تحریر:شفقت اللہ
ماہ دسمبر اول دن سے ہی سیاسی اور عسکری سرگرمیوں کیلئے اہم رہا ہے اس ماہ میں لاتعداد ایسے واقعات رونما ہوئے جن میں کئی ممالک کا سیاسی اونٹ اپنی کروٹ بیٹھا اور کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے عسکری طور پر بھی تبدیلیاں کیں چاڈ میں یکم دسمبر قومی آزادی اور جمہوری دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔یکم دسمبر ہی رومانیا اور ٹرانسلوینا کے مابین ہونے والے اتحاد کی وجہ سے ایک عظیم اتحاد اور قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔دو دسمبر 1956میں میکسیکو سے کیوبا میں 82جنگجوؤں کے جہاز گرینما کی کامیاب لینڈنگ کی وجہ سے کیوبا کا آرمڈ فورسز کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔بین الاقوامی رضا کاروں کا دن ہر سال 5دسمبر کو ادارہ اقوام متحدہ کے اعلان کے مطابق 1985 سے منایا جاتا ہے ۔بین الاقوامی رضا کاروں کے دن کا اہتمام بہ طور خاص غیر سرکاری تنظیمیں ،صلیب احمر ،سکاؤٹ تحریک اور دیگر تنظیموں کی جانب سے کیا جاتا ہے 6دسمبر فن لینڈ کی آزادی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے اسی روز فن لینڈ کو روس سے ایک الگ ریاست کی حیثیت سے آزادی ملی تھی ۔12دسمبر کینیا میں جمہوری دن کے طور پر منایا جاتا ہے ویسے تو کینیا ایک سال قبل ہی 1963 میں یونائیٹڈ سٹیٹ سے آزاد ہو گیا تھا لیکن 12 دسمبر 1964 کو اسٹیبلشمنٹ کے مکمل ہونے کی وجہ اس دن کو ہی زیادہ جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے ۔بنگلہ دیش 14دسمبر کا دن 1971کے جنگ میں ہلاک ہونے والے بنگلہ دیشیوں کے نام سے منسوب کرتے ہیں اور ٹھیک دو دن بعد 16دسمبر کو بنگلہ دیش پاکستان سے ایک الگ ریاست کے طور پر معرض وجود میں آیا تھا ۔17 دسمبر کا دن بھوٹان اپنے قومی دن کے طور پر مناتا ہے ۔ان واقعات کی ایک لمبی فہرست پاکستان کی تاریخ میں بھی ہے کہ یکم دسمبر 1967 میں پاکستان پیپلز پارٹی وجود میں آئی اور باقاعدہ منظم کی گئی 7دسمبر 1968میر واعظ یوسف کشمیر کے مفتی اعظم راولپنڈی میں انتقال کر جاتے ہیں سات دسمبر 1970 پاکستان میں پہلے عام انتخابات کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں عوامی لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی مشرقی اور مغربی پاکستان میں بھاری اکثریت سے مینڈیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتیں ہیں ۔چھ دسمبر 1971کارگل کی جنگ میں میجر شبیر شہادت کا مرتبہ حاصل کرتے ہیں اور نشان حیدر کے مستحق قرار پاتے ہیں سولہ دسمبر 1971میں بنگلہ دیش آزاد ریاست کی حیثیت سے معرض وجود میں آتا ہے 20 دسمبر 1971 جنرل یحیٰ خان اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو سونپتے ہیں جو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر سامنے آتے ہیں ۔30 دسمبر 1973 ذوالفقار علی بھٹو پاکستان سٹیل ملز کا سنگ بنیاد رکھتے ہیں تین دسمبر 1980 قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ شیریں بائی کراچی میں انتقال کر جاتیں ہیں 21دسمبر 1982 میں پاکستانی قومی ترانے کے نگار مولانا حفیظ جالندھری کا انتقال ہو جاتا ہے 19دسمبر 1984 جنرل ضیا ء الحق صدارتی اقتدار کیلئے عوامی ریفرنڈم میں کامیا ب ہو جاتے ہیں 31 دسمبر 1985میں 1973 کے آئین میں ترمیم کر کے مارشل لاء کو اٹھا لیا جاتا ہے اٹھارہ دسمبر 1987 بے نظیر بھٹو آصف علی زرداری سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتی ہیں2دسمبر 1988 بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھاتی ہیں 6دسمبر 1995 لاہور ہائی کورٹ جنرل ظہیر الحسن بابر خلافت سازش کیس میں گرفتاری کے خلاف اپیل مسترد کرتی ہے10دسمبر 2000میں میاں محمد نواز شریف اور ان کے خاندان کو ملک بدر کیا جاتا ہے ۔