اختر سردار چودھری،کسووال
علامہ ا قبال ؒ شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔علامہ ا قبال ؒ ایک حساس دل و دماغ کے مالک تھے آپ کی زندہ شاعری ہمیشہ مسلمانوں کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی۔علامہ اقبال انسانی خودی کے قائل تھے ۔ وہ کہتے ہیں۔خودی ہی وہ عنصر ہے جو انسانوں کو اسرار شہنشاہی سکھاتی ہے۔انہوں نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا۔ان کو قومی شاعر کی حثییت بھی حاصل ہے۔ ان کاکلامِ دنیا کے ہر گوشے میں پڑھا جاتا ہے اور مسلمانانِ عالم بڑی عقیدت کے ساتھ مطالعہ کرتے اور ان کے فلسفے کو سمجھتے ہیں، ان کی کئی کتابوں کے انگریزی، جرمنی، فرانسیسی، چینی، جاپانی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔بیسویں صدی کی معروف شخصیت تھے۔
علامہ ا قبال ؒ مسلمانوں کے لئے ایک ایسی شخصیت ہیں جو ہمیشہ قابل عزت اور قابل احترام تھی، ہے اور ہمیشہ رہے گی ،آپ کی شاعری کے گوناں گو پہلو اور ہمہ گیریت مسلمان معاشرے کے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو ان کے ذوق کے مطابق متوجہ کرتی ہے، آپ کی شاعری کے سب سے اہم مقاصد مسلمانان برصغیر کو خواب غفلت سے جگا کر مذہبی اور سیاسی شعور بیداری اور ان میں جذبہ اخوت محبت ویگانگت پیدا کرنا تھا۔
علامہ ا قبال ؒ کیسی ریاست چاہتے تھے۔ اس کا ایک منظر ہم کو جاوید نامہ میں ملتا ہے ۔مولانا روم کی قیادت میں علامہ ا قبال ؒ دنیا کی سیر کو نکلتے ہیں ۔وہ ایک ایسی ریاست میں جاتے ہیں۔ جہاں ظلم،غربت،پولیس،جاگیرداری،سرمایہ داری ،جرائم وغیرہ ناپید ہوتے ہیں ۔مذہب ،سائنس و ٹیکنالوجی ،علم و ادب ،تعلیم و تربیت اس ریاست کی بنیاد ہوتی ہے ۔جاویدنامہ میں اس شہر ریاست کا نام مرغدین بتایا گیا ہے ۔
علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877 ء کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے، والدین نے نام محمد اقبال رکھا۔ ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہی حاصل کی اور مشن ہائی اسکول سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔مزید تعلیم کے لئے 1895 ء میں شہر لاہور آ گئے، جہاں انہوں نے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا اور 1899 ء میں فلاسفی میں ماسٹرز کیا۔ 1899 ء میں وہ پہلے ہی قانون کی ڈگری حاصل کر چکے تھے۔ لاہور جو تعلیمی اور ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا، اقبال نے جلد ہی بحیثیت شاعر اپنے آپ کو منوا لیا۔ گورنمنٹ کالج کے اساتذہ میں جن کی اقبال نے بہت تعریف کی تھی، ان میں سر تھامس آرنلڈ بھی تھے۔ آرنلڈ بھی اقبال سے بے پناہ محبت رکھتے تھے اور انہوں نے اقبال کے بحیثیت استاد کیریر میں بہت مدد کی اور ان کی کئی ریسرچ پراجیکٹس پر کام کرنے کے لئے حوصلہ افزائی کی۔ جب آرنلڈ 1904 ء میں انگلستان چلے گئے تو علامہ اقبال نے ایک دل کو چھو لینے والی نظم لکھی، جس میں انہوں نے آرنلڈ کی انگلستا ن واپسی پر اپنے احساسات قلمبند کئے۔
اگلے ہی سال علامہ اقبال کیمبرج میں پڑھائی کے لئے انگلستان روانہ ہو گئے۔ ان کا کیمبرج میں پڑھائی کا فیصلہ شائد اسی لئے تھا کہ کیمبرج کی شہرت انگلش فلاسفی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی تعلیم کے لئے بھی تھی۔اپنی تعلیم کے تین سالوں میں علامہ اقبال نے کیمبرج 1906ء سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1906 میں لندن مڈل ٹیمپل سے بیرسٹرکی تعلیم حاصل کی۔ اور 1908 میں میونخ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ایران میں روحانی ترقی کے موضوع پر ایک مقالہ لکھ کر فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ایک برس بعد 1908 ء میں انہیں انگلستان میں لنکن اِن کے مقام پر بار میں آنے کی دعوت دی گئی۔ اس برس وہ وکیل اور فلسفی بن کر ہندوستان واپس آئے، واپسی کے بعد جلد ہی وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفہ پڑھانے لگے تاہم انہیں ہندوستانیوں کے احساسِ غلامی کا احساس بہت زیادہ تھا۔اس کے علاوہ انہوں نے برطانوی راج کے محکوم ہندوستانی مسلمانوں کی حالت زار کو عیاں کرنے میں گہری دلچسپی لی، یورپ روانگی سے قبل اقبال ایک آزاد خیال قوم پرست اور انڈین نیشنل کانگریس کے ہمدرد تھے تاہم 1911 ء میں تنسیخ تقسیم بنگال ہوگئی۔ پھر ان کا زیادہ تررجحان شاعری میں اور ہندوستان کے ساتھ مسلمانوں کی طرف بہت نمایاں نظر آتا ہے۔
