تحریر۔۔۔ ڈاکٹر احسان باری
جمہوریت اور بندوق کا کسی بھی صورت آپس میں میل نہیں ہو پاتا کہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں اور ہمارے ملک میں تو پارلیمانی نظام اور اس طرح خالص پارلیمانی جمہوریت ہی نافذ العمل ہے ۔صرف یہ ہے کہ سربراہ مملکت صرف مسلمان ہی ہو سکتا ہے باقی تو اقلتیں بھی انتخاب میں جیت جائیں تو وہ بھی تمام مذاہب ،مسالک اور فرقوں کی لیڈر قرار پاجائیں گی۔اب جناب عمران خان کا کھلم کھلا میڈیا پر آکر کہہ ڈالناکہ پانامہ لیکس کا مقدمہ سپریم کورٹ میں ہے اور ہم لوگ اس کو دیکھ رہے ہیں وگرنہ پھر عوام کو بندوق اٹھانے کا کہیں گے پاکستان کی 79سالہ تاریخ میں کسی بھی سیاسی لیڈر خواہ وہ کتنا ہی بڑا جغادری پہلوا ن ہی کیوں نہ تھا نے کھلم کھلا بندوق اٹھانے کی بات کرنے کی جرأت آج تک نہیں کی ۔آجکل سیاستدانوں کی انوکھی قسم وجود میں آگئی ہے پہلے الطاف حسین بندوق کی زبان میں بات کرتے کرتے خاکم بدہن پاکستان مردہ باد کے نعرے لگانے لگے اتنی کھلم کھلا مسلح کاروائیاں کرنے کی بات تو دہشت گرد بھی نہیں کرتے نہ ہی کالعدم تنظیمیں اور سیاسی گروہ کرتے ہیں۔الطاف حسین تو بیرونی سامراجی گروہوں اور راء کے ایجنٹ بن کرملک میں بندوق کی سیاست کو پروان چڑھا رہے تھے مگر محب وطن عمران خان کا ایسا کہناان کی بچگانہ سیاست کا ہی شاخسانہ ہے۔یا وہ ڈپریشن کا شکار ہو کر ایسا کرنے لگے ہیں۔اس کا واضح مطلب یہی نکلتا ہے کہ انھیں سپریم کورٹ پر اعتماد نہ ہے اور اس کا فیصلہ اگر ان کے حق میں آجائے تو ٹھیک وگرنہ وہ بندق اٹھوائیں گے ۔ یہ سوچ سراسر غیر جمہوری غیر آئینی ہی نہیں بلکہ غیر اسلامی بھی ہے اور الیکشن کمیشن میں ایسی کسی سیاسی جماعت کی رجسٹریشن ہی نہیں ہو سکتی کہ جو کھلم کھلا مسلح جدو جہد کرنے اور اس طرح حکومت پر قابض ہو جانے کی باتیں کرے اگر الیکشن کمیشن میں کسی مخالف یا کسی عام آدمی نے ہی درخواست دے ڈالی یا کسی دوسری عدالت میں پٹیشن کردی تو لازمی امر ہے کہ پی ٹی آئی کالعدم قرار پاجائے گی۔پھر نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
پہلے بھی اپنی لاابالی طبیعت اور سیاسی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے اسلام آباد کو بند کرنے کا نعرہ مستانہ لگاڈالاجو کہ اسطرح اعلان کرکے نہ تو ممکن تھا اور نہ ہی کوئی مملکت یا اس کے حکمران اس کی اجازت دے سکتے تھے۔کہ یہ تو عوام کے بنیادی حقوق کی ہی خلاف ورزی تھاکہ آپ ایک شہر کے عوام کو اندر باہر جانے سے روک دیں اور اندر یرغمال بنا کر رکھیں ایسے احمقا نہ اعلانات پر کیسے عمل در آمد ہو سکتا تھاپھر دو تین دن پہلے ہی شیخ رشید کی پچ پر کھیل شروع کرڈالاخواہ مخواہ بیچارے پینٹ بابوؤں اپنے ورکروں کو دو دن تک پٹوایا کئی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور سینکڑوں زخمی ہوئے کئی آج تک گرفتار پڑے جیلوں میں سڑ رہے ہوں گے۔ ورکر باہر مار کھا رہے تھے مگر پہاڑی کی چوٹی پر بنی گالائی محل میں ہمہ قسم سہولتوں سے مستفیض خان صاحب ہو رہے تھے اور باقی صنعتکار جاگیردار لیڈر شپ بھی اندر چھپی پڑی رہی۔