تحریر: سید انور محمود
پاکستان کے آئین کی رو سے ملک میں مردم شماری کا عمل ہر دس سال کے بعد ضروری ہے، تاہم پاکستان میں آخری مردم شماری تقریباً 19 سال قبل 1998 میں ہوئی تھی۔ 2011 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے مردم شماری کے پہلے مرحلے کے سلسلے میں ملک بھر بشمول وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں گھروں کا شمار یعنی ’’خانہ شماری‘‘ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم بعد میں خانہ شماری کے اعداد وشمار جب کمپیوٹر کے نظام کے ذریعے تجزیے کے عمل سے گزارے تو عملے کی ناتجربہ کاری ، نااہلی کے ساتھ عملے کی غیرذمہ داری اورغیرسنجیدگی کی بنا پر یہ اعداد و شمار مشکوک ہوگئے، جس کے باعث وفاقی حکومت نے خانہ شماری کو ہی ختم کردیا اور مردم شماری بھی منسوخ ہوگئی۔ حکام کے مطابق ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے قومی وسائل پر دباؤ بڑھا ہے اور پاکستان توانائی اور پانی کے بحران سے دوچار ہے۔پاکستان کے الیکشن کمیشن نے 2013 کے آخر میں وزیراعظم نوازشریف کو ایک سمری بجھوائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ 1998ء کے بعد سے ملک میں مردم شماری نہیں ہوئی اس لیے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلا کر ملک میں مردم شماری کرانے کے فیصلے کی منظوری دی جائے۔مشترکہ مفادات کونسل میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلٰی کی موجودگی ضروری ہوتی ہے جہاں وفاق کے متفقہ فیصلے کیے جاتے ہیں، تاہم اس وقت یہ اجلاس نہ ہوسکا۔ پاکستان میں 1998 میں کی گئی مردم شماری کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی 13کروڑ 23 لاکھ تھی۔ تاہم آج 2016 کے آخر میں سرکاری اور غیرسرکاری اندازوں کے مطابق پچھلے تقریباً انیس سالوں میں پاکستان کی آبادی بڑھ کر بیس کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔
انیس سال پہلے 1998 میں کی گئی مردم شماری کے بعد اب 2018 میں دوسری مردم شماری کی تیاری شروع ہونی چاہیے تھی، کیونکہ مردم شماری کی بنیاد پر ہی ساری منصوبہ بندی اور قومی وسائل کی تقسیم ہوتی ہے ،لیکن نہ تو حکومت نے مردم شماری کرائی، اور نہ ہی منصوبہ سازوں نے اس کی اہمیت پر زور دیا، ملک بھر کے سیاستدانوں نے بھی مردم شماری کی اہمیت کو نہیں سمجھا اور کسی نے بھی مردم شماری کا پرزورمطالبہ نہیں کیا۔ کیا یہ بڑی عجیب بات نہیں ہے کہ گذشتہ 35 برسوں میں صرف ایک بار مردم شماری ہوئی ہے۔ دو ماہ پہلے جنیوا میں حکومت پاکستان کی جانب سے ملک میں نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کی رپورٹ کے جائزہ، اور اس کے بعد اپنے ریمارکس میں اقوام متحدہ کی کمیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان میں جلد از جلد مردم شماری کا بندوبست کیا جائے۔ اقوام متحدہ کی کمیٹی نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی آبادی کی نسلی ترکیب اور ان کی معاشی و معاشرتی صورتحال کی مکمل معلومات مہیا کرے تاکہ کمیٹی ان نسلی گروپوں کی صورتحال اور انھیں دی جانےسہولیات کےبارے میں درست معلومات حاصل کرسکے۔
پلاننگ کمیشن اور الیکشن کمیشن ماضی میں متعدد بار تازہ ترین مردم شماری کی اہمیت بیان کرچکے ہیں۔ منصفانہ انتخابات کے حوالے سے یہ تجویز بھی دی جاچکی ہے کہ ہے حکومت ہر چار سال بعد مردم شماری کرائے تاکہ آبادی کی صحیح معلومات سامنے آسکیں، اور پانچ سال بعد ہونے والے عام انتخابات کا انعقاد نئی مردم شماری کے تحت ممکن بنایاجاسکے، جبکہ سپریم کورٹ بھی آئندہ عام انتخابات سے متعلق ایک پٹیشن کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس دے چکی ہے کہ مردم شماری کے بغیر 2018 کے عام انتخابات کی کوئی افادیت نہیں ہوگی۔ لیکن بدقسمتی سے ماضی کی کسی حکومت نے مردم شماری جیسے اہم مسئلے پرکوئی توجہ نہیں دی ہے۔مردم شماری میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ افواج پاکستان مردم شماری کےعمل میں منا سب حفاظتی فورس فراہم کرنے کو تیار نہیں اور سپریم کورٹ حکومت سے یہ پوچھ رہی ہے کہ آئین میں یہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ مردم شماری میں افواج پاکستان کی شمولیت لازمی ہے۔ افواج پاکستان کی طرف سے اس عمل میں مدد نہ دینے کی وجوہات بارڈر کی تشویشناک صورتحال، طالبان اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ ہے، جبکہ حکومت کی طرف سے یہ بہانہ بار باردہرایا جارہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن ضرب عضب کے سبب مردم شماری کے تحفظ و نگرانی کے لیے درکار تین لاکھ فوجی فی الحال دستیاب نہیں۔
واضح رہے کہ گیارہ مئی 2013 کو ہونے والے عام انتخابات سے قبل کئی سیاسی جماعتوں اور امیدواروں نے سابقہ حلقہ بندیوں پر شدید احتجاج کیا تھا، جبکہ ان سیاسی جماعتوں کو یہ کبھی نصیب نہیں ہوا کہ مردم شماری کےلیے بھی شدید احتجاج کرتے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ گذشتہ انیس سال میں ملک کی آبادی کئی گنا بڑھ چکی ہے، لہذا حکومت کو جلد از جلد مردم شماری کرواکر اس کی بنیاد پرنئی حلقہ بندیاں کرکے آنے والےانتخابات کا انعقاد کرانا چاہیے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 1998 کے بعد مردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں منصوبہ بندی آبادی کے ایک محتاط تخمینے کی بنیاد پر کی جاتی رہی ہے۔ اس لیے ان کے بقول ہمارے ہاں منصوبہ بندی بنیادی حقائق کے مطابق نہیں ہوتی۔اٹھارویں ترمیم کے بعد قومی مالیتی کمیشن ایوارڈ کے فارمولے میں آبادی شامل ہے، نئی مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر صوبوں کو ملنے والی گرانٹ میں اضافہ ہوگا۔ مردم شماری کے نتائج کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی اراکین کے حلقوں کا تعین بھی ہوتا ہے۔مردم شماری سندھ اور بلوچستان میں خاصہ سنجیدہ معاملہ ہے، سندھ میں ایک عرصے سے شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان خاصا تناو ہے۔ مختلف قومتیں آباد ہیں جنہیں اپنے تشخص کا شدید احساس ہے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ ثنا اللہ زہری کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کے ہوتے ہوئے مردم شماری نہیں ہوسکتی، جبکہ افغان مہاجرین اتنی جلدی جانے والے نہیں، بلوچستان کے رہنماؤں میر حاصل بزنجو اور اختر مینگل کا کہنا ہے کہ غیر ملکی باشندوں کو مردم شماری کے دائرے میں ہرگز شامل نہیں کرنا چاہیے اور اس بات پر سو فیصد عمل ہونا چاہیے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نہ معلوم کیوں مردم شماری کے عمل کو باربا ٹال رہی ہے۔ مردم شماری کسی بھی بہانے سے ٹلے نقصان عام آدمی کا ہی ہے۔جب یہی نہیں معلوم کہ کس صوبے، کس شہر، کس قصبے، کس دیہات کی کتنی آبادی ہے؟ اور اس میں مردوں، عورتوں، بچوں، جوانوں، بوڑھوں کی تعداد کیا ہے؟ کتنے خاندان ہیں؟ کیسے کیسے گھروں میں رہتے ہیں؟ اور ان کی آمدنی کیا ہے؟ آمدنی کے ذرائع کیا ہیں؟ آبادی کی ضروریات کیا ہیں؟ مستقبل کی منصوبہ بندی کیا ہے؟ تو اقتصادی و بجٹ ترجیحات ہمیشہ فرضی اور جعلی ہونگے۔ 1981کی مردم شماری کے نتائج کو کراچی کی اس وقت کی قیادت نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ کراچی کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے تاکہ اسلام آباد کے حکمران کراچی کو اس کے حصے سے کم ترقیاتی فنڈز دئے سکیں۔ موجودہ حکومت کا مردم شماری سے فرار 2018 کے انتخابات مشکوک بنادئے گا، وزیر اعظم نواز شریف یہ تو بتایں کہ آپ ‘‘مردم شماری سے ڈرتے کیوں ہیں؟’’، یاد رکھیں اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے اور مستقبل کی حکمت عملی طے کرنے کےلیے مردم شماری بہت ضروری ہے کیونکہ اسی بنا پر آبادی اور وسائل کا تعین کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ انتخابات کےلیے ووٹر فہرستوں اور حلقہ بندیوں کے لیے بھی یہ اقدام نہایت ضروری ہے۔