نئی دہلی: (یواین پی)بھارت کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے 25 دن قبل لاپتا ہونے والے مسلمان طالب علم نجیب احمد کا اب تک کوئی سراغ نہیں مل سکا، نجیب کی ’’پراسرار گمشدگی‘‘ کے خلاف جے این یو طلباء یونین اور مسلم تنظیمیں مسلسل سراپا احتجاج ہیں، جبکہ طلباء کے احتجاج میں جواہر لال یونیورسٹی کے سابق طالب علم اور مشہور یونین لیڈر کنہیا کمار بھی شامل ہو گئے ہیں۔ بھارتی نجی چینل ’’این ڈی ٹی وی ‘‘ کے مطابق غداری کے الزام میں جیل جانے والے مشہور طالب علم رہنما کنہیا کمار نے اپنی کتاب ’’فرام بہار ٹو تہاڑ ‘‘ کی تقریب رونمائی کے موقع پر مودی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت کے پاس تو اتنی خفیہ معلومات تھی کہ انہوں نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں استعمال ہوئے کنڈوم کی گنتی تک کر لی تھی، لیکن کیا وہ اپنے اس خفیہ نظام کا استعمال یہ پتہ لگانے میں نہیں کر سکتے کہ اتنے دنوں سے لاپتہ نجیب آخر ہے کہاں؟ انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی میں استعمال ہونے والے ’’کنڈوم ‘‘ تو خفیہ اداروں نے ڈھونڈ لئے مگر ابھی تک اسی یونیورسٹی کے لاپتا طالب علم کا سراغ کیوں نہیں لگا سکے ہمارے ادارے؟ کنہیا کمار کا یہ اشارہ بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کے لیڈر گیاندیو آہوجا کے اس بیان کی طرف تھا جس میں انہوں نے فروری میں یونیورسٹی میں جاری مظاہروں کے دوران دیا آہوجا نے کہا تھا کہ، ‘جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں روزانہ 3000 بیئر کے کین، 2000 شراب کی بوتلیں، 10 ہزار سگریٹ کے ٹکڑے، 4 ہزار بیڑی، 50 ہزار ہڈیوں کے ٹکڑے، 2 ہزار چپس کے پیکٹ ملتے ہیں، ان کے اس بیان پر خوب ہنگامہ بھی ہوا تھا۔ جے این یو کے طلبہ تبھی سے ہی مشتعل ہیں جب 14 اکتوبر کو ہاسٹل میں ہوئے تنازعہ کے بعد سے ایک مسلمان طالب علم نجیب احمد لاپتہ ہو گیا جس کا 25 روز گزرنے کے بعد بھی ابھی تک کوئی سراغ نہیں مل پا رہا کہ اس کس نے اغوا کیا ہے؟ بائیں بازو کی جماعتوں سے وابستہ آل انڈیا سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کا الزام ہے کہ غائب ہونے سے پہلے نجیب کو بی جے پی کے اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کے کارکنوں نے بری طرح پیٹا تھا تاہم اے بی وی پی نے اس معاملے میں کسی بھی طرح کے ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ اتوار کو ہی دہلی کے انڈیا گیٹ پر مظاہرہ کر رہے سینکڑوں طالب علموں کو پولیس نے حراست میں لے لیا تھا، نجیب احمد کی والدہ کے ساتھ بھی بدسلوکی کی گئی اور انہیں بھی حراست میں لے لیا گیا لیکن بعد ازاں انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