تحریر:جنید رضا
دنیا کی کوئی قوم یا جماعت اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں کرسکتی، جب تک وہ اپنے حقیقی رہبر و رہنما کی حیات سے واقفیت اور عملی مطابقت نہ رکھتی ہو، اس تناظر میں بحیثیت مسلمان ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے اس کامل و اکمل رہنما کی سیرت سے آگہی حاصل کریں کہ جس سے ہمیں زندگی کے ہر پہلو پر مکمل طور پر رہنمائی حاصل ہوتی ہو، اس حوالے سے جب ہم آپنی نظر دوڑائیں تو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدساور ذات گرامی قدر ہمارے سامنے آتی ہے، قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے کہ تمہارے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اچھا نمونہ (عملی کردار)ہے۔
جب تک ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت سے مکمل واقفیت حاصل نہ کرلیں، تب تک ہم اپنے نظریے اور ایمان کو بھی مکمل طور پر واضح نہیں کرسکتے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ ہی ہمارے نظریے اور ایمان کا عملی مظہر ہے اور حضورﷺ کی سیرت مبارکہ ہی ہمارے لیے ایک ایسا نمونہ ہے کہ جس کے ذریعے ہم زمین پر بسنے والی تمام اقوام و ملل کے اقتصادی، سیاسی، اخلاقی اور معاشرتی قوانین حیات کو انسانی بنیادوں پر پرکھ سکتے ہیں کہ وہ انسانوں کے لیے کیوں کر مفید ہیں۔ خواہ وہ اقترابات( اللہ تعالی سے قرب حاصل کرنے کے طریقے) مثلا نماز، روزہ، عبادات کا مکمل نظام ہو یا ارتفاقات (دنیاوی معاملات کو بہتر انداز میں چلانے کے طریقے) مثلا سیاسیات، اخلاقیات، معاشیات، عائلی زندگی کے قوانین، جنگ و جدل کے اصول اور انسان دوستی و دشمنی کے اصول و قوانین ہوں) الغرض حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک کامل و اکمل ترین شخصیت ہیں کہ جن کی حیات مبارکہ ہمیں زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی فراہم کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
دوسرا درجہ آتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم نے کامیاب زندگی گزارنے اور دنیاوی و اخروی حوالے سے ترقی حاصل کرنے کے جن اصولوں کو دنیا میں متعارف کروایا ہے، ان کو اپنایا جائے، اور منظم و شعوری جدوجہد کے ساتھ اپنے معاشرے میں ان کو غالب کرنے کی سعی و کوشش کی جائے، اس کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کا عقل مندی اور ہمت کے ساتھ مقابلہ کیا جائے، ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ سے ہر پہلو پر مکمل رہنمائی حاصل کرنی چاہی ہے،خواہ وہ خدائے عز و جل سے تعلق قائم کرنے کے حوالے سے عبادات کا مکمل نظام ہویا قوموں کے نظام ہائے سیاسی و معاشی چلانے ہوں، یا اخوت، ہمدردی اور بھائی چارگی کے پھیلانے کا عمل ہو، بجائے اس کے کہ ہم سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محض چند عبادات تک محدود کردیں یا محض اقترابات میں مقید کردیںیا صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریفات کو منشائے حیات بناتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہوآلہ وسلم کے عملی اور انقلابی کردار کو پس پشت ڈال کر چند میٹھی میٹھی سنتوں کو دین سمجھ بیٹھیں۔
چناں چہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس کامل و اکمل مذہب (فطری قرآنی اصول حیات)کا تعارف کراتے تھے تو محنت اور جدوجہد سے اس کو اپنے معاشرے میں غالب بھی کرتے تھے ، اور اس سے نتائج بھی اخذ کرتے تھے، مگرآج ہم سیرت کا مطالعہ تو کرتے ہیں لیکن اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش نہیں کرتے اور اگر سیرت النبی پر کسی درجے میں عمل کرتے بھی تو محض رسمی، انفرادی اور غیر شعوری بنیادوں پر، جس کے نتیجے میں ہمارے معاشرے کے اندر اجتماعی حوالے سے کوئی خاطر خواہ تبدیلی پیدا نہیں ہوتی، ہم سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآئہ وسلم کو محض اپنی حد تک انفرادیت میں محدود کرلیتے ہیں جب کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا ایک ایک پہلو ہمیں اجتماعیت کی دعوت دیتا ہے، کہ علم، سوچ و فکر اور عمل میں ہمیشہ اجتماعیت کو مدنظر رکھا جائے، اسی بنیاد پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ کا اگر بنظر عمیق مطالعہ کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے نظریے کے مطابق اپنے معاشرے کے ہر شعبے میں بطور نظام دور رس تبدیلیاں کی تھی، اور ایک ایسا معاشرہ کہ جس کا تعلق خدا سے کٹ چکا تھا، دنیاوی معاملات میں دھوکہ دہی، چوری، زنا، ظلم و ناانصافی، حقوق کو غصب کرنا اور نسلی بنیادوں پر زبردست امتیاز پایا جاتاتھا، الغرض اقترابات و ارتفاقات کے فطری قوانین حیات زنگ آلود ہوچکے تھے، ایسے ماحول اور نظام میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آکر ایک انقلاب پیدا کیا، انسانیت کی دبی ہوئی صلاحیتوں کو کام میں لاتے ہوئے عدل و انصاف پر مبنی ایک مثالی معاشرہ تشکیل دیا۔
چناں چہ معلوم ہوا کہ نبوّت کا مقصد محض چند عبادات یا چند اخلاقیات کا سبق دینا نہیں ہے، بلکہ معاشرے کے ہر شعبہ حیات میں مکمل طور پر ظلم کے نظام کو ختم کرکے عدل و انصاف کے نظام کا قیام ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے انبیا ءکرام کی نبوت اور رسالت کے مقاصد کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: لقد ارسلنا رسلنا بالبینات و انزلنا معہم الکتاب والمیزان لیقوم الناس بالقسط، کہ ہم نے انبیا علیہم السلام کو واضح نشانیاں (عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کے اصول)دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا تاکہ انسانیت انصاف پر قائم رہے، اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام کو ارشاد فرمایا: اذہب الی فرعون انہ طغی ،کہ فرعون کی طرف جا و¿کیوں کہ اس نے سرکشی اور ظلم و استبداد کا نظام قائم کر رکھا ہے، اور ہم دیکھتے ہیں کہ انبیا علیہم السلام نے اپنی اپنی قوم میں اسی مقصد اور ٹارگٹ کے لیے جدوجہد اور کوشش کرتے ہوئے ایک سماجی اور معاشرتی تبدیلی کی دعوت دی ہے، اور اسی مقصد کے حصول کے لیے نبی آخر الزمان، رسول خدا، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جدوجہد کی اور سب سے پہلے اپنی سرزمین ایک تربیت یافتہ جماعت کے ذریعے اپنی قوم کے ظالم طبقہ ابوجہل، عتبہ، شیبہ کے انسانیت کش نظام کو ختم کیا اور اس راہ میں جتنی تکلیفیں آپ کو اٹھانا پڑیں اس سے کوئی باشعور مسلم یا غیرمسلم نابلد نہیں ہے، اس کے بعد دوسرے ممالک کی طرف رخ کیا اور صحابہ کرام ؓ کی جماعت کے ذریعے مشرق و مغرب میں انسانی بنیادوں پر ایک عادلانہ نظام قائم کیا۔
آج کا المیہ یہ ہے کہ موجودہ اس دور زوال میں ہمارے ہاں مختلف مکاتب فکر اور پلیٹ فارمز پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے مختلف پہلوں پر بحث و مباحثہ اور گفت و شنید تو کی جاتی ہے، لیکن اس سے سماجی تبدیلیوں کے حوالے سے کوئی رہنمائی نہیں لی جاتی اور نہ اس کو بطور نظام عمل میں لانے کی حکمت عملی اپنائی جاتی ہے، جب کہ محض کسی اعلی شخصیت کی زندگی پر بہترین مکالمے کرلینے سے اس کی عملی زندگی کھل کر سامنے آسکتی ہے اور نہ اس کے مطابق عمل کا کوئی طریقہ کار اپنایا جاسکتا ہے، اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہمارے ملک
پاکستان کو70 سال گزر جانے کے باوجود نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ماننے والی اور آپ کے نام پر جان قربان کرنے والی قوم میں سیرت نبوی کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ تبدیلی نظر نہیں آتی۔
اس تناظر میں آجکے دور زوال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ سیرت نبی ﷺاور اس کے تقاضوں کا صحیح شعور حاصل کیا جائے اور اس پر عمل کی حکمت عملی ترتیب دیتے ہوئے ملک میں قائم فرسودہ، ظالمانہ اور سیرت نبوی سے متضاد نظام کو ختم کر کے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں انسانی بