تحریر۔۔۔ جاوید صدیقی
گزشتہ سالوں کی محنت اور پلاننگ کے سبب حالیہ دنوں میں پاکستان دنیا بھر کی خبروں میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل رہا ہے،امریکہ، یورپ، وسطی ایشیا، افریقہ، آسٹریلیا سمیت تمام براعظموں کی تجارتی سطح پر پاکستان چین کے توسط سے ایک خاص مقام کی جانب بڑھ رہا ہے، دشمنان پاکستان گو کہ ہر پہلوسے پاکستان میں بڑھتے ہوئے تجارتی و ترقی کے سفر میں ہر طرح رکاوٹ ڈالنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہیں دہشت گردی کراکے تو کہیں بارڈر پر گولہ باری کرکے گویا بھارت سمیت پاکستان مخالف ممالک مسلسل پاکستان کی ترقی اور پاک چین راہداری کے عمل کو ڈسٹرپ کرنے کیلئے اپنی ناکام کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
پاک چین راہداری پرویز مشرف کے دور اقتدار میں شروع کی گئی تھی ، پاکستان کی ترقی کی راہیں پرویز مشرف کے دور ہی میں شروع ہوئی تھیں لیکن موجودہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کےحصے میں اس کا آپریشنل سسٹم کا افتتاح آیا، چائنا کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ پاکستان کا کون سا سیاسی لیڈر اپنے اپنے نام پر تاج سجاتا ہے ،چائنا تو صرف اپنے مقاصد کی طرف مکمل دھیان لگاکر پاک چین اقتصادی راہداری کے تمام پروجیکٹ کو مکمل کرنے میں جتھا ہوا ہے ۔پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں واقع گوادر بندرگاہ نے سن دو ہزار سات عیسوی میں اس وقت اہمیت حاصل کی جب سابق صدر و جنرل پرویز مشرف نے بندر گاہ کی حیثیت سے اس کا افتتاح کیا تھا۔ ستائیس اگست سن دو ہزار تیرہ عیسوی کو جب پاکستانی حکومت نے چین کے ساتھ ایک اقتصادی سمجھوتہ کر کے چین کو عالمی منڈیوں تک خصوصاً مغربی ایشیااور افریقی ممالک تک کم مسافت کی راہداری فراہم کرنے کا اعلان کیا تو اچانک ساری دنیا اس جانب متوجہ ہو گئی۔پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا سب سے خوش آئند پہلویہ ہے کہ اس منصوبے پر ملک کی سیاسی وعسکری قیادت ایک پیچ پر ہے جس سے اس منصوبے پر پیش رفت تیزی سے ہو رہی ہے جبکہ اس کی سیکیورٹی کی ضمانت پاک فوج نے اٹھائی ہے ۔چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف بھی پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں ،آرمی چیف نے مجوزہ روٹ کے کئی دورے بھی کئے ہیںاور امن کی ضمانت بھی فراہم کی ہے تاکہ چینی سرمایہ کار بلاخوف وخطر راہداری کے مختلف منصوبوں پر کام تیزی سے کرسکیںان منصوبوں کی سیکورٹی کے لئے ایک فورس بھی تشکیل دی گئی ہے جس کے لئے پاک فوج نے بھر پور تعاون کا یقین دلایا ہے، جنرل راحیل شریف نے چینی وفد کو یقین دلایا کہ وہ اس منصوبے کی تکمیل اور بعد ترویج تک تحفظ فراہم کریں گے، یہی وجہ ہے کہ اپنے مقررہ وقت میں چائنا سے گوادر کی راہداری مکمل ہوچکی ہے اور الحمد للہ چائنا کا تجارتی قافلہ گوادر کے آپریشن شروع ہونے سے اپنی منزل کی جانب بڑھنے لگا دوسری جانب پاک نیوی نے سمندر کی حفاظت کی ذمہ داری لے لی۔ چین نےایک طویل مدتی منصوبہ بندی کے تحت گوادر پورٹ میں سرمایہ کاری کی، پورٹ کی سب سے زیادہ اسٹراٹیجک اہمیت چین کے لئے ہی ہے،یہی وجہ ہے کہ چین اب تک ایک سو اٹھانوے بلین ڈالر ز کی سرمایہ کاری سے کوسٹل ہائی وے تعمیر کر چکا ہے جو گوادر پورٹ کو کراچی سے ملاتا ہے اس منصوبے میں چین کی دلچسپی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ چین کے پاس گرم پانیوں کی کوئی بھی بندرگاہ نہیں ہے جو کہ تمام سال تجارتی جہازوں کی آمد و رفت کو جاری و ساری رکھے، گوادر پورٹ کی تعمیر اور سرگرمیوں سے مغربی چین میں بھی بہت زیادہ ترقی ہو گی کیونکہ کاشغر سے گوادر پورٹ کا فاصلہ محض پندرہ سو کلومیٹر ہے جب کہ کاشغر سے چین کی مشرقی کوسٹ پینتیس سو کلومیٹر دور ہے،گوادر پورٹ کے ذریعے چین کی ہزاروں کلومیٹر دور سے تیل اور گیس کو درآمد کرنے کے فاصلے کو کافی حد تک کم کرنے میں مدد گار ثابت ہو گی، چین کی ساٹھ فیصد توانائی کے ذرائع خلیج فارس کے راستے عموماً سٹریٹ آف ملاکہ سری لنکا کے ذریعہ پہنچتے ہیں جس کے لئے چینی بحری جہازوں کو دس ہزار کلومیٹر راستہ طے کرنا پڑتا ہے، گوادر پورٹ کی وجہ سے یہ فاصلہ صرف پچیس سو کلومیٹر ہوگا،پا ک چین کوریڈور پاکستانی کشمیر ،گلگت اور بلتستان علاقوں سے ہو کر گذرتا ہے ۔ چین کے لئے گوادر پورٹ نے خلیجی اور افریقی ممالک کے ساتھ براہ راست رابطے کو ممکن بنا دیا ہے اب اگر سری لنکا یا امریکہ ابنائے ملاکہ کو بلاک بھی کر دے تو چین کے لئے بحیرۂ عرب کا تجارتی راستہ ہمیشہ کے لئے کھلا رہے گا، گوادر پورٹ کے ذریعے چین خلیج فارس میں تیل کی ترسیل کےلئے گزرنے والے تمام جہازوں کی نقل و حمل کو مانیٹر کر سکتا ہے ۔۔!! گوادر پورٹ اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے سنٹرل ایشیا اور جنوب مغرب کے ساتھ ایک گیٹ وے کی حیثیت اختیار کرچکا ہے اور یہ گیٹ وے دنیا کے تمام ممالک کا سنٹرل ایشیاء کے ممالک کے ساتھ تجارتی روابط کا ایک سستا اور مؤثر ذریعہ بن چکا ہے۔ سنٹرل ایشیا، کی ریاستیں چھ اعشاریہ ایک ملین مربع میل کے رقبے پر مشتمل ہیں کیسپین کے سمندری خطے میںدو سو بلین بیرل تیل کے ذرائع اورتین ہزار بلین کیوبک میٹرز گیس کے ریزروز ہیں چنانچہ افغانستان کے حالات ٹھیک ہونے کے بعد مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا، چین سمیت بیس سے زیادہ ممالک کے تین ارب لوگوں کےدرمیان گوادر پورٹ کے ذریعے درآمدات اور برآمدات ہوں گی۔ ماہرین کے مطابق جنوبی ایشیا، مغربی ایشیا اور سنٹرل ایشیا کی ریاستوں کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ، تیل اور گیس کی پائپ لائنوں کی تعمیر کوسٹل ٹریڈ جیسی تجارتی اور صنعتی سہولتوں سے اس خطے کے تمام ممالک افغانستان، ترکمانستان، قازقستان، اومان، یو اے ای، سعودی عرب، ایران، قطر، چین میں معاشی خوش حالی کے نئے دور کا آغاز ہونے جارہاہے کیونکہ یہ آنے والے وقتوں میں دنیا کا سب سے اہم توانائی کا