پرسکون زندگی کے لئے ذ ہنی صحت پر توجہ دیجئے

Published on October 9, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 587)      No Comments

Rana Ijaz
تحریر : رانا اعجاز حسین
ذ ہنی صحت پر جسمانی صحت و تندرستی ، خوشی و راحت کی کیفیت کا دارومدار ہوتا ہے ، اگر انسان کسی وجہ سے ذہنی طورپر صحت مند نہ ہو تو اس کے اثرات پورے بدن پر مرتب ہوتے ہیں ،کیونکہ دماغ ہی انسان کے سارے جسمانی نظام کو کنٹرول کرتا ہے۔ دماغی کمزوری یا بیماری کے سبب ہی بہت سی اعصابی، نفسیاتی اور جسمانی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کا کہناہے کہ دنیا بھر میں تقریباًپچاس کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں، جس میں سب سے زیادہ پائی جانے والی دماغی بیماریاں ڈیپریشن اور شیزو فرینیا ہیں۔ دنیا بھر میں ہر سال ذہنی امراض میں مبتلا آٹھ لاکھ افراد اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔ اس کے باوجود دنیا بھر میں ذہنی بیماریوں کے علاج معالجے پر بہت کم رقم خرچ کی جاتی ہے ۔ پاکستان ایسوسی ایشن آف مینٹل ہیلتھ کے مطابق پاکستان میں تقریبا 15 لاکھ افراد ذہنی امراض کے مسائل سے دو چار ہیں جو کل آبادی کا 8 فیصد ہے۔ پاکستان میں صحت کے لیے مختص کیے گئے بجٹ میں سے صرف 2 فیصد دماغی امراض اور ان کے علاج کے لیے خرچ کیا جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے زیر اہتمام دنیا بھر کے تمام ممالک میں ہر سال دس اکتوبر کا دن ذہنی صحت کے عالمی دن کے طور پر منایاجاتا ہے۔ ذہنی صحت کا عالمی دن سن انیس سو بانوے سے اقوام متحدہ کی ورلڈ فیڈریشن آف مینٹل ہیلتھ کے زیراہتمام منایاجاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد عالمی سطح پر ذہنی صحت کی اہمیت اور دماغی رویوں سے متعلق آگاہی کا شعور اجاگر کرنا اور ذہنی امراض سے بچا ؤ کیلئے رہنمائی فراہم کرنا ہے ۔ اس دن دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی سرکاری اور نجی سطح پر تقریبات اور مینٹل ہیلتھ سے آگاہی واک کا اہتمام کیاجاتا ہے۔
ذہنی مرض کا سب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ مریض کو اس بیماری کے احساس کی بجائے عجیب بے چینی و اضطراری کی کیفیت لاحق رہتی ہے۔ پاکستان میں عمومی طور پر لاحق ہونے والے ذہنی و نفسیاتی امراض میں انگزائیٹی ،فکر، تشویش، اعصابی دباؤ، احساس کمتری، الزائیمر، تنہائی پسندی، بے خوابی وکم خوابی، بسیار خوابی و خراٹے لینا ، نیند کے دوران سانس کا رکنا، پاگل پن، پارکنسن ڈیزیز،رعشہ ،حسد، حافظہ کی کمزوری، خوف کا فوبیا، خود اعتمادی کا فقدان، منفی خیالات کا تسلط ،افسردگی ، ذہنی اضمحلال، ذہنی تناؤ ، سردرد اور دردِ شقیقہ، شیزوفرینیا، فرسٹریشن ، احساس محرومی، فالج و لقوہ، مرگی، وہم اور ہسٹیریا وغیرہ شامل ہیں۔ مختلف نفسیاتی و ذہنی مرض میں مبتلاافراد کو بھوک یا تو لگتی ہی نہیں یا پھر سوچ و فکر میں ایسے پریشان ہوتے ہیں کہ خوراک کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے، بعض مریضوں کو نیند آتی ہی نہیں یا پریشان کن خیالات کی وجہ سے بہت دیر سے آتی ہے، رات کو بار بارآنکھ کھل جاتی ہے اور بے چینی کی کیفیت ہوتی ہے،اگرچہ تھکن اور کمزوری مختلف جسمانی بیماریوں کی علامت ہے مگر ذہنی مریض بغیر کسی وجہ کے اپنے آپ کو بہت کمزور محسوس کرتے ہیں اور جلدی تھک جاتے ہیں۔ جسمانی کمزوری کے علاوہ جنسی کمزوری بھی محسوس کرتے ہیں۔مریض اپنے حلئے اور لباس کی صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔ چہرے پر اداسی، پریشانی، اضطراب یا وحشت ٹپکتی ہے۔اکثر نفسیاتی بیماریاں مریض کی گفتگو سے ہی پہچان لی جاتی ہیں۔ کچھ خاموش ہو جاتے ہیں، جواب نہیں دیتے اور بہت سے لوگ مختصر جواب دیتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جن کی گفتگو بے ربط ہوتی ہے۔ جبکہ کچھ بیماریوں میں مریض بغیر سوچے سمجھے مسلسل بولنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ نیند میں بولنا، جھنجھلاہٹ، بلاوجہ غصہ ، عضلاتی تناؤ، گیس کی بیماری، سانس کی تکلیف، سر کا درد، کمر اور جوڑوں کا درد، یہ سب بھی نفسیاتی اور دماغی بیماریوں کی علامات ہو سکتی ہیں۔