اس وقت بھی اگر عمران صاحب باہر نکل پڑتے تو ان کا کچھ نہ کچھ سیاسی آٹا دلیا بن جاتااور ان کی سیاست کا منہ سر بچ رہتا۔پہاڑی محل سے باہر نہ نکلنا بزدلی اور سیاسی کم ظرفی کے ضمن میں ہی آتا ہے بیچارے کارکن بد دل ہو چکے اور اوپر والے عہدے دار جاگیردار و صنعتکار لیڈر شپ سے سخت نالاں ہیں کہ یہ تو ہمارے ہی تابوت پر اپناسیاسی محل تعمیر کرنے کے در پے ہیں اگر مسلح جدوجہد جیسا کہ عمران خان نے اعلان کیا ہے تو بندوق تو کارکن ہی اٹھائیں گے ۔مگر کیا جاگیردار وں اور صنعتکاروں کی لیڈر ی چمکانے کے لیے ؟شاید بالکل نہیں وہ تو سکھ محافظ کی طرح اندرا گاندھی کو بھون ڈالنے والا عمل ہی دہرائیں گے !! کہ جب وہ سرکاری مشینری ،پولیس و سیکورٹی اداروں سے بھونے جارہے ہوں گے پھر جو بھی لیڈر مل گیا وہ ان سے کیسے بچ سکے گا۔کہ انہوں نے ہی انھیں اس غیر قانونی غیر آئینی عمل پر ابھارا ہی نہیں بلکہ اس کا حکم دے ڈالا تھا عمران خان جیسے جری لیڈر سے قوم اپیل کرتی ہے کہ سیاست کو بھی کھیل ہی کی طرح سمجھیں اور سمجھداری سے کھیلیں جس میں جیت ہار تو ہوتی ہی ہے تب ہی وہ سیاسی کھلاڑی کہلاسکیں گے اگر موجودہ عمل جاری رکھا تو پھر اس کھیل میں تباہی و بر بادی اور ملکی سیاسی خوفناکی کا ہی خطرہ سر پر منڈلاتا رہے گا اور مسلح ٹکراؤ سے صرف اپنے کارکنوں کی لاشیں اٹھانے کے علاوہ کچھ بھی نہ حاصل ہوسکے گا۔پتا نہیں عمران خان صاحب کے ایسے کون سے مشیر ہیں جو انھیں روزانہ ہی کچھ انہونی تدابیر دیتے اور پارٹی کا جنازہ نکلوانے پر تلے ہوئے ہیں خدا خیر کرے اور اس کے عوام کو بخیریت تمام رکھے اور لالچی ہمہ قسم حکومتی واپوزیشنی سیاستدانوں سے نجات دلوائے یہ کوئی1977کے قومی اتحاد کی تحریک نطام مصطفیٰ کا وقت نہ ہے کہ مسلح جلوس نکلتے تھے اور بیورو کریسی و دیگر ادارے ان کا کچھ نہ بگاڑ سکتے تھے کہ قوم متحد تھی اور انہوں نے کم سے کم نقصان پر اپنا ٹارگٹ حاصل کر لیا تھا۔آپ ایک گھنٹہ ہی مسلح جلوس نکال کر دکھادیں باقی سیاستدان ویسے ہی آپکے آگے گھٹنے ٹیک دیں گے۔
پھر آپ کی درخواست سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھی اور آپ سڑکوں پر ایجی ٹیشن چلارہے تھے ۔اس کا صاف مطلب ہے کہ آپ عدالتوں کو پریشرائز کرکے فیصلے اپنے حق میں کروانا چاہتے ہیں۔آپ لاکھ حق پر ہی سہی مگر فیصلہ ہمیشہ ہاں یا نہ میں ہی آتا ہے دونوں پہلوہی مد نظر رکھنے پڑتے ہیں۔مگر یہ مکافات عمل تھا کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی؟تاہم سبھی مقتدر بڑی سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگز لاکھ کہیں کہ نہ ہیں مگر موجود ہیں جن سے وہ مخالفین کے افراد کے اکا دکا قتل کرکے “دل پشوری” کرتی رہتی ہیں۔اصل توجہ تو بھارتی افواج کی طرف سے بارڈروں پر غیر اعلانیہ جنگ کے شروع کرڈالنے اور سویلین و افواج کے جری نوجوانوں کی شہادتوں پر مرکوز کرنے کی اشدضرورت ہے۔