محترم قارئین !اہل علم کا کہنا ہے کہ اقتدار ایک ایسا نشہ ہے کہ جس کے بارے کہا جا تا ہے کہ یہ تمام قسم کے نشوں پر فوقیت رکھتا ہے ۔ کیو نکہ میں نے اک جگہ پڑھا ہے کہ اہل فکرو قلم اقتدار کے نشہ کو ام الخبائث یعنی شراب کے نشے سے بھی آگے کا درجہ دیتے ہیں اور اقتدار کے با رے ان کا کہنا ہے کہ شراب کی تو وقعت اقتدار کے دربار میں کنیز کی سی بھی نہیں ہے ۔ پچھلے سال میں ہو نے والی برطانیہ میں اقتدار کے اثرات پر ایک تحقیق کا میں مطالعہ کر رہا تھا تو اس میں انہوں نے بڑی عجیب سی بات بیان کی اور جو کہ اگر ہم اپنے حکمرانوں خواہ وہ ماضی کے ہوں یاموجودہ سب پر ہی لاگو آتی ہے ۔
برطانوی تحقیق میں کہا گیا کہ طاقت اور اقتدار دماغ پر منشیات جیسے اثرات لاتا ہے ۔ جس طرح منشیات کی وجہ سے ایک منفرد سی کیفیت دماغ میں پا ئی جا تی ہے۔ جس کی وجہ سے دماغ کا ایک مخصوص حصہ عمل پیرا ہوتا ہے جس کو میڈیکل کی لینگویج میں\” نکلوس اککمبنس \” کہتے ہیں۔ اور یہ ایک عادت بنا نے کا کام کرتا ہے ۔ اسی طرح آجکل کے دور میں اقتدار میں بھی منفی رویے بہت جلد پروان چڑھتے ہیں جن میں غرور ، بے ضابطگیاں ،کرپشن اور اس جیسے کئی منفی کام اپنا عروج پکڑ لیتے ہیں۔
میں اپنے قارئین سے معذرت کروں گا اگر کو ئی اس بات کو برا منا ئے تو، کہ شراب کا لفظ کیو ں استعمال کیا گیا تو میر ے محترم قارئین اگر آپ زما نے میں بے شمار ایسے لوگوں کو دیکھیں جو نشہ میں مبتلا ہیں اور ان کو کسی کی خبر نہیں وہ اپنی ہی دنیا میں رہ رہے ہو تے ہیں تو اسی طرح جب ہما رے حکمرانوں کو اپنے مفادات عزیز ہوں گے اور وہ پاکستان کی سا لمیت ، اور مفادات کو پس پشت ڈال کر اپنی شیطانیت کو فوقیت دیں گے تو پھر ہم ان کو مجبورا اسی طرح کی مثال سے متعارف کرائیں گے ۔
قارئین !اسی طرح کے اقتدار کے اثرات میں ہما رے طاقتور اور اقتدار کے نشے میں بھرپور مو جودہ حکو متی وزراء نے اپنی اصلیت کا مظاہرہ اس دور میں جب آزاد میڈیا اور آزاد عدلیہ کا دور دورہ ہے کیا ۔ اس بارے تو سب پاکستانیوں کو معلوم ہو گیا ہے کہ نادرا چیئر مین طارق ملک کے ساتھ حکومتی طاقتور وزراء نے کیا کیاان کی ایمانداری اور ملک کے ساتھ سچی محبت کو برداشت نہ کر تے ہو ئے ان کو چیئر مین نادرا کے عہدے سے ہٹا دیا گیا لیکن ہما ری آزاد عدلیہ نے ان کو بحال کر دیا اور آزاد عدلیہ ہو نے کا ثبوت دیا۔ دیکھیں قارئین جب تک ہما رے حکومتی عنا صر اپنے فرائض کو درست طور پر سر انجام نہیں دیں گے ۔ تب تک ہم ملک میں امن و امان ، اور خود مختاری کے خواب نہیں دیکھ سکتے ۔ کیو نکہ یہ بات ہر خاص و عام جا نتا ہے کہ جب بھی کسی طاقتور کے را ستے میں کو ئی رکا وٹ آئی اس نے اسے اپنی طاقت کے بل بو تے پر اپنا را ستہ ہموار کر نے کی خاطر ہٹا دیا ۔ اور ملکی سا لمیت اور آئین کی پاسداری کو بھولا دیا۔
