خود اعتمادی ۔ سیلف کونفیڈینس

Published on November 21, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 527)      No Comments

تحریر ۔۔۔۔ شاہد شکیلshahid-shakil
انیس سو پچاسی میں ایک فرم کو جوب کیلئے درخواست بھیجی دو ہفتوں بعد انٹرویو کے لئے بلایا گیا دوران گفتگو چیف بہت متاثر ہوا اور کہنے لگا اڑتالیس درخواستیں موصول ہوئیں زیادہ تر جرمن تھے لیکن ہم نے آپ کو سلیکٹ کیا ہے ،میں جانتا تھا کہ کیوں سلیکٹ کیا گیا ہے۔خود اعتمادی،سیلف کونفیڈینس جسے اندرونی طاقت کہتے ہیں انسان کی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے روزگار ہو یا سماجی زندگی اگر انسان میں خود اعتمادی نہیں تو کئی مشکلات اور مسائل سے دوچار ہوجاتا ہے،اعتماد کا تعلق اگرچہ انسان کی ذاتی اور نفسیاتی جڑوں سے منسلک ہوتا ہے لیکن یہ سب کچھ کبھی کبھی بچپن اور خاص طور سے گھریلو زندگی اور ماحول کے ساتھ بھی پروان چڑھتا ہے عام طور پر بچپن میں والدین کا برتاؤ اور پرورش ہی انسان کو ایک پاور فل اور مکمل اعتماد میں لینے کے بعد ہی زندگی کے تمام تر مسائل کو حل کرنے میں ایک خاص کردار ادا کرتا ہے ۔برلن کی رہائشی مریم اور اسکی دوست نے ایک اپارٹمنٹ کرایہ پر لینے کیلئے درخواست دی مکان مالک سے ملاقات ہوئی مریم کے برجستہ جواب یعنی وِل پاور،خود اعتمادی ،سیلف کونفیڈینس سے ہر سوال کا جواب دینے کے بعد انہیں مکان کرایہ پر دے دیا گیا ،مکان مالک کا کہنا تھا مریم ایک پر کشش اور دوسروں کا دل جیت لینے والی خاتون ہے اس نے دوران گفتگو کسی قسم کی خوفزدگی کا اظہار نہیں کیا اور ہر سوال کا مختصر اور ٹھوس جواب دیا ہمیں تقریباً پچاس درخواستیں موصول ہوئیں لیکن مریم کا چناؤ کیا،اس کے برعکس گزشتہ برس مریم کو ایک فرم میں پروجیکٹ مینیجر کی پوسٹ صرف اسلئے نہ مل سکی کیونکہ بقول اسکی دوست کے مریم میں خود اعتمادی کا فقدان تھا جوب نہ ملنے سے مریم کافی دل برداشتہ ہوئی لیکن عہد کر لیا کہ زندگی میں ہمت نہیں ہارونگی ہر مشکل سے مشکل مسائل کا ڈٹ کا مقابلہ کرونگی بھلے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے لیکن اپنے اندر خود اعتمادی کو تلاش کرنے کے بعد اسکی پیروی کرونگی اور اسی سیلف کونفیڈینس کی وجہ سے آج مریم کو نیا اپارٹمنٹ کرایہ پر حاصل ہوا ہے۔بام برگ یونیورسٹی کی پروفیسر ایسٹریڈ شُٹس کا کہنا ہے انسان کی کامیابی اور ناکامی میں اسکی خوبصورتی اور لباس کچھ زیادہ اہم کردار ادا نہیں کرتے تاہم خوش شکل اور ویل ڈریس ہونے کے ساتھ ساتھ سیلف کونفیڈینس زیادہ اہم اور کاؤنٹ کرتا ہے، سخت رویہ یا بد اخلاقی کو کئی لوگ خود اعتمادی سمجھتے ہیں جو غلط ہے بلکہ انسان کے احساسات ،جذبات ،اسکی ٹھوس اور بامعنی گفتگو ،عاجزی اور اخلاق کی عکاسی کرنے کو خود اعتمادی کہا جاتا ہے،انسان کی ذاتی زندگی اس کے اندرونی احساس و جذبات ہی اسے منفی یا مثبت رویہ اختیار کرنے پر مجبور کرتے ہیں، کئی افراد اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں کہ فلاں فلاں کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں لیکن ہمت نہیں ہو رہی کہ کس نظریے سے بات کا آغاز کیا جائے کہ ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑے اور جب انسان فیصلہ کرلیتا ہے کہ کچھ بھی ہو میں یہ کام کروں گا اور کامیاب بھی ہونگا تو تقریباً آدھی جنگ جیت لیتا ہے اور اس عمل کو خود اعتمادی کہا جاتا ہے،یاد رہے ان حوالوں یا منتخب واقعات کا تعلق صرف تخلیقی عوامل سے منسلک ہے نہ کہ کسی انسان کی جان و مال کو گزند پہنچانے کیلئے سیلف کونفیڈینسی کا سہارا لیا جائے کیونکہ اس صورت میں تخلیق نہیں بلکہ تخریب میں شمار کیا جائے گا۔