دروازہ ثابت ہو گا اور امریکی منڈی کا متبادل بھی بن کر خطے میں امریکی اقتصادی، فوجی اور اسٹرٹیجک مفادات کو ختم کر دینے کے مترادف ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان اور امریکہ کو گوادر پورٹ میں چین کی شراکت کسی صورت میں قابل قبول نہیں مگر پاکستان میں چین کے سفیر نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ہندوستان سمیت کسی بھی ملک کو ہمارے اور پاکستان کے درمیان معاہدے پر تشویش کی کوئی ضرورت نہیں ہونی چاہئے یہ معاہدہ دونوں ممالک کے معاشی مفاد میں ہے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا چین بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال سے پریشان ہے تو سفیر محترم نے کہا کہ قطعاً نہیں ہم پہلے ہی پاکستان کے ساتھ ایک سو بیس مشترکہ منصوبوں پر کام کر رہے ہیں اور حکومت پاکستان ہمیں مکمل تحفظ فراہم کر رہی ہے اور اس سلسلے میں ہمیں قطعاً کوئی پریشانی نہیں ہے۔۔۔!!سی پیک منصوبہ پاکستان اور خطے کے ممالک کے لئے گیم چینجر ثابت ہو گا اس سے چین سینٹرل ایشیاء ،جنوبی ایشیاء ، مشرق وسطیٰ اور پاکستان کے تین ارب سے زیادہ عوام کیلئے ترقی و خوشحالی کا پیغام لائے گا ،چین پاکستان اقتصادی راہداری بیلٹ اینڈروڈ منصوبے کا حصہ ہے ، اس منصوبے کے علاقائی عالمی معیشت اور طویل المیعاد بین الاقوامی اقتصادی پیداوار پر بھی اثرات مرتب ہوں گے ،سی پیک کے ذریعے پاکستان میں بنیادی ڈھانچہ بڑی تیزی سے ترقی کررہا ہے ، اپریل سن دو ہزار سولہ عیسوی میں قراقرم ہائے وے کی پاکستانی حصے کی تعمیر شروع کی گئی تھی جب کہ مئی میں پشاور کراچی ایکسپریس وے (سکھر ملتان سیکشن ) پر کام شروع کیا گیا تھا جو کہ سی پیک کے تحت نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کا ایک بڑا منصوبہ ہے، اگست میں پاکستان کے صوبے پنجاب میں شورکوٹ سے خانیوال تک چونسٹھ کلومیٹر ایم فور ہائے وے کی تعمیر پر کام کا آغاز ہوا ، پاکستان کا یہ پہلا منصوبہ ہے جس کو چین کے ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بنک کی مالی معاونت حاصل ہے ، سی پیک منصوبے کے تحت گوادر کی بندر گاہ ٹرانسپورٹ کا بنیادی ڈھانچہ ، توانائی اور صنعتی تعاون کو ترقی دی جارہی ہے ، یہ منصوبہ ون پلس فور تعاون کہلاتا ہے ،اقتصادی شاہراہ ریشم جو چین کو مرکزی اور مغربی ایشیا ء کے زمینی راستوں سے یورپ کو ملاتی ہے اور اکیسویں صدی کی بحری شاہراہ ریشم جو چین کو جنوب مشرقی ایشیاء ، افریقہ اور یورپ کو سمندر کے ذریعے ملاتی ہے ، یہ منصوبہ ان ممالک کی طویل المیعاد ترقی اور حقیقی فوائد کا حامل ہے ، بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت راہداری کے چھ بڑے بین الاقوامی اقتصادی تعاون کے منصوبے شامل ہیں ۔۔۔!! معزز قائرین! پاک چائنا اقتصادی راہداری سے پاکستان مین روزگار اور ترقی کا ایک نیا باب شروع ہوگا اس کے علاوہ بین الصوبائی سطح پر مواصلات، شاہراہوں کا جال ایک دوسرے سے منسلک ہوکر پورے ملک میں پھیل جائیگا جس سے نہ صرف کرائے میں کمی واقع ہوگی بلکہ اشیا خورد نوش اور دیگر سامان برباد ہونے سے بچ جائیں گے ، اس کے علاوہ برآمدات بھی بڑھ جائیگی، حکومت پاکستان اور پاک آرمی نے پاکستان کے مفاد کی خاطر ملک بھر میں توانائی کے شعبے کو فروغ اولین ترجیح کی بنیادوں پر کام کیا جارہا ہے جس مین چین کا تعاون سر فہرست ہے،بن قاسم پورٹ، کراچی پورٹ بھی گوادرپورٹ کی طرح اپنے آپریشن کو تیز سے تیز ترین کرکے ملکی خذانے کو تقویت پہنچائیں گے۔پاکستان اُن واحد ممالک میں سے ایک ہے جو زراعت میں خود کفیل تھیں ، زراعت کے شعبے پرحکومتی سطح پر چیک اینڈ بیلنس کا سلسلہ کیا جانا ضروری ہے کیونکہ ہماری اجناس دنیا بھر میں مقبول ہونے کیساتھ ساتھ دیمانڈ یافتہ بھی ہیں لیکن کسانوں کیساتھ عدم تعاون کی وجہ سے زراعت کا شعبہ پستی کی جانب ہے جبکہ جاگیردار حکومتی مالی امداد کو ذاتی عیش و تعائش کیلئے صرف کرتا چلا آرہا ہے جس سے ملک میں بھاری مقدار میں پیداہونے والی اجناس فقدان کا شکار رہتی ہے۔پاکستانی برآمادت میں آم، کیلا، انار، چیکو، سیب، کپاس، گیہوں، گنا، موسمبی، کینو،پیاز، آلو، لہسن، ادرک، مرچیں وغیرہ وغیرہ شامل ہیں ۔۔!! معزز قائرین ! پاکستان کھیل اور جراحی کے شعبے میں سامان کی تیاری اور پروڈکٹ دنیا بھر میں سرفہرست ہے،جو زرمبادلہ کی مد میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔مستقبل قریب میں پاکستان گوادر پورٹ کے ذریعے اپنی مصنوعات کو دنیا بھر میں باآسانی پہنچا کر نہ صرف اپنے قرضوں سے چھٹکارا حاصل کرلے گا بلکہ اس قدر خود کفیل ہوجائے گا کہ اپنی پیداوار کی توانائی اور مصنوعات بیرون ملک فروخت کرکے عوامی سطح پر فلاحی امور کوبہتر انداز میں پیش کرنے کے قابل بن جائیگا، اس تمام مرحلوں میں جہاں منتخب حکومت نے اپنا کردار ادا کیا ہے وہیں ہماری پاک افواج نے کہیں زیادہ اپنی خدمات پیش کیں ہیں ، پاک افواج نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے پاکستان کی ترقی کی حفاظت کو محفوظ بنایا ۔پاکستان میں بھارت اور افغانستان کی جانب سے مسلسل دراندازی کی جاتی رہی ہے ، بھارت پاکستان دشمنی میں اس قدر اندھا ہوگیا ہے کہ وہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے امور کو بھلا کر صرف پاکستان کیساتھ جنگ کرنے پر تلا ہوا ہے ،بھارت کے اس عمل کی سب سے بڑی وجہ پاک چین اقتصادی راہداری کے عمل کوروکنا اور دشواری پیدا کرنا ہے ، اسی بابت مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے انسان سوز مظالم کی تاریخ رقم کیئے ہوئے ہے، بھارت کو جان لینا چاہیئے کہ پاکستان اب ستر کی دہائی کا نہیں ہے ،پاکستان ایک مضبوط اٹیمی ملک ہے اور محفوظ ہاتھوں میں ہے ،پاک چائنا راہداری کے پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد بھارت کو بتادیں گے کہ لڑائی کس کو کہتے ہیں ، پاکستانی عوام ہی ان کا دماغ درست کردی گی،انشا اللہ۔۔۔ ۔۔!! پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔۔!!