تحریر ۔۔۔شیخ توصیف حسین
ایک غریب خاتون اپنے نو عمر بیٹے کے ہمراہ کسی کام کے سلسلہ میں جا رہی تھی کہ اسی دوران اسے ایک جنازہ نظر آ یا جسے علاقے کے لوگ اٹھا کر قبرستان کی جانب لے جا رہے تھے اس جنازے کو دیکھ کر اُس غریب خاتون کے نو عمر بیٹے نے اپنی والدہ سے پو چھا کہ یہ جنازہ کس کا ہے جس پر غریب خاتون نے اپنے نو عمر بیٹے کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ جنازہ ہمارے علاقے کے نمبردار کا ہے یہ جواب سننے کے بعد نو عمر بیٹے نے دو بارہ اپنی والدہ سے پوچھا کہ اب ہمارے علاقے کا نمبردار کون ہو گا جس پر غریب خاتون نے اپنے نو عمر بیٹے کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ اب ہمارے علاقے کا نمبردار اس مرنے والے کا بیٹا ہو گا یہ جواب سننے کے بعد نو عمر بیٹے نے پھر اپنی والدہ سے کہا کہ اگر مرنے والے نمبردار کا بیٹا بھی وفات پا گیا تو پھر ہمارے علاقے کا نمبر دار کون ہو گا یہ سننے کے بعد غریب خاتون نے سخت لہجے میں جواب دیتے ہوئے اپنے نو عمر بیٹے کو کہا کہ اگر اس علاقے کے تمام کے تمام نمبردار وفات پا بھی جائے تب بھی تو نمبردار بن نہیں سکتا بالکل اسی طرح حکومت پنجاب جتنی چاہے ڈی ایچ کیو ہسپتال جھنگ میں عالیشان بلڈ نگیں تعمیر کروانے کے ساتھ ساتھ جدید قسم کی مشینری نصب کروا لیں یا پھر وہاں پر خوبصورت سے خو بصورت پودے وغیرہ لگوا لیں مذکورہ ہسپتال کی حالت زار اس وقت تک نہیں بدل سکتی کہ جب تک وہاں پر عرصہ دراز سے تعنیات ڈاکٹرز و لیڈی ڈاکٹرز جو ڈریکولا کا روپ دھار کر غریب مریضوں کا خون چوس رہے ہیں احتساب نہیں کر لیتے آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ وہ ناسور ہیں جو اپنے آپ کو ایک اعلی مخلوق جبکہ غریب مریضوں کو ہندو بر ہمنوں کی طرح اچھوت سمجھتے ہیں یہ وہ ناسور ہیں کہ جن کے اس گھناؤنے اقدام کو دیکھ کر انسانیت کا سر بھی شرم سے جھک جاتا ہے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ ناسور جو انسا نیت کے نام پر ایک بد نما داغ ہیں لیبارٹری ٹیسٹوں کی مد میں کمیشن وصول کرنے کے ساتھ ساتھ ادویات تیار کرنے والی کمپنیوں سے زیادہ سے زیادہ نذرانہ وصول کر کے ہر مریض کو انہی کمپنیوں کی ادویات کے نسخے تجویز کرتے ہیں یہ وہ ناسور ہیں جو حکومت پنجاب سے ماہانہ بھاری تنخواہیں و دیگر لاتعداد سہولیات حاصل کرنے کے باوجود اپنے فرائض و منصبی سرکاری ہسپتالوں میں ادا کرنے کے بجائے اپنے پرائیویٹ کلینکوں پر ادا کرتے ہیں یہ وہ ناسور ہیں جو اپنے پرائیویٹ کلینکوں جو کہ غیر رجسٹرڈ شدہ ہیں پر مالدار مریضوں کی دیکھ بھال ایسے کرتے ہیں جیسے ہو نہار بیٹا اپنے والدین کی جبکہ یہ ناسور سر کاری ہسپتالوں میں زیر علاج غریب مریضوں کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے طوائف اپنے بھوکے عاشق کو یہی کافی نہیں یہ ناسور سرکاری ہسپتالوں میں ایسے آتے ہیں جیسے کوئی بہت بڑا زمیندار اپنی زمینوں پر یہ ناسور جو در حقیقت نہ صرف مذہب اسلام بلکہ انسانیت کے نام پر بھی ایک بد نما داغ ہیں غریب مریضوں کا علاج کرنا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں بس اسی لیئے یہ ناسور متعدد غریب مریضوں کو الائیڈ ہسپتال فیصل آ باد ریفر کر دیتے ہیں جن میں سے زیادہ تر غریب مریض الائیڈ ہسپتال جاتے ہوئے راستے ہی میں دم توڑ جاتے ہیں یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہوا یوں کہ میں گزشتہ دنوں اپنے علاقے کے ایک غریب نوجوان جو محنت مزدوری کر کے اپنے چار معصوم بچوں کی کفالت کر رہا تھا کہ اچانک اس کے منہ کے ذریعے جسم کا سارا خون باہر نکل آیا کا علاج کروانے کیلئے ڈی ایچ کیو ہسپتال جھنگ پہنچا جہاں پر میں ڈی ایم ایس ڈاکٹر ظفر پاتو آ نہ جس کے متعلق شنید ہے کہ مذکورہ ڈی ایم ایس اپنے فرائض و منصبی صداقت امانت اور شرافت کا پیکر بن کر ادا کرنے میں مصروف عمل ہے