پروفیسر کا کہنا ہے جن افراد میں خود اعتمادی کا فقدان ہوتا ہے وہ اپنی شخصیت کی واضح تصویر صرف منفی نظریے سے ہی دیکھتے ہیں اور ہمیشہ منفی رویہ ہی اختیار رکھتے ہیں جو نہ صرف ان کیلئے بلکہ دوسروں کے لئے درد سر، تکلیف،اور مشکلات کا سبب بنتے ہیں لیکن اس کا
مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ جسمانی یا ذہنی طور پر ایب نارمل ہیں کمزور یا ضرورت سے زیادہ طاقتور ہیں بلکہ ایسے افراد کو بچپن سے ہی ذہن نشین کرایا جاتا ہے کہ اگر کوئی کام مشکل اور ناممکن ہو تو در گزر کیا جائے اور اسی وجہ سے وہ تمام عمر کشمکش میں مبتلا رہتے ہیں ٹھوس فیصلے نہیں کر پاتے اور زندگی ایک سوالیہ نشان بن جاتی ہے کہ میں کیوں پیدا ہوا، میں کیا کرونگا، میرا کیا ہو گا، وغیرہ۔یہ بات درست ہے کہ ہر انسان میں کمزوری یا طاقت ایک اہم کردار ادا کرتی ہے کچھ لوگ جسمانی اور کچھ ذہنی طور پر مختلف حالات و اقعات کو اپنے احساس یا جذبات سے پایہ تکمیل پہنچاتے ہیں اور اگر کسی سے کچھ بن نہیں پڑتا تو سخت رویہ اپناتا ہے اور جھگڑا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا ،دوسری طرف کئی افراد زندگی کی کٹھن راہوں میں سب کچھ سہنے کے باوجود ہمیشہ مطمئن اور پرسکون رہتے ہیں کسی کو معمولی سا نقصان بھی نہیں پہنچاتے کیونکہ ان کے اندر خود اعتمادی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے،نقصان اور خسارے کے باوجود حالات کو اپنے اوپر حاوی یا مسلط نہیں ہونے دیتے اور ڈٹ کر مقابلہ کرتے اور جنگ جاری رکھتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں جلد بازی میں جیتی بازی ہار سکتے ہیں۔انسان کی زندگی میں تجربات اور طرز عمل ہمیشہ اہم کردار ادا کرتے اور اثر انداز ہوتے ہیں ،انسان کی زندگی کا آغاز گھر کے بعد سکول سے ہوتا ہے جہاں وہ اپنی اصل زندگی اور مقاصد کی طرف راغب ہوتا ہے اور دنیا داری ہی انسان کو ہر اونچ نیچ عمر کے ساتھ ساتھ سکھاتی ہے ،ادب ،اخلاق،ہمت،جرات اور خود اعتمادی کئی انسانوں کی نیچر میں پایا جاتا ہے اور کچھ دوسروں سے سیکھتے ہیں ،انحصار اس بات پر بھی کیا جاتا ہے کہ گھر ، سکول، اور ماحول کیسا ہے کس خطے میں پرورش ہو رہی ہے تعلیمی ادارے کیا سکھا رہے ہیں وغیرہ کیونکہ زندگی نام ہی چیلنج ہے جب تک انسان ٹھوکر نہیں کھاتا خود اعتمادی کا آنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے،اگر انسان خوف میں گھرا رہے اور سوچے کہ رسک نہیں لونگا تو کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا لیکن رسک لینے کا معقول جواز ہونا ضروری ہے، کیونکہ انسان کا ضمیر اسکی سوچ ہی اسکی کامیابی اور ناکامی کی پہلی سیڑھی ہے منحصر اس بات پر ہے کہ وہ اپنے کس رویے سے کس سمت کا رخ کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Premium WordPress Themes