تحریر ۔۔۔ فضل خا لق خان
دَشہباز منزل یہ نام ہے اس نئے شہہ پارے کا جو پشتو ادب میں ایک خوش گوار جھونکے کی مانند وارد ہوا ہے ، محمد سرور محمود خٹک کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ ایک حکومتی ادارے کا اعلیٰ سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ ادب کی دنیا سے بھی وابستہ ہیں اور اب تک پشتو ادب میں اپنے حصے کا بہت سارا کام کرکے نام کماچکے ہیں۔
موصوف سوات انفارمیشن آفس میں بطور ریجنل افیسر فرائض سرانجام دے رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ادب کی محفلوں کے رونق بھی بنے رہتے ہیں۔ محمدسرور محمود خٹک صاحب زمانہ طالب علمی سے شعر وادب سے خاص شغف رکھتے تھے ۔
یوں توخٹک صاحب کی شاعری کا سفر جاری ہے لیکن اس کے ایک نظم نے قومی نغمے کی صورت سوشل میڈیا اور بعض ویب سائٹس پر وہ دھوم مچائی ہے کہ اس کے ’’ویورز‘‘ میں دن بہ دن اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔
زما دَ مور زما دَپلار وطنہ
تانہ قربان شم تانہ زار وطنہ
۔(اے میرے ماں باپ کے وطن ، تجھ پہ وار جاؤں ، تجھ پہ قربان ہوجاؤں )یہ نظم معنوی لحاظ سے اپنے اندر ایک مخصوص احساس رکھتا ہے جسے حب الوطنی کا درد اور جذبہ رکھنے والے ہی بہتر طورپر محسوس کرسکتے ہیں لیکن ہمارا ماننا ہے کہ اگر کوئی اس جذبے اور احساس سے عاری بھی ہوتو وہ اس نظم کو سن کر تھوڑی دیر کے لئے اپنی بے حمیتی پر ضرور شرمندہ ہوگا۔
سرور محمود خٹک ادب کے اس مشکل سفر میں طویل تگ ودو کے بعد اپناخاص مقام بنا چکے ہیں! وہ شاعری کے ہر صنف میں طبع آزمائی کرکے لوہا منواچکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ ہررنگ میں اپنی انفرادیت رکھتے ہیں۔
ان کی شاعری میں اگر ایک طرف پختون قوم کے حالات پر گہری نظر ہے تو دوسری جانب وہ مذہب کو بھی اس سے الگ نہیں کرتے ، خٹک صاحب کی شاعری روایتی شاعری سے بہت ہی ہٹ کر ہے ۔
حالا ت پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اور دگرگوں حالات سے پریشان ہوکر گنگنانے لگتے ہیں کہ !
خوگہ خبرہ لکہ گل ، خلوص وگمہ د گلاب
رازئی ملگرو پہ ھر لور خوگے وگمے خورے کو
۔(میٹھی بات کی مثال پھول کی طرح ہے، دوستو!آؤ یہ خوبصورت پھول ہر جانب بکھیریں)خٹک صاحب کی شاعری ہر قسم کی تعصب سے پاک ہے ان کا بس ایک ہی مشن ہے کہ پختونوں کو خطے کی دوسری اقوام کے ہم پلہ بنا کر ان کو مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کا پیغام پہنچا سکے، ان کی شاعری کا محور اس ایک نقطے کے گرد گھومتا ہے کہ کسی طرح پختون قوم جدید علوم سے بہرہ ور ہوکر اقوام عالم میں درخشندہ بن کر سامنے آسکیں۔
دَ ڈیلی تاج دار نن ھغہ شاہ زلمی دی
چہ قابض پہ اَس دَسائنس اوحکمت دے
(اقوام عالم میں آج وہ قومیں بام عروج پر ہیں ، جو سائنس اور حکمت کے گھوڑے پر سوار ہیں)ان کی شاعری مایوسی اور حسد سے بھی پاک ہے اور کسی قسم کی تعصب کو وہ نہایت ہی حقارت سے دیکھتے ہیں، سوات کے ادبی حلقوں کو منظم کرنے اور اسے ترقی سے ہمکنار کرنے کے لئے انہوں نے جو خدمات سرانجام دئیے ہیں وہ اس سے قبل سوات کی ادبی حلقوں میں کم ہی دیکھنے میں آئی ہے ۔
موصوف اب تک تین کتابوں ’’عروس کہسار‘‘،’’اے ایمان والو‘‘ اور’’دَشہباز منزل‘‘ کے مصنف ہیں اور مجھے یقین ہے کہ یہ سلسلہ اب رُکے گا نہیں بلکہ ادبی خدمت کا یہ سفر اسی طرح جاری وساری رہے گا۔
خٹک صاحب اپنی شاعری میں عاشقوں کے فراق اور وصال کے احساسات کو بھی نہیں بھولے لیکن حیرت انگیز طورپر وہ اپنی محبت کی شاعری کو عام شاعروں کی روائتی طرز سے ہٹا کر محبت کو ایک اور انداز سے پیش کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ !
دَ یار پہ غم کے چہ ژڑا او شوگیرے اونہ کڑی
مکار دے خلقہ دے عاشق زان تہ وئیلے نہ شی
(محبوب کے فراق میں رونے اور راتیں جاگنے سے گریز کرنے والا اپنے آپ کو ہر گز عاشق نہ کہے بلکہ یہ مکاری کرتا ہے)دوسری جانب اسے اپنی محبت پر اتنی یقین ہے اور محبوب کے جور وجفا تو کیا ‘ بے وفائی کو بھی نہ مانتے ہوئے اس کے فراق میں برسوں تک انتظار کے بھی قائل ہیں، اپنی اس یقین اور امید کا اظہار کچھ اس انداز سے کرتے ہیں کہ بندہ عش عش کر جھومنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
ساعتونہ ورزے ‘ورزے میاشتے شولے
شاید پہ کال کے خو گلفام راشی
(لمحے دنوں میں اور دن مہینوں میں بدل گئے ،لیکن کوئی بات نہیں شائد سال میں تو کبھی محبوب کا دیدار ہوجائے)دوسری جانب مصنف انصاف کے حوالے دنیا کے نظام سے کافی شاکی دکھائی دیتے ہیں اوردنیا بھر میں جاری ظلم وجور کے اس نظام کا خاکہ ان خوبصورت الفاظ میں پیش کرتے ہیں
چہ نافذ نہ وی تر کومہ شریعت
مسلمان جوڑیدے نہ شی یو ملت
ناممکن دے شریعت تر ھغہ وختہ
سو مضبوط نہ وی دفاع او معیشت
اور
انصاف سہ د ے بس منجو ر او نامنجور دے
برطانیہ دہ امریکہ اوکہ جاپان
(یعنی جب تک اسلام کو پورا نافذ نہ کیا جائے تب تک انصاف کا حصول ممکن نہیں، اور اقوام عالم نے انصاف کو گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے )خٹک صاحب بحیثیت پختون اپنی قوم کی روبہ زوالی پر بھی خاصے پریشان ہیں اور ان کے ہاتھوں میں بندوق کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہوئے انہیں قلم کے ذریعے بام عروج تک پہنچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کا مخاطب ہر وقت پختون نوجوان ہے اور وہ انہیں تلقین کرتے ہیں کہ مایوسی کی بجائے مرد میدان بننے کے لئے ہمہ وقت تیار رہے ۔
ہر نوجوان اپنی جگہ خو د کو خالد بن ولید ، طارق بن زیاد اور ٹیپو سلطان کی طرح بنانے کی کوشش کریں تاکہ تاریخ کے اوراق میں دمک سکے نہ کہ میر جعفر اور میر صادق بن کر قوم کے چہرے پر کالک ملنے کا باعث بنیں۔
الغرض سرور محمود خٹک کا موجودہ مجموعہ شاعری کی ہر صنف کا ایک حسین امتزاج ہے ا س میں پڑھنے والوں کیلئے دین ،دینا ، اُمید،وطن سے محبت اورمحبوب سے محبت کے حسین امتزاج موجود ہیں، کہیں پر بچوں باالخصوص طلبہ سے مخاطب ہیں تو دوسری جانب والدین کو بھی اشارہ دیتے ہیں کہ بچوں کو مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے تیاری میں کس طرح مدد دی جاسکتی ہے ۔ان پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی بجائے ان سے دوستی کرکے اپنی راہ متعین کرنے میں مدد دی جائے تاکہ وہ ملک وقوم کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔
یوں تو ان کی پوری شاعری ہی لاجواب ہے لیکن کتاب کے بعض حصوں نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے جو نذر قارئین ہے !
پختون ژوندون بہ ھلہ خائستہ کیگی
پختونخوا بہ دَ جنت لمن جوڑیگی
چہ ھریو خاوند مجنون خزہ لیلیٰ شی
!
مینہ کہ ڈیرہ او کہ لگہ وی نفرت نہ خہ دہ
پہ راز بہ پوھہ شے خو بیا بہ ئے پشیمانہ اشنا
سرور جولئی درتہ پہ ڈیرہ عاجزئی غوڑوم
لگ وفادار شہ چی دی خکل کڑم قدردانہ اشنا
!
نہ پخپلہ کھیل کوے شئے نہ پریگدے بل
کھلاڑیان بہ راتہ گوری مونگ بہ زو
اے سرورہ پہ حاسد دا زیرے اوکڑہ
دے وران وران بہ راتہ گوری مونگ بہ زو
کتاب اتنی دلچسپ ہے کہ شروع کرکے رکھنے کو پھر دل نہیں کرتا،دیدہ زیب سرورق کے ساتھ خوبصورت کتابت سے مزین’’ دَشہباز منزل‘‘پشتو ادب کے شوقین اور خوبصورت پشتو شاعری کے دلدادہ افراد کے لئے ایک خوبصورت تحفہ ہے ، سرور محمود خٹک صاحب نے مجھے تو تحفہ کردیا ہے لیکن قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اس کتاب کو خرید کر اپنی تشنگی کو سکون سے ہم کنار کردیں کیونکہ 250 روپے میں اتنا خوبصورت او سستا شہہ پارہ ملنا شائد کہیں اور ممکن نہ ہوسکے۔