سے رابطہ کر کے اس غریب نوجوان کے بارے میں آ گاہ کیا جس نے فل الفور مذکورہ نوجوان کو ایمر جنسی وارڈ میں داخل کرنے کے احکامات صادر کر دیئے جب میں اُس نوجوان جو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھا کے ہمراہ ایمر جنسی وارڈ میں پہنچا تو وہاں پر کسی ڈاکٹر کا نام و نشان تک نہ تھا جس پر میں نے جلدی سے وہاں پر موجود کمپوڈر سے رابطہ کر کے ڈاکٹر کے متعلق پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہاں پر لیڈی ڈاکٹر مصباح کی ڈیوٹی ہے شاید وہ راؤنڈ پر گئی ہو جس پر میں نے جلدی جلدی ایمر جنسی وارڈ کے تمام کمروں کو چیک کیا لیکن وہ محترمہ کہیں نظر نہ آئی بالآ خر کافی دیر کے بعد ایک محترمہ جس کے بالوں کا سٹائل عجیب و غریب ریشمی لچکدار کپڑے اور اونچی ایڑی کی جوتی پہنے ہوئے کمرے میں پہنچ کر کرسی پر بیٹھ گئی حالانکہ وہ کسی لحاظ سے بھی لیڈی ڈاکٹر نظر نہیں آ رہی تھی قصہ مختصر کہ میں داخلے کے فارم لیکر جب اس محترمہ کے پاس پہنچا تو مجھ سے پہلے ایک غریب خاتون جس کے ہاتھوں میں ایک معصوم بچہ تھا اس محترمہ کو کہہ رہی تھی کہ میں صبح نو بجے سے یہاں آئی ہوں اب گیارہ بج چکے ہیں اس دوران میرے اس معصوم بچے کا بھوک کی وجہ سے رو رو کر بُرا حال ہو گیا ہے میرا اپنا دودھ خراب ہے اس لیئے میں اسے اپنا دودھ پلانے سے قاصر ہوں لہذا آپ کوئی اچھا سا دودھ کا ڈبہ تجویز کر دیں تاکہ میں اسے پلا سکوں یہ سن کر اس محترمہ نے اس غریب خاتون کو بڑی عجیب نظروں سے دیکھا اور اپنے ساتھ بیٹھی ہوئی ایک ساتھی لڑکی کو کہا کہ اسے زنانہ وارڈ میں ریفر کر دو وہی سے اسے کوئی دودھ کا ڈبہ لکھ دے گی جس کے بعد وہ غریب خاتون اپنے روتے ہوئے بچے کے ہمراہ زنانہ وارڈ کی جانب روانہ ہو گئی جس کے بعد میں نے اس محترمہ کو اُس غریب نوجوان کے داخلے کے فارم دیئے جس پر اس محترمہ نے فوری طبی امداد کے بغیر اس غریب نوجوان کو داخل کر لیا لیکن بر وقت طبی امداد نہ ملنے کے سبب اس غریب نوجوان کی حالت مذید خراب ہو گئی جس پر اس غریب نوجوان کے کاغذات لیکر ایک اہلکار ڈاکٹر جمشید خان بلوچ کے پاس پہنچا جس نے حسب عادت مذکورہ مریض کو چیک کرنے کے بجائے الائیڈ ہسپتال فیصل آ باد ریفر کر دیا جو الائیڈ ہسپتال فیصل آ باد پہنچتے ہی اللہ کو پیارا ہو گیا جس کی نعش لیکر جب ہم اس بد نصیب کے گھر پہنچے تو پورے علاقے میں کہرام بر پا ہو گیا ہر آ نکھ اشکبار تھی جب کہ اس کے معصوم بچے رو رو کر اپنے باپ کی نعش سے لپٹ کر کہہ رہے تھے کہ ابو اُٹھو اور ہم سے باتیں کرو تمھارے بغیر ہمارا اس دنیا میں کون ہے ابو تمھاری تو یہ خواہش تھی کہ ہم پڑھ لکھ کر ملک و قوم کا نام روشن کریں گے اب بتاؤ ابو ہمیں کتابیں اور سکول کی فیس کو ن دے گا ابو تمھارے بغیر ہمیں سکول کی وردی کون لیکر دے گا ابو جب ہم بیمار ہو جاتے تھے تو آپ ہمارا علاج کرواتے تھے اب ہمارا علاج کون کروائے گا ابو آپ کا یہ ایک خواب تھا کہ ہم بڑے ہو کر ڈاکٹر بن کر غریب اور بے بس افراد کا علاج کریں لیکن ابو ڈاکٹروں کا یہی کردار ہے جو انھوں نے آپ کے ساتھ کیا بس ابو آج ہم آپ سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ہم ڈاکٹری پیشے کو کبھی بھی اور کسی بھی صورت میں نہیں اپنائے گے چونکہ یہ نا سور ڈاکٹرز اس مقدس پیشے کے نام پر ایک بد نما داغ ہیں جو ذاتی مفاد کے حصول کی خا طر غریب اور بے بس انسانوں کی جانوں سے کھیل رہے ہیں یہ وہ ناسور ہیں کہ جن کی وجہ سے کئی گھروں کے چراغ گل ہو چکے ہیں جبکہ متعدد یتیم بچے بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ایسے ناسوروں کو خداوندکریم کبھی معاف نہیں کرے گا چونکہ خداوند کریم ان سے پیار کرتا ہے جو اس کی مخلوق سے پیار کرتے ہیں
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو میں مر جاؤں گا
میں تو ایک دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا