استاد! بچہ جمہورا ادھر گھوم آ
بچہ جمہورا! لو استاد جی گھوم آیا۔
استاد! بچہ جمہورا چاروں جانب نظر دوڑا ؤ کیا کچھ ہو رہا ہے اور کیا کچھ ہونے جا رہا ہے؟
بچہ جمہورا! استاد جی بہت کچھ ہو چکا ہے اور بہت کچھ ہونے والا ہے۔ آپ ہمارے استاد محترم ہیں آپکی نظر بڑی گہری اور دور رس ہے ۔ہم تو ابھی آپ کے ادنیٰ سے شاگرد ہیں۔
استاد! بچہ جمہورا آپ کے پاس روحانی اور سفلی علم ہے آپ وہ نظارے دیکھ سکتے ہیں جو ہماری نظروں سے کہیں دور ہیں۔
بچہ جمہورا! استاد جی اب تو ملک عزیز کے سیاسی ، اقتصادی، عسکری، سماجی اور مذہبی مناظر دیکھ کر میں ہلکان ہوئے جا رہا ہوں میرے اعصاب شل ہو رہے ہیں اور میرے موکلوں نے بھی ہاتھ اٹھا کر مجھ سے نظریں چرا لی ہیں ۔ جب میں ان سے اس بارے میں پوچھنے لگتا ہوں تو وہ کہتے ہیں آپ کے ملک کا خدا ہی حافظ ہے اور تم اب ہم سے کوئی توقع نہ رکھواور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کیا کرو اور اپنے ملک پر مسلط آفتیں ، بلائیں اور چڑیلوں سے نجات کے لیے صدقہ دیا کرو۔آپ کے ملک پر فرقہ واریت ، مذہبی جنونیت ، سیاسی انتشار اور افتراق اور طاغوتی قوتیں مسلط ہو چکی ہیں۔ گزشتہ بیس برسوں سے ملک بحرانوں کا شکار ہے۔ ہر بحران ایک سے ایک بڑھ کر ہے۔
استاد! بچہ جمہورایہ مسائل ، مشکلات،بحران اور سازشیں کب ختم ہوں گی ہم تو ہر لمحہ پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ گھر سے کام کے لیے نکلنے پر واپس زندہ گھر آ پہنچیں گے یا نہیں۔
بچہ جمہورا!استاد جی اللہ تعالی کی ذات بڑی رحیم و کریم ، سمیع البصیرہے اس کی طرف رجوع کرو۔ پاکستانی عوام سے کہو کہ حرام خوری ، لوٹ مار اور منافقت کی چالیں چھوڑ دے۔ ووٹ دیتے وقت ہوش کے ناخن لیا کرے۔ عوام جب آنکھیں بند کر کے ووٹ دے گی، آزمائے ہوئے سیاستدانوں کو اپنے رہنما چنے گی تو دما دم مست قلندر نہیں ہو گا تو کیا ہو گا۔
استاد! بچہ جمہورا :وزیر اعظم میاں نواز شریف جو اقدامات اٹھا رہے ہیں کیا یہ ملک کو درست سمت لے جائیں گے؟
بچہ جمہوارا! استاد جی: جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں یا اٹھا رہے ہیں وہ ہیں تو قابل ستائش لیکن امریکہ اور بھارت اور دیگر قوتیں پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتیں۔ وہ ہر گز وزیر اعظم کی خواہشات کو پورا نہیں ہونے دیں گی۔ سابق صدر جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے بھی بھارت اور افغانستان سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کی کوششیں کی تھیں۔ لیکن غیر مرئی قوتوں نے ان کی تمام خواہشات و جذبات پر پانی پھیر کے رکھ دیا۔ ایران کی طرح افغانستان کے صدر کرزئی بھی اپنا سیاسی قرضہ چکانا چاہتے ہیں لیکن ان کی کامیابی کے امکانات بہت معدوم ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ امریکہ سے جان چھوٹ جائے لیکن چھوٹے گی نہیں۔ امریکہ کا بل خالی نہیں کرے گا چاہے تمام مسلم قوتیں اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں۔ امریکہ اپنے مفادات سے دستبردار نہیں ہو گا۔
استاد جی! جاتے جاتے یہ تو بتاتے جاؤ کہ مشرف کا کیا بنے گا؟
بچہ جمہورا: یہ بڑا ہے ٹیڑھا کیس ہے میرے علم کے مطابق اس کا بھی وہی حشر ہو گا جو باقی کیسوں کا ہوا ہے۔