شعر و شاعری کے شوق کو فروغ دینے میں آپ کے ابتدائی استاد مولوی میر حسن کا بہت بڑاہاتھ تھا۔لاہور کے بازار حکیماں کے ایک مشاعرے میں آپ نے ایک غزل پڑھی ،پہلے شعر کا سننا تھا کہ محفل مشاعرہ میں موجود افراد عش عش کر اٹھے اور مرزا ارشد گورگانی نے اسی وقت پیشین گوئی کی کہ علامہ اقبال کا شمارمستقبل کے عظیم شعراء میں سے ہوگا ۔انہی دنوں آپ نے غزل کے ساتھ ساتھ نظم پر بھی خاص توجہ دی،ایک ادبی مجلس میں آپ نے اپنی اولین نظم ’’ہمالہ‘‘ سنائی تو اسے بہت پسند کیا گیا اور ان کی شہرت کا چرچا چار سو پھیلنا شروع ہوگیا۔اس وقت آپ نے بچوں کے لئے بھی بہت ساری نظمیں لکھیں ، اس کے ساتھ ساتھ مکالماتی بیان مثلاََ مکڑا اور مکھی، پہاڑ اور گلہری، گائے اور بکری کو بھی نہایت خوبصورت پیرائے میں تخیل کا جز بنا دیا۔ کبھی بچے کی دعا کہہ گئے، جو ہر اسکول کے بچے کی زبان پر ہے۔
علامہ اقبال کے اساتذہ میں میر حسن جو کہ ایک منجھے ہوئے اسکالر تھے اور کئی اسلامی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ انہوں نے علامہ اقبال کو اسلامی تدریسی تہذیب میں ایک مکمل تربیت فراہم کی۔ استاد کی تربیت کا ان کی شخصیت پر نمایاں اثر نظر آتا ہے۔ کئی سالوں کے بعد 1922ء میں جب پنجاب کے انگریز گورنر نے حکومت کو تجویز دی کہ علامہ اقبال کو ان کی علمی خدمات کے نتیجہ میں سر کا خطاب دیا جائے۔ علامہ اقبال نے کہا کہ میر حسن کو بھی سر کا خطاب دیا جائے۔ گورنر کے اس جواب پر کہ میر حسن نے کوئی کتاب تصنیف نہیں کی، اقبال نے جواب دیا کہ اقبال میر حسن کی ہی لکھی ہوئی کتاب ہے۔ بعدازں میر حسن کو بھی شمس العلماء کا خطاب دیا گیا ۔
ابتداء میں آپ نے ایم اے کرنے کے بعد اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض سرانجام دیئے لیکن آپ نے بیرسٹری کو مستقل طور پر اپنایا۔ وکالت کے ساتھ ساتھ آپ شعروشاعری بھی کرتے رہے اور سیاسی تحریکیوں میں بھرپور انداز میں حصہ لیا۔ آپ آزادی وطن کے حقیقی علمبردار تھے ۔شکوہ لکھنے پر انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تو آپ نے جواب شکوہ لکھ کر تمام شکوہ کرنے والوں کو لاجواب کر دیا کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔
چار سال بعد، 1926 ء میں علامہ ا قبال ؒ پنجاب مجلس قانون ساز میں رکن منتحب ہوئے اور آل انڈیا مسلم لیگ کے اور بھی قریب ہوگئے۔ آپ نے آزادی کے بعد ہندو حکومت کو تسلیم کرنے کی بجائے ایک علیحدہ مسلمان وطن کے لئے زیادہ سے زیادہ حمایت کا اظہار کیا، صرف قوم کو نیند سے اٹھانے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے لئے دعائیہ الفاظ کا سہارا بھی لیا۔مسلم لیگ میں شامل ہونے کے بعد آپ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوگئے، 1930 ء میں آپ کا الہ آباد کا مشہور صدارتی خطاب ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے جس میں آپ نے پاکستان کا تصور پیش کیا۔ 1931ء میں آپ نے گول میز کانفرنس میں شرکت کرکے مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ آپ کی تعلیمات اور قائداعظم کی ان تھک کوششوں سے ملک آزاد ہوگیا اور پاکستان معرض وجود میں آیا۔
اسلامی تصوف مشرقی و مغربی فلسفہ اور انسانیت کے مقدر کو سمجھنے اور اس کی وضاحت کرنے کے لئے فارسی اردو شاعری کے رمزیہ اور نازک انداز کو استعمال کرنے میں اقبال کو اپنے ہم عصر مسلمان فلسفیوں میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ وسعت میں آر پار جانے میں یہ اقبال کی اہلیت ہے جو فلسفہ کو سماجی ثقافتی مسائل سے جدا کرتی ہے اور جس نے انہیں ایک فلسفی اور ثقافتی ہیرو بنایا۔لیکن پاکستان کی آزادی سے پہلے ہی 21 اپریل 1938 ء کو علامہ اقبال انتقال کر گئے تھے تاہم ایک عظیم شاعر اور مفکر کے طور پر قوم ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔ جس نے پاکستان کا تصور پیش کرکے برصغیر کے مسلمانوں میں جینے کی ایک نئی آس پیدا کی۔
قومی شاعر ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کی آخری آرام گاہ لاہور کے حضوری باغ میں بادشاہی مسجد اور قلعہ کے درمیان واقع ہے۔بہت سادہ مگر انتہائی خوبصورت عمارت ہے، اس عمارت پر پاکستان رینجرز کے اہلکارسیکورٹی سر انجام دیتے ہیں ۔ یہاں پر ہر روز ہزاروں لوگ شاعر اور فلسفی علامہ محمد اقبال کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