آج اگر ہما ری حکو متیں شفاف الیکشن کا راگ الا پتی ہیں تو ان کو چا ہیے کہ وہ ایسے افراد کی مدد کریں جو الیکشن کو شفاف راستہ مہیا کر نے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن ایسا ہر گز نہیں ہو رہا ۔ طارق ملک کو بھی اسی لئے راستے کا کا نٹا سمجھ کر راستے سے ہٹایا جا رہا تھا کہ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ ملک کے ساتھ ایک سچا پاکستانی ہو نے کا ثبوت دے رہے تھے ۔اور جس سے الیکشن کی دھاندلی بے نقاب ہو جا تی اور تحریک انصاف کے دھا ندلی کے با رے لگا ئے گئے الزامات درست ثابت ہو جا تے ۔ اور یوں فخرالدین جی ابراھیم کا بھا نڈہ مزید پھوٹ جا تاگو کہ انہوں نے اپنا بڑھاپا بدنا می کے نام کر ہی دیا تھالیکن اب کچھ مزید ہی ان کی عزت افزائی ہو جا تی ۔ عوامی و سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی اور لا ہور کی چند سیٹوں پر دھا ندلی کر کے منتخب ہو نے وا لے پا رلیمنٹیرین نے تمام پارلیمنٹ کو بھی متنازعہ شکل دے دی ہے اور اب اس وجہ سے بہت سے شکوک و شبہات نے جنم لیا ہے ۔
جہاں حلقہ این اے 118 کی دھا ندلی کو حکومت وقت نے بے نقاب ہو نے سے بچا نے کے لئے اتنا بڑا قدم اٹھایا اور خود کو چور کی داڑھی میں تنکا کا مصداق بنا لیا ۔ اس پر سیاسی و عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک طرف تو حکومت نے اپنا کام دیکھا یا تو دوسری طرف عدلیہ نے طارق ملک کو آئینی اور قانونی ذمہ داریاں پوری کر نے کی بنا پر حکو متی نو ٹیفیکیشن کو منسوخ کر کے بحالی کا حکم دیاجس پر آزاد عدلیہ ہو نے کا ثبوت دیا ہے۔ ہم آزاد عدلیہ کو خراج تحسین پیش کر تے ہیں اور ساتھ طارق ملک کو بھی جنہوں نے حق کا ساتھ دینے کے لئے طاقتور حکومتی وزراء سے ٹکر لی ۔
کہا جا رہا ہے کہ اب قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122 جہاں سے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کو شکست دی تھی ۔اس حلقے کا رزلٹ بھی اب پہلے سے زیادہ مشکوک ہو گیا ہے ۔ کیو نکہ اس حلقے پر اس وقت سے ہی با تیں ہو رہی ہیں اوراس سیٹ کو حاصل کر نے کے لئے مسلم لیگ ن نے بے حد مال لگا یا اور اس رشوت کی بدولت یہ سیٹ بھی ن لیگ نے حاصل کی تھی ۔ حکومت کے اس اقدام سے یہ بات تو کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ حکو مت عوامی مینڈیٹ کا کس قدر احترام کر تی ہے اور کیا حیثیت ہے عوامی مینڈیٹ کی اس حکومت اور اس کے چیلو ں کی نگا ہ میں ۔ عوامی و سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ طارق ملک سے یہ طاقتور وزراء صرف اسی وجہ سے خائف ہو گئے تھے کہ وہ ایک محب وطن ورکر کی حیثیت سے اپنا کام سرانجام دے رہے تھے۔
قارئین ہم سب جا نتے ہیں کہ ابھی کچھ ہی دنوں پہلے راولپنڈی میں کچھ ظالم عنا صرکی طرف ایک دینی مرکز کو نشانہ بنا یاگیااور مذہبی منافرت پھیلا نے کی کو شش کی گئی اور بہت سی جا نوں کا نقصان بھی ہوا جس پر حکو متی ادارے ملزمان کو تلاش کر نے میں بری طرح ناکام ہو چکے تھے ۔کہا جا تا ہے کہ اس پر چیئر مین نادرا طارق ملک نے حکو مت کو خود تحریری طور پر یہ پیش کش کی کہ وہ ان ملزمان کی نشاندھی ان ویڈیو کلپس کے ذریعے کر کے دے سکتے ہیں ۔ جس پر طارق ملک نے گیارہ ملزمان کی نشاندھی کر دی ۔ عوامی و سماجی حلقوں کا کہنا ہے اگر ہما رے حکومتی عناصر اپنے ملک کے ساتھ مخلص ہو ں تو ایسے عظیم انسان کی نا قدری نہ ہو ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے محسن کو پس پشت نہ ڈالا جا تا ۔ اللہ کریم ملک پاکستان کی حفاظت فرما ئے ملک کی خدمت کر نے والوں خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہے ان کو ترقی دے اور ان کی حفاظت فرمائے اٰمین ۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اٰمین