اسی طرح حالیہ دور حکومت میں دسمبر 2016 ایک اہم مہینے کے طور پر سامنے آنے والا ہے اور اس میں ایک بڑی عسکری تبدیلی بھی ہونے جا رہی ہے کہ جب آپریشن ضرب عضب بھی ابھی تک اختتام پذیر نہیں ہوا اور نہ ہی نیشنل ایکشن پلان اور کومبنگ آپریشن کی مدد سے پوری طرح پاکستان سے دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کا نیست و نابود کیا جا سکا ہے اس دورانیے میں راحیل شریف اپنی مدت ملازمت مکمل کر کے لیکن اپنا شروع کیا ہوا کا م نا مکمل چھوڑ کر جا رہے ہیں جن کے بعد جو دو نام فیورٹ سامنے آ رہے ہیں سے عوام کی امیدیں لگی ہوئیں ہیں لیکن کیا وہ اتنی بڑی ذمہ داری اٹھا کر اسی جذبے کے ساتھ پوری کر سکیں گے ؟کمزور خارجی پالیسیوں کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کو دشمن کافی حد تک دبانے میں کامیاب ہو چکا ہے اور اس کے ساتھ ہی آئے روز لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی ہرزہ سرائی اور اس پر بھارتی ہائی کمشنر ، حکومت کی ہٹ دھرمی بھی جوں کی توں دکھائی دیتی ہے آئے روز فوجی شہادتیں اور ان کے ساتھ اب شہریوں کی شہادتوں کا دکھ بھی قوم کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے جو راحیل شریف کے جانے کے بعد بڑھ جانے کے امکانات ہیں ۔سندھ کراچی سمیت دیگر شہروں میں فرقہ وارانہ تعصب جو آج تک دبایا گیا ہے اور کوئی ایسا واقع سامنے نہیں آیا راحیل شریف کے جانے کے بعد پھر سر اٹھاتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ کچھ ہفتے پہلے گلگت بلتستان میں ایک مبہم سے مطالبے پر احتجاجیوں کی خانہ جنگی کی دھمکی اور نریندر مودی کا بلوچستان ،سندھ اور گلگت بلتستان میں مداخلت کو قبول کرنا ،کراچی میں فیصل رضا عابدی کی گرفتاری پر کراچی بھر میں احتجاج اور قانون نافذ کرنے والی گاڑیوں پر اشتعال انگیزی اور اس سے بھی پہلے کراچی کے ایک گھر سے بھاری تعداد میں غیر ملکی ساخت کے اسلحے کا ملنا اور پھر حالیہ وقت میں دوبارہ سے اسی ساخت ،اسی تعداد کے اسلحے کا پایا جانا خانہ جنگی کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔جہاں سی پیک منصوبے کا کامیاب آغاز روشن مستقبل کی نوید دکھاتا ہے وہیں ملک میں گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری سیاسی بحران بھی پاکستا ن کی جمہوریت کیلئے مستقبل میں چیلنج نظر آ رہا ہے ۔پاناما لیکس کو لیکر تمام سیاسی جماعتیں کافی حد متحد ہیں اور اس بات پر قائم ہیں کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو ان کا وقت مکمل نہ دیا جائے ویسے تو میاں صاحب کافی خوش قسمت ثابت ہوئے ہیں کیونکہ ان کے دور حکومت میں ملک نے کافی حد تک کئی بحرانوں سے نجات حاصل کی ہے لیکن پاناما کا مسئلہ حل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا او ر اگر پاناما سے میاں صاحب اور ان کی فیملی بچتی ہوئی بھی نظر آ رہی ہے کیونکہ پاناما کمیشن کے سربراہ اور چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی بھی دسمبر میں ہی ریٹائرڈ ہو رہے ہیں اور ایسے میں نئے آنے والے چیف جسٹس پر منحصر ہو گا وہ چاہیں تو کمیشن کے سارے ممبران کو فارغ کر کے نئی کمیشن بنا دیں یا اسی کمیشن کو چلتے رہنے دیں اور وہ کہاں تک میاں صاحب اور عوام کے درمیان انصاف کرتے ہیں یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے کیونکہ کیس مبینہ طور پر عوام کا حق غصب کرنے کا درج کیا گیا ہے اور ثابت ہو جانے پر میاں صاحب آئین کے آرٹیکل 63 بدعنوانی کی زد میں بھی آتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ انور ظہیر جمالی اپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے اسے ختم کردیں اب دسمبر کونسے سیاسی اور عسکری بادلوں کے ساتھ بارشوں کا سلسلہ لاتا ہے وقت کچھ دور نہیں ہے