تحریر۔۔۔ زکیر احمد بھٹی
وقت کی گهڑی ایک بہت بڑی حقیقت ہے گهڑی کی سوئیاں تو اپنی رفتار سے سفر کرتی ہے مگر کبھی کبھی زندگی اس وقت کی گهڑی کو پهر سے وہی لے آتی ہے جو کبھی پہلے گزرا ہوا ہوتا ہے یہ ایک اتفاق ہے یا ہماری حکومت کی نااہلی یہ ایک سوچنے کی بات ہے یہ ہر پاکستانی کی سوچ کا سوال ہے ایک وہ بھی وقت تھا جب بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اپنی زندگی کے آخری ایام زیارت کے مقام پر گزر رہے تھے اور اپنی زندگی کے آخری دن جب قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی بیماری کی وجہ سے کوئٹہ سے کراچی کا سفر کیا تو کراچی ائیر پورٹ پہنچ کر ان کو گورنر جنرل کی رہائش گاہ جو کہ ائیر پورٹ سے 9 یا 10 میل کی دوری پر واقع ہے ائیر پورٹ سے ایمبولینس میں لے جایا گیا تو راستے میں ہی ایمبولینس خراب ہو گئی ایمبولینس کی خرابی کی وجہ سے 30 منٹ کا سفر دو گھنٹے میں ہوا اور اسی رات بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رات 10 بجے 11 ستمبر 1948کو اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے اور ابھی بھی وہی وقت ایک بار پهر ہمارے سامنے آ کر رک گیا ہے کوئٹہ پولیس ٹریننگ سنٹر پر کچھ دہشت گردوں کے حملے میں 61 سے زیادہ اہلکاروں کی شہادت ہوئی ان جوانوں کی شہادت نے حکومت پاکستان کی نا اہلی پر بہت سے سوالات چھوڑے ہے جبکہ پاکستان کی ایجنسیوں نے حکومت کو پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا پهر وہ کیا وجوہات ہے جن کی وجہ سے کوئٹہ پولیس ٹریننگ سنٹر کی سیکیورٹی کے طرف توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے 61 سے زیادہ جوان شہید ہوئے ہے حکومت پاکستان کی طرف سے سب سے پہلے تو شدید مذمت کی جاتی ہے اور پهر چند روز کے بعد ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنا دی جاتی ہے اور ساتھ ہی ایک بہت بڑا اعلان بھی کیا جاتا ہے کہ یہ کمیٹی بہت جلدی اس بات کی معلومات دے گی کہ کن وجوہات کی بناء پر یہ حملہ ہوا ہے درحقیقت یہ کمیٹی اس وقت تک کام کرتی ہے جب تک کوئی دوسرا واقعہ رونما نہیں ہوتا اس طرح یہ سلسلہ جاری رہتا ہے پاکستان کی حفاظت کرنے والے وہ جوان جو کوئٹہ میں دہشتگردوں کی فائرنگ کی وجہ سے شہید ہوئے تھے ان کی میتیں جب ان کے ابائی علاقوں کو روانہ کی گئی تو حکومت پاکستان کے پاس ان جوانوں کی میتیں روانہ کرنے کے لئے بھی ایمبولینسیں نہیں تھی کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ ان کو لوکل گاڑیوں کی چھتوں پر چڑھ کر روانہ کر دیا گیا اسی واقعہ میں شہید ہونے والے فوجی اہلکاروں کی میت کو پورے پروٹوکول کے ساتھ ان کے آبائی علاقوں کے قبرستان تک پہنچایا گیا اور دوسری طرف پولیس کے شہیدوں کی میت کو لوکل گاڑیوں کی چھتوں پر روانہ کیا گیا حکومت پاکستان کے لئے یہ ایک المیہ ہے ایک طرف پورے پروٹوکول کے ساتھ میت کو لے جایا جاتا ہے اور اسی واقعہ کے اندر شہید ہونے والوں پولیس اہلکاروں کو ایمبولینسیں تک مہیا نہیں کی جاتی آخر پولیس کے شہداء کے ساتھ اس قدر توہین آمیز رویہ کیوں کیا گیا ہے اگر فوج ہماری سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے تو پولیس والے بھی تو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دن رات عوام کی حفاظت کرتی ہے حکومت کی یہ دو طرفہ رویہ کب تک چلے گا