراہم کروانے کا کہا جاتا ہے تو ایسے حالات میں بعض افراد جو کہ انتہائی کمزور طبقے سے تعلق رکھتے ہوں اپنا ذامن یا چیک فراہم نہیں کرپاتے تو ان کو شاندار الفاظ میں مجرم قرار دینے سے کوئی بھی نہیں گھبراتا بعض اوقات ایک ہی مقدمے میں بیسیوں افراد کو تفتیشی عمل سے گزارا جاتا ہے جس کی بلیک میلنگ میں آکر کمزور اور پسے ہوئے طبقات کی سنائی ہونا انتہائی مشکل ہے۔ پنجاب کے آج کے روایتی تھانہ کلچر میں انصاف کی فراہمی کیلئے آپ کو وڈیرہ ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اگر آپ کمزور طبقات سے تعلق رکھتے ہیں تو چوہدراہٹ ازم حکومتی نمائندوں کا سہارا لے کر مزدور اور غریب افراد کو اپنا غلام بنانے کیلئے کسی بھی قسم کی پریشانی سے بنانے سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹتے اور اپنا رعب اور دبدبا بنائے رکھتے ہیں ظلم کی اس سے بڑی داستان اور کوئی نہیں ہوگی کہ پولیس کے بڑے افسران اور میرٹ کے بڑے دعویدار بھی بعض اوقات چوہدراہٹ ازم کے سامنے مجبور ہوکر ملزم کو بے گناہ سمجھتے ہوئے اور محسوس کرتے ہوئے بھی بے گناہ کہنے سے قاصر رہتے ہیں۔ پاکستانی قوم غلامی اور وڈیرہ ازم کے ظلم و ستم کو کب تک سہے گی شاہد اس کا آج بھی کسی کو اندازہ نہیں ہے۔ پنجاب کے کلچر میں مسلم شیخ برادری کے افراد کو اور وہ افراد جو کہ مزدوری کرتے ہوں اچھوت سمجھا جاتا ہے۔ اور وڈیرہ ازم کی نظروں میں ان کو گالی دینا پولیس سے مار پڑوانا ڈنڈے لگوانا سونے نہ دینے کے واقعات کو اپنی چوہدراہٹ کا قلہ مضبوط ہونے کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث کے مطابق مسلمان امیر اور غریب سیاہ اور سفید کے درجات عزت و توقیر برابر ہے۔ اور ہر مسلمان کو ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ تاہم پنجاب کے روایتی سسٹم میں بدترین کمزوری اور خاص طور پر چھوٹے طبقات کو تعلیم کی فراہمی سے دور رکھنے اپنی غلامی کی نوک تلے رہنے اور ظلم ڈھانے کے واقعات کسی بڑی مصیبت اور عذاب سے کم نہیں۔زمیندارہ کلچر اور ڈیرہ ازم کے آپس میں مضبوط تعلقات ہونے اور پولیس میں بیٹھے افراد سے اچھے روابت ہونے کے باعث کوئی بھی ذمہ دار فرد سچ کو سچ ماننے اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے کیلئے بالکل بھی تیار نہیں اس بات کا مسلمان ہونے کے باعث بھرپور عقیدہ رکھتے ہوئے کہ روزی اور عزت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے وہ جس کو چاہے فراہم کرے اور جس سے چاہے واپس لے لے حتیٰ کہ یہاں تک جان تک بھی خدا کی امانت ہے کہ باوجود چوہدراہٹ ازم کو اپنی روزی کا سبب سمجھنے والے پولیس مینز اور پولیس کے ذریعے غرباء پر مظالم ڈھانے والے افراد کے رکھوالے 2016کے دور میں بھی میرٹ پسندی کو ترک کرکے اور خود کو بڑا سمجھتے ہوئے کسی چھوٹے سے چھوٹے ظلم سے لے کر بڑی سے بڑی کاروائی کرنے سے بالکل بھی نہیں گھبراتے یہاں تک کہ عام افراد کو موقع ملتے ہی جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر جیلوں میں بھجوا دیا جاتا ہے جو کہ کچھ ہی عرصہ کے بعد بدمعاش چور ڈکیت اور دہشت گرد کا روپ دھار لیتے ہیں بڑے پیمانے پر جرائم پیشہ افراد کو اگر قریب سے دیکھا اور جانچا جائے تو وہ چوہدراہٹ کے ظلم سے تنگ آکر یا پولیس گردی سے تنگ آکر خود کو بندوق اٹھانے پر مجبور کرتا ہے اور ایک یا دو ظلم سہنے والا وہ فردسینکڑوں افراد پر اپنے مظالم کی انتہاء کرتے ہوئے بلآخر پھانسی کے پھندے یا پھر پولیس مقابلے میں ہی مارا جاتا ہے اور ملزم سے مجرم بنانے والے پولیس کے وہی افسران مقابلہ کے بعد اپنی ہی حکومت سے انعامات وصول کرتے ہیں