لڑکی،شادی اور اسراف

Published on November 5, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 1,296)      No Comments

23
تحریر۔۔۔ حنا انور
ہمارے معاشرے میں لڑکی کے لئے لڑکا یا لڑکے کے لئے لڑکی دیکھنے کا رواج عام ہے. لڑکی پسند کرنے کے لئے عموما پانچ، چھے خواتین گھر گھر جھانکتی پھرتی ہیں اور اس موقع پر ہر بار لڑکی کے گھر والوں کو ایک پرتکلیف کھانے پینے کی اشیا کا بندوبست کرنا پڑتا ہے. لڑکے کے گھر والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ لڑکی چاند سی ہو. ان کا لڑکا خواہ الٹا توا ہی کیوں نہ ہو لیکن لڑکی گوری ہو. اعلی تعلیم یافتہ ہو ڈاکٹر یا انجنیئر ہو تو سونے پر سہاگہ. لیکن یہاں جب بات انکی اپنی بیٹی کی ہوتی ہے تو چاہتے ہیں کہ قبول صورت اور واجبی تعلیم اور رہین سہن کے ساتھ بھی اسے خوشی خوشی قبول کر لیا جائے. جبکہ لڑکی کے بی اے، بی ایس سی یا بی کام ہونے پر ، سانولی رنگت پر اور مڈل کلاس یا پسماندہ علاقے کی بنیاد پر معمولی مارکس دیے جاتے ہیں. جبکہ لڑکی ڈاکٹر یا ایم بی اے ہو ، گوری اور صاف رنگت والی ہو اور تو اور کسی پورش ایریا کی ہو تو ایسی لڑکی کو ہائی مارکس دیے جاتے ہیں اور اکثر اوقات اس آزمائش اور فرمائش پر بہت کم لڑکیاں پوری اتر پاتی ہیں جس کے باعث بہت سی لڑکیوں کے بالوں میں چاندی آجاتی ہے اور شادی کی عمر گزر جاتی ہے اور اگر کبھی نہ کبھی کسی طرح رشتہ طے ہوجائے تو پھر شادی بیاہ کے موقعے پر مہندی، مایوں اور دیگر اخراجات پر اس قدر فضول خرچی کی جاتی ہے کہ مقصد محض دکھاوا ہی رہ جاتا ہے. حالانکہ اسلام نے ہر موقع پر سادگی کی تلقین کی ہے اور فضول خرچی سے باز رہنے کی بار بار تاکید کی ہے ارشادِالہی ہے!
فضول خرچ شیطان کا بھی ہے
مگر آج کے دور میں صورتحال بلکل اسکے برعکس ہے، شادی بیاہ میں اس قدر فضول خرچی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ اتنے پیسوں سے بت سے جوڑوں کی بآسانی کروائی جا سکتی ہے. لیکن آج کل ماحول اور حالات نے لوگوں کو ددکھاوے پر مجبور کر دیا ہے جسکی وجہ سے بڑی تیزی سے برانڈز اور لوگوز کا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے. غرض یہ ہے کہ شادی بیاہ کے نام پر لوگ نہ صرف زندگی بھر کی جمع پونجی خرچ کر ڈالتے ہیں بلکہ اکثر اوقات مقروض بھی ہوجاتے ہیں کیونکہ شادی میں ہم زیادہ تر اسلام کی رسومات کی بجاے دوسرے مذہب کی رسومات اور روایات کو پورا کرتے نظر آتے ہیں. کیونکہ شادیوں میں جن رسومات کو اپنانے کے ہم اور ہمارا معاشرہ عازی ہوچکا ہے اس کی گنجائش اور مثال ہمیں دین اسلام سے کہیں بھی نہیں ملتی کیونکہ اسلام نے ہر مقام پر سادگی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے.اور یہ فضول رسومات جیسے مہندی ، مایوں اور اس جیسی بے پناہ فضول چیزیں آجکل کی شادیوں میں نظر آتی ہیں جن کا مقصد اسلامی کروائی کو مکمل کرنا نہیں بلکہ غیر صینب ہونے کا ثبوت دینا ہوتا ہے.
شادی ایک حسین بندھن ہے لیکن ہمارے معاشرے کی تنگ نظری ، نمودونمائش اور چاپلوسی نے اس رشتے کے ساکھ کو بھی بری طرح سے متاثر کیا ہے جس کی بدولت ایک لڑکی شادی طے ہونے سے شادی کے آخری مرحلے تک پوری طرح معاشرے کے لئے دکھاوے کا سامان مہیا کرنے پر مجبور ہوتی ہے اور ساتھ ہی اسکے والدین بھی اس عذاب کا شکار ہوتے ہیں ہمیں بے جا اسراف کے بجائے سادگی سے نکاح اور ولیمے کی روایت کو زندہ رکھنا چاہیے تاکہ شادی کا بندھن بھی متاثر نہ ہو اور تمام مراحل بھی آسانی سے مکمل ہوجائیں

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Free WordPress Themes