ماضی میں سائنسی اور مواصلاتی ترقی کو وہ عروج حاصل نہ تھا جو آج ہے اُس زمانے کے حکمران جہنوں نے تاریخ میں اپنا نام نہ صرف اسلام کی سر بلندی بلکہ انسانیت کی خدمت کر کے سنہری حروف میں لکھوایا تھا اُس دور میں حکومت کرنے کا نظام اور عوام سے رابطے کا سلسلہ جہاں جاسوسی پر منحصر تھا وہاں وہ اپنے ساتھ عوام کے حالات سے بھی ڈائریکٹ واقفیت رکھتے تھے اس مقصدکے حصول کی خا طر وہ اپنے آ رام و سکون میں خلل ڈال کر حالات حاضرہ سے باخبر رہنے کیلئے اکثر اپنا شاہی لباس بدل کر گلیوں اور بازاروں میں گھو ما کرتے تھے نہ کہ آج کل کے حکمرانوں کی طرح جو اقتدار کی کرسی تک پہنچنے کیلئے تو عوامی لیڈر ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی اقتدار کی کرسی پر بر جمان ہوئے ان کا واسطہ عوام کے ساتھ صرف ایجنسیوں کی روپوٹیں تک ہی محدود ہو کر رہ جاتا ہے ہاں البتہ اگر ان کا واسطہ یا کوئی تعلق کسی سے ہوتا ہے تو وہ ہے صرف اور صرف وہ ہم خیال ساتھی جو ان کی سر پر ستی میں لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کر کے ملک کو تباہ حال جبکہ عوام کو متعدد پریشانیوں سے دو چار کر دیتے ہیں جبکہ یہ از خود وی آئی پی پروٹوکول میں عوام کی پریشانیوں سے بے نیاز ہو کر اپنا پانچ سالہ دور گزارتے ہیں اور بعد ازاں یہ نام و نہاد عوامی لیڈر بڑی معصومیت کے ساتھ اپنے نئے وعدے اور جھوٹ کا سہارا لیکر بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بنی عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے آ جاتے ہیں جو کہ ایک انتہائی عوام کے ساتھ بے ہودہ مذاق ہوتا ہے ہاں تو میں بات کر رہا تھا ماضی کے حکمرانوں کی جہنوں نے اپنی زندگی ملک و قوم کی بقا کیلئے وقف کر دی تھی تو یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ماضی کے حکمران سلطان محمود غزنوی حسب عادت ایک رات حالات حاضرہ سے باخبر رہنے کیلئے اپنا شاہی لباس بدل کر اپنے علاقے کی گشت کر رہے تھے کہ اسی دوران ان کی مڈ بھیڑ اُن چار چوروں سے ہو گئی جو شاہی خزانہ لوٹنے کا پروگرام رکھتے تھے چوروں کے اس پرو گرام سے با خبر ہو کر سلطان محمود غزنوی نے اُن چوروں سے پو چھا کہ آپ میں وہ کو نسی خو بی ہے کہ جس کی بناء پر آپ شاہی خزانہ لوٹنے آئے ہو یہ سننے کے بعد ایک چور نے کہا کہ مجھ میں یہ خو بی ہے کہ میں سو نگھ کر خزانے کی نشا ندہی کر سکتا ہوں دوسرا چور کہنے لگا کہ میں بڑی سے بڑی بلڈنگ منٹوں میں پھلانگ سکتا ہوں تیسرا چور کہنے لگا کہ میں کتے کے بھو نکنے سے اس کا مطلب سمجھ لیتا ہوں جبکہ اسی دوران چوتھا چور کہنے لگا کہ میں رات کے اندھیرے میں بھی اگر کسی کو دیکھ لوں اسے زندگی بھر نہیں بھولتا چوروں نے اپنی اپنی خوبیاں بتانے کے بعد سلطان محمود غزنوی سے کہا کہ اب تم اپنی خوبی عیاں کرو جس پر سلطان محمود غزنوی نے کہا کہ مجھ میں یہ خو بی ہے کہ میں سزائے موت کے قیدی کو بھی معاف کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں یہ سن کر چاروں چور اپنے پرو گرام کے تحت شاہی خزانہ لوٹنے چلے گئے لیکن شاہی خزانہ لوٹتے ہوئے عین مو قعہ پر گرفتار ہو گئے جہنیں سپاہیوں نے قاضی کے رو برو پیش کیا تو قاضی نے انھیں شاہی خزانہ لوٹنے کے پاداش میں سزائے موت کا حکم سنایا قاضی سے سزا پا نے کے بعد جب چور تخت پر بیٹھے ہوئے سلطان محمود غزنوی کے پاس سے گزرنے لگے تو ایک چور نے پہچانتے ہوئے آپ سے کہا کہ آپ اپنی خوبی کے مطا بق معاف کر دو بلکہ اسی طرح آج وطن عزیز کے حکمران جہنوں نے اقتدار کی کر سی پر بر جمان ہونے سے قبل عوامی جلسوں میں یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم قومی دولت لوٹنے والوں کو سڑکوں پر گھسیٹ گھسیٹ کر ان سے لوٹی ہوئی دولت وطن واپس لا ئے گے چونکہ ان قومی لٹیروں کی وجہ سے یہ ملک جس کے حصول کی خا طر ہمارے بزرگوں نے لاتعداد قربانیاں دی تھیں آج بھکاری ملکوں کی صف میں آ کھڑا ہوا ہے جبکہ یہاں کی عوام روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روز گاری کی زد میں آ کر بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر رہ گئی ہے جہنیں دیکھ کر ہمارا دل خون کے آ نسو روتا ہے افسوس صد افسوس کہ وہی عوامی لیڈر جب اقتدار کی کر سی پر بر جمان ہوئے تو وہ نہ صرف عوام سے کیئے ہوئے وعدے بھول گئے بلکہ قومی دولت لوٹنے والے لٹیروں کو بھی معاف کر کے ملک و قوم کو تباہی کے دھانے تک پہنچا دیا ہے یہی کافی نہیں مذکورہ حکمرانوں کے اس معافی کے جذبے کو مد نظر رکھتے ہوئے مذکورہ حکمرانوں کی کا بینہ و دیگر سیاسی ساتھیوں نے اپنے منظور نظر اعلی افسران کی معرفت یہ کہتے ہوئے ملک بھر میں لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا ہے کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں اور اس سے بھی بڑھ کر افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان ناسوروں کی وجہ سے ملک بھر کے تمام کے تمام ادارے راشی اہلکاروں کی آماجگاہ بن کر رہ گئے ہیں جہاں پر سے انصاف کی توقع رکھنا بس ایک دیوانے کا خواب نظر آتا ہے یہاں میں ایک ایسے ہی ادارے کی مثال جس کا شمار نہ تین میں ہو تا ہے اور نہ ہی تیرہ میں آج کے حکمرانوں کی نظر کر رہا ہوں کہ شاید مذکورہ حکمران غریب عوام پر ترس کھاتے ہوئے مذکورہ ادارے کے اہلکار جو ڈریکولا کا روپ دھار کر غریب سائلوں کا خون بڑی بے دردی کے ساتھ چوس رہے ہیں تو وہ ہے ادارہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن جھنگ جس کا عملہ بالخصوص موٹر برانچ کا عملہ حسن ظفر اسلم نول اور حبیب چوہان وغیرہ جو راتوں رات امیر ترین بننے کے خواب کو عملی جامعہ پہنانے کیلئے نہ صرف از خود بلکہ اپنے منظور نظر ٹاؤٹوں کے ذریعے غریب سائلوں کے لاکھوں روپے ہڑپ کرنے میں مصروف عمل ہیں جن کے اس ظلم و ستم لوٹ مار اور ناانصا فیوں کے متعلق آ گاہی کوئی پریشان حال سائل ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آ فیسر جھنگ جس کا غالبا نام نعیم خان ہے کو دیتا ہے تو مذکورہ آ فیسر جس نے اپنے ادارے کو طوائف کا کوٹھا بنا دیا ہے بڑی کمال ہو شیاری اور چالاکی سے اپنے راشی اہلکاروں کا دفاع کرتے ہوئے اس سائل کو ذلیل و خوار کر کے اپنے دفتر سے نکال دیتا ہے اگر کوئی سائل مذکورہ آ فیسر کے اس گھناؤ نے اقدام پر احتجاج کرے تو مذکورہ آ فیسر بغیر کسی ڈر اور خوف کے سائل کو دھمکی دیتے ہوئے بر ملا کہتا ہے کہ جاؤ اوپر والوں کو میری شکایت کر دو وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے چونکہ میں اوپر سے لیکر نیچے تک حصہ بحثیت جُسہ دیتا ہوں جن کے اس گھناؤنے اقدام کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ملک میں لا قانو نیت کا ننگا رقص کرنے والوں کو عام معافی دے رکھی ہے