انسان کے ذہنی و جذباتی عوامل اس کے جسم پر اثر انداز ہو کر بہت سے پیچیدہ ذہنی ، جسمانی و نفسیاتی امراض کا باعث بنتے ہیں۔ جدید ایجادات کی وجہ سے بھی انسانی قدروں میں بڑھتا زوال، سماجی روابط میں کمی اور تنہائی کی کیفیت ذہنی صحت کو تیزی سے تباہ کر رہی ہے اور ان وجوہات کی بناہ پر زندگی سے خوشیاں مفقود ہو رہی ہیں۔ بڑے شہروں میں دیر سے سونے کے باعث نیند کی کمی بھی جھنجھلاہٹ، غصہ ، ڈپریشن، عضلاتی تناؤ اور ان جیسے دیگر کئی عوارض کا باعث بنتی ہے ۔ اس کے علاوہ آج انسان جس تذبذب ،بے چینی اور انتشار کا شکار ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا ایمان ذات خداوندی پر کمزور ہو چکا ہے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہوئے اور اسے رحمن ، رحیم، غفار، جبار، قدوس، رزاق، طبیب اور منصف اعظم سمجھتے ہوئے رب سے تعلق کو مضبوط بنائیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ بڑے امراض ، ڈپریشن، فوبیاز اور ایڈز وغیرہ کا شکار ہوجائیں۔ بلاشبہ دین حق اسلام ہماری مادّی فلاح اور بدنی صحت کے لئے بھی ایک بہترین اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اس پر عمل پیرا ہونے سے نہ صرف ہم اخلاقی و روحانی اور سیاسی و معاشی زندگی میں عروج حاصل کر سکتے ہیں بلکہ جسمانی سطح پر صحت و توانائی کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔ قرآنی تعلیمات و احکامات اور سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ و سلم، تشکیل ذات اور تکمیل معاشرہ کا بہترین ذریعہ ہیں۔ اسلام ہمیں حسن سلوک ،صلہ رحمی، عدل و انصاف، معاشیات ،سیاسیات، نفسیات، طب غرضیکہ زندگی کے ہر شعبے میں اور ہر نہج سے بہترین و مطمین طرزِ حیات کا سلیقہ سکھلاتا ہے ، اور جیسا کہ انسانی بدن کے عارضوں کو طبی نسخہ جات سے دور کیا جاتا ہے ایسے ہی قلب و روح کے تمام مسائل و جملہ امراض سے نجات، جسم اور روح کی شفاء بخشی اسوہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے بغیر ممکن نہیں۔ جسمانی صحت و توانائی ،ذہنی طہارت و لطافت ،روحانی بالیدگی و پاکیزگی ،ارادوں اور نیتوں کی اصلاح اور کردار کی عظمت و بلندی اسوہ حسنہ کے لازمی ثمرات ہیں جن کی انسان کو ہر زمانے میں ضرورت رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔
انسان کا ایک مقصد حیات ہے جس نے اس مقصد کو پہچان لیا وہ انسان کامیاب ہے، وہ احکامات خداوندی پر عمل کرتا ہے، اپنے وجود سے محبت کرتا ہے، دیگر انسانوں کی قدر کرتا ہے، ہمیشہ خوش و مطمئن رہتا ہے، کبھی محرومی اور مایوسی کے اندھیروں میں نہیں کھوتا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کائنات کی تخلیق اس کے لیے کی گئی ہے اس کی تمام تر نعمتوں کو اس کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اس کی ہر خوبصورتی‘ شادمانی اور کامرانی اس کے لیے وقف کر دی گئی ہے اور ان تمام نعمتوں کو حاصل کرنے کے لیے اسے عقل کا نور عطا کیا گیا ہے۔ ذہنی و نفسیاتی صحت برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم دن میں 8گھنٹے کی نیند لازمی لیں تاکہ دن بھر کی جسمانی و دماغی تھکاوٹ دور ہو سکے،کھانا آرام و سکون سے کھائیں، غصہ، حسد اور کینہ جیسی منفی عادات سے احتراز برتیں، غصے کے دوران ہمیشہ ضبط سے کام لیں، گھر کے اندر، کام کی جگہ اور راستے میں ملنے جلنے والوں سے ہمیشہ خوش اسلوبی سے ملیں اور محبت و رواداری کو اپنا شعار بنا ئیں، چھوٹی موٹی باتوں کو درگزر کریں۔ ہر بات کو اپنے ذہن پر سوار مت کریں، اگر کوئی ناموافق بات سنیں یا نظر آئے تو اسے بھلانے کی کوشش کریں، چھوٹوں سے پیار و محبت اور بڑے افراد کا ادب کریں، محبت پانے کی طلب رکھنے کی بجائے محبت بانٹنے والے بنیں ، لالچ ، حرص و ہوس سے گریز کریں، ہر قسم کے نشہ سے دور رہیں ،احساس کمتری کو کبھی خود پر غالب نہ آنے دیں ، عبادت الٰہی کے ساتھ ساتھ مراقبہ یعنی خاموشی و یکسوئی سے ارتکاز اور ورزش کی عادت اپنائیں جو ذہنی و جسمانی صحت کیلئے اکسیر کی حیثیت رکھتی ہے۔ زندگی گزارنے کے لیے ہمیشہ پر امید اور مثبت انداز سوچ اختیار کریں۔ واہمے اور ناامیدی کی کیفیت انسانی دماغ کو کمزور کر دیتی ہے اوراس طرح انسان بیماریوں کا گڑھ بن جاتا ہے۔ ہنسی خوشی زندگی ذہنی و جسمانی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔

Readers Comments (0)




Weboy

WordPress主题