تحریر۔۔۔ شاہد شکیل
انسانوں کے مابین تنازعات کہیں ،کسی وقت اور کسی بھی مقام پر پیدا ہو سکتے ہیں مثلاً سبزی فروش سے ٹماٹر خریدتے ہوئے کہ مہنگے فروخت کر رہے ہو تو اسکا سادہ جواب ہوگا دوسری دکان سے خرید لیں آپ کہیں گے حکومت یا مارکیٹ کمیٹی نے فلاں ریٹ جاری کئے ہیں تو بحث ہو گی وہ اپنے موقف پر بضد ہوگا آپ اپنا راگ الاپیں گے نتیجہ جھمگٹالگ جائے گا اور تنازعہ شروع۔پاکستان سمیت دنیا کے کئی ایسے ممالک ہیں جہاں ایک عام انسان سے لے کر حکمران تک اپنی من مانی کرتے ہیں کیونکہ وہ قانون سے ناواقف ہیں ،اصول اور دیگر اخلاقیات کا فقدان ہونے کے سبب تنازعات کی ابتدا ہوتی ہے حکومتیں اپنی من مانی کرتی ہیں اور اپوزیشن ارکان پتھر کی مورت بنے سب کچھ سنتے ہیں ہونٹوں پر پلستر چپکا دیا جاتا ہے تا کہ کسی قسم کا کوئی بحث مباحثہ نہ کیا جائے اگر کسی نے زبان کھولی تو تنازعات شروع ہو جائیں گے جبکہ مغربی ممالک اور خاص طور پر جرمنی میں ایسا نہیں ہے حکومت اور اپوزیشن ساتھ ساتھ چلتے ، سوچ بچار اور فیصلے کرنے کے بعد متفق ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے حلف لیا ہوتا ہے کہ حکومت قائم رکھیں گے اور عوام کو سہولیات ، خوشحال زندگی اور مراعات مہیا کریں گے ،مثلاً گزشتہ دنوں جرمن پریزیڈنٹ کے عہدے کے لئے کئی امیدوار وں نے حصہ لیا اور آخر کار موجودہ صدر گاؤک کی جگہ سٹائن مائر کو سلیکٹ کیا گیا عوام کی بھی یہی خواہش تھی اور چوبیس گھنٹوں میں کسی قسم کا کوئی تنازعہ پیدا نہ ہونے کے بعد متفق طور پر فیصلہ ہوا کہ سٹائن مائر اگلے سال فروری میں جرمن صدر کا حلف اٹھائیں گے۔تنازعہ کیا ہے اور کیوں جنم لیتا ہے؟بحث مباحثہ ،غیر متفق ہونا اور اختلافات کے پیش نظر انسان مختلف صورت حال کے سبب اتنا شدید دباؤ میں آجاتا ہے کہ معاملات بے قابو ہو جاتے ہیں اور تنازعہ شروع ہو جاتا ہے جس کا انجام عام طور پر گالی گلوچ اور ہاتھا پائی کے بعد زیادہ بھیانک بھی ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ ہر انسان اپنے حقوق اور اپنی بات منوانے کیلئے نرم دلی اور اخلاق کی بجائے گرم جوشی کا مظاہرہ کرے گا تو معاملات حل ہونے کی بجائے مزید بگڑ جائیں گے ایسے حالات میں انسان ضرورت سے زیادہ جذباتی ہو جاتا ہے انداز گفتگو تبدیل ہوجاتی ہے اصولوں ،اخلاق اور آداب کو پامال کیا جاتا ہے اور انسان یہ نہیں سوچتا کہ عارضی بات چیت ہے صبر و تحمل کا دامن نہ چھوڑا جائے کیونکہ بحث ہو رہی ہے ،کبھی کبھی ہٹ دھرمی اور ضد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی بات منوانے کو ترجیح دیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے اسکا رویہ یا انداز گفتگو درست ،مثبت اور بااخلاق نہیں لیکن اپنی ہار کے خوف سے اس جستجو میں رہتا ہے کہ کچھ بھی ہو دوسرے کو نیچا دکھایا جائے تاکہ میری جیت ہو۔بات چیت کے دوران اگر معاملات کو خفیہ رکھا جائے گا اتنی زیادہ الجھن پیدا ہو گی مد مقابل زیادہ سسپنس میں رہے گا ،رویوں میں تبدیلی پیدا ہو گی حقائق سے منہ موڑا جائے گا اور اپنے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے من مانی یا حکم جاری کئے جائیں گے تو تنازعات میں اضافہ ہوگا ،ایک ٹھوس مثال ہے کہ انسان جتنا زیادہ حقائق کو پوشیدہ رکھے گا اتنا زیادہ چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ بِگ ٹربل بنتا جائے گا ،کیونکہ سوچ ،جذبات اور خیالات ،فریقین کے درمیان بات چیت اور اقدامات اگر واضح نہیں ہونگے تو انسان کتنا بھی ذہین کیوں نہ ہو تنازعہ کو حل نہیں کر سکتا۔ایسی صورت میں انسان کو چاہئے کہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معاملات کی گہرائی اور بنیاد پر نظر ڈالے منظم طریقے اور ہر پہلو پر غور کیا جائے ہر ایک کہ نقطہ نظر کو درگزر کرنے کی بجائے سوچا جائے کہ آخر
کیسے معمے کو حل کیا جائے نہ کہ دشمنوں کی طرح ملنا، ایک دوسرے پر تہمت اور الزام لگانا اور خاص طور پر ذاتیات پر حملہ سب سے بڑی کمزوری اور غلطیوں میں شمار ہوتا ہے۔عام طور پر تنازعات پیشہ ورانہ اور نجی زندگی میں پیش آتے ہیں انکی کئی وجوہات ،اثرات اور نتائج ہوتے ہیں تنازعہ اور اسکی وجہ اکثر ایک جیسی نہیں ہوتیں ،کبھی تنازعات فوری حل ہو جاتے ہیں اور کبھی ہمیشہ قائم رہتے ہیں ،سب جانتے ہیں کہ کچھ بھی ناممکن نہیں ہے ہر مسئلے کا حل موجود ہوتا ہے کئی آپشن ہوتے ہیں لیکن انہیں استعمال ہر کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ کئی بار مختلف سوچ اور خیالات کی بدولت فریق معمولی بات کو بے مقصد طول دیتے ہیں اور اصل مسئلے یا حقائق کو رد کرنے سے معاملہ مزید بگڑ جاتا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ جب تک انسان کسی بھی مسئلے کی گہرائی ،بنیاد اور گھمبیرتا کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرے گا بات کو گول مول کرے اور خفیہ رکھے گا تنازعہ بڑھے گا، ماہرین کا کہنا ہے دو مختلف سوچوں ،خیالات اور معنوں کے بعد الفاظ جنم لیتے ہیں جن سے مسائل کا آغاز ہوتا ہے اور دوسرا قدم جذبات اور منفی خیالات کا نتیجہ تنازعات کا روپ دھارتے ہیں یعنی سوچ سے ابتدا ہوئی اور تنازعہ کھڑا ہوگیا۔رشتے کتنے ہی مضبوط کیوں نہ ہوں موجودہ دور میں ان کی حیثیت کچے دھاگے جیسی ہو گئی ہے،میاں بیوی کسی چھوٹی سی بات پر اتنا بڑا ہنگامہ کھڑا کر دیتے ہیں کہ بات علیحدگی اور طلاق تک بھی پہنچ جاتی ہے ،اگر معاملات کی گہرائی اور جھگڑے یا تنازعے کی بنیاد پر غور نہیں کیا جائے گا اور محض ایک دوسرے پر بے مقصد کیچڑ اچھالا جائے گا تو اس کا نتیجہ طلاق کے علاوہ اور کچھ نہیں ثابت ہو سکتا کیونکہ دونوں کہتے ہیں میں سچ بولتا ہوں تم جھوٹے ہو۔ایسی صورت حال میں مناسب یہ ہوتا ہے کہ انسان پرسکون رہ کر تمام معاملات پر گہرائی سے غور کرے اپنی غلطی تسلیم کرے اور اگر کچھ ناپسندیدہ عوامل کو چھوڑنا پڑے تو گریز نہ کیا جائے تاکہ رشتہ قائم رہے کیونکہ رشتے آئینے ہوتے ہیں۔ضد ، ہٹ دھرمی اور خاص طور پر اپنی بے مقصد انا پرستی کو گہرے سمندر میں دفن کر دینا ہی مسائل اور تنازعات کا واحد حل ہے دیکھا اور سوچا جائے تو انا پرستی کیا شے ہے کچھ بھی نہیں اس کے کوئی معنی نہیں محض انسانی سوچ کے۔انا پرستی ایک منفی سوچ ہوتی ہے جو سب کچھ تباہ و برباد کر دیتی ہے،اختلافات کو بھلا کر حقائق کی روشنی میں فیصلے اور عمل کرنا ہی انسانیت اور تنازعات کا بہترین حل ہیں۔انگریزی میں محاورہ ہے لَو۔لِیو۔اور چینج اِٹ۔یعنی پیار محبت کرو،کنارہ کشی کرویا تبدیل کرو۔انسان کے پاس یہ تین آپشن ہوتے ہیں کہ تنازعات کو ختم کرنے کیلئے پیار محبت سے رہا جائے ،غلطی ہو تو تسلیم کیا جائے بے مقصد بحث مباحثہ سے گریز کیا جائے جو بیت گیا اسے دہرایا نہ جائے یعنی گڑے مردے نہ اکھاڑے جائیں یا پھر اگر تنازعہ شدت اختیار کر جائے تو ممکنہ تبدیلیاں لائی جائیں کہ معاملات کیسے حل کئے جائیں تاکہ مزید چپقلش نہ پیدا ہو کیونکہ تنازعہ کئی زندگیاں برباد کردیتا ہے اور اگر تب بھی مسائل حل نہیں ہوتے تو چھوڑ دیا جائے تاکہ دونوں فریق اپنی سوچ سے اپنی زندگی جئیں۔