تحریر ۔۔۔ شاہد شکیل
اندازِ گفتگو کا ایک ڈھنگ اور طریقہ ہوتا ہے اور یہ طریقہ یا انداز بہت کم لوگ جانتے ہیں کیونکہ عام طور پر ہر کوئی اپنا مسئلہ یا مدعا بغیر کسی تعارف یا تمہید سے بے ربط اور بے ڈھنگے طریقے سے بیان کرتا ہے یہ کوئی ضروری نہیں کہ نوبل پرائس لینے والا پروفیسر بااخلاق طریقے اور تمیز کے دائرے میں رہ کر بات چیت کرے گا اور غیر تعلیم یافتہ غیر مہذب طریقے سے گفتگو کا آغاز کرے گا،گفتگو کرنے کا فن ہر کوئی نہیں جانتا کیونکہ آج کل اکثر و بیشتر ہر بات کا آغاز جلد بازی کے علاوہ شارٹ کٹ یا سمال ٹاک سے کیا جاتا ہے مثلاً میں یہ سوچ رہا ہوں اور بول رہا ہوں تمہیں سمجھ آئے یا نہ آئے مجھے کوئی سروکار نہیں میں نے اپنا مدعا بیان کر دیا ہے اور ایسی شارٹ کٹ گفتگو کو سمال ٹاک کہا جاتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے سمال ٹاک سے بہت سے افراد اپنے آپ اور دوسروں کو مشکل میں ڈال دیتے ہیں اور اسے سماج میں آداب کا رتبہ یا کیٹگریز میں شمار نہیں کیا جاتا کیونکہ سمال ٹاک مختصر الفاظ پر مبنی ہوتی ہے جسے ہر انسان باآسانی نہیں سمجھ سکتا بدیگر الفاظ ایسا محسوس ہوتا ہے کوئی سیکریٹ ایجنٹ کوڈورڈز استعمال کر رہا ہے،سمال ٹاک کا نام سنتے ہی کئی افراد کو ٹھنڈا پسینہ آجاتا ہے مثلاً دوستی ہے؟اب سننے والا یہ طے نہیں کر پاتا کہ اسے بتایا جارہا ہے یا سوال کیا جارہا ہے؟ اسی فیصد افراد ایسی گفتگو کے چکر میں پھنس کر گھن چکر بن جاتے ہیں اور سوچتے رہ جاتے ہیں ۔ بزنس کوچ اور سٹائلز کی ماہر کیرولین لودے مین کا کہنا ہے مختصر گفتگو ایک بری عادت ہے کیونکہ ایسی گفتگو معمولی ، بے وقعت اور سطحی ہونے کے ساتھ بوریت کا سبب بنتی ہے جسے محض مذاق یا ٹائم پاس کیلئے کیا جاتا ہے، کیرولین کا کہنا ہے اصل میں گفتگو کا انداز کسی حد تک اصولوں سے منسلک ہے کوئی انسان نہیں چاہتا کہ مختصر گفتگو کی جائے اور نہ کسی چھوٹی سے بات کو طویل کہانی کا روپ دیا جائے ،مختصر گفتگو میں عام طور پر یہ سننے میں آتا ہے کہ کیا حال ہے،اور،اچھا،پھر،سب ٹھیک ،اچھا،اور پھریا سفر کیسا تھا؟ایسے سوال یا گفتگو انسان کی دلچسپی ختم کرتے ہیں اور اکتاہت محسوس ہوتی ہے کہ یہ سب کیا بکواس ہے کام کی بات کرو،بہتر طریقے ،اخلاق اور تفصیل سے گفتگو کا آغاز ایسے بھی کیا جا سکتا ہے کہ کیسے ہیں آپ،ہماری آخری ملاقات میں آپ نے بتایا تھا کہ کسی دوسرے شہر میں شفٹ ہو رہے ہیں شفٹ ہو گئے آپ ؟یا آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں پہلے اس شہر میں کبھی آپ کو دیکھا نہیں کیا آپ پہلے بھی یہاں آچکے ہیں وغیرہ۔کیرولین کا کہنا ہے سوال کو سوال کی حیثیت دی جائے اور مکمل طور پر ادائیگی لازمی ہے یعنی دوران گفتگو کسی دوسرے موضوع پر بات کرنے سے گریز کیا جائے ۔دو انجان یا اجنبی افراد کی گفتگو کا انداز کچھ ایسا ہونا چاہئے کہ زیادہ سوال نہ کئے جائیں لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے مختصر بات چیت یعنی سمال ٹاک تجسس بڑھاتی ہے اور مزید دلچسپی پیدا ہوتی ہے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے گفتگو ہمیشہ مساوی ہونا چاہئے ،ٹھوس اور بامقصد بات کی جائے نہ کہ ایک ہی بات کو مختلف زاویوں سے دہرایا جائے سب سے اہم بات کہ یہ کوشش کی جائے کہ پلیز ، مہربانی اور شکریہ جیسے الفاظ ادا کئے جائیں،اچھی ،باادب اور سلجھی گفتگو ایک بال کی مانند ہے جیسا سوال ویسا جواب لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج کل گفتگو کو بال نہیں سمجھا جاتا بدیگر الفاظ کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اپنے آپ کو ماہر کھلاڑی سمجھتا اور بال کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہتا ہے کہ میں جیسے چاہوں اپنی باتوں کو استعمال کروں جیسے چاہوں گیم کروں کوئی چاہے یا نہ میں بولتا رہوں اور سب سنتے رہیں اور یہ سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے کیونکہ
سننے والا اکتا جاتا ہے ،دلچسپی ختم ہو جاتی ہے اور آخر کار بولنے والا بس بولتا ہے سنتا کوئی نہیں اور کان ناک کھجاتا ہے۔گفتگو کا آغاز خوش اخلاقی سے کیا جانا ہی پہلا اصول ہے اور وہی بات چیت کامیاب ہوتی ہے جس میں اپنی بات کے علاوہ دوسروں کی بات کو بھی توجہ سے سنا جائے اور اہمیت دی جائے کیونکہ گفتگو کبھی کبھی نازک لمحے بھی اختیار کر لیتی ہے ،بات چیت کیلئے تجربے کی ضرورت نہیں لیکن غلط بیانی اکثر رنجش اور پشیمانی کا رخ بھی اختیار کر سکتی ہے،کومپلیمنٹ سے ابتداء کرنا ایک اچھا عمل اور رحجان ہے مثلاً کھانا بہت مزے دار ہے کھانا بنانے کی ترکیب کہاں سے حاصل یا استعمال کی گئی یا یہ علاقہ بہت خوبصورت ہے آپ کب سے یہاں رہائیش پذیر ہیں وغیرہ۔ماہرین کا کہنا ہے بات چیت شروع کرنے سے قبل انسان کو گہرائی سے سوچ لینا چاہئے کہ وہ کس انداز اور اطوار سے آغاز کرے کہ سننے والے کو ناگوار نہ گزرے جب تک انسان خود مطمئن نہ ہو بات نہ شروع کی جائے ،عام طور پر کئی افراد مذاہب، جنسیت اور سیاست جیسے موضوعات پر بات چیت کرتے ہوئے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ اگر کوئی غلط لفظ منہ سے نکل گیا تو معاملات پیچیدہ ہو سکتے ہیں اسلئے کسی بھی موضوع پر بات کرنے سے قبل سوچ بچار لازمی ہے ،قریبی افراد سے انسان سمال ٹاک کر سکتا ہے لیکن مشکلات بھی آڑے آ سکتی ہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ دیگر لوگوں کی موجودگی میں انسان اوپن ہو کر بات نہیں کر سکتا حتیٰ کہ سمال ٹاک بھی کار آمد ثابت نہیں ہوتی تو انسان کو چاہئے کہ کسی دوسرے وقت کا تعین کرے اور تفصیلاً گفتگو کی جائے۔سمال ٹاک کے ساتھ باڈی لینگویج کا بھی اہم کردار ہے باڈی لینگویج ہر جگہ کامیاب نہیں ہو سکتی مثلاً جاب کیلئے انٹرویو دیتے وقت ہاتھوں اور آنکھوں کا استعمال درست نہیں ،اور دوسری طرف کامیاب گفتگو کیلئے چہرے کا ری ایکشن اہم کردار ادا کرتا ہے،مسکراہٹ اور خوش اخلاقی کامیابی کی کنجی ہے اور دنیا فتح کی جا سکتی ہے دوسرے انسان کو کبھی کم تر نہ سمجھا جائے بد تمیزی ہمیشہ نقصان پہنچاتی ہے،شائستہ اور نرم لہجے سے آپ سمال ٹاک کے علاوہ کئی گھنٹوں تک گفتگو جاری رکھ سکتے ہیں بشرطیکہ آپ کی بات میں جان ہو دلچسپی کا باعث بنے نہ کہ اکتاہٹ اور بوریت ہو کیونکہ بے ربط اور بے ڈھنگی باتوں سے انسان اپنا وقار کھو دیتا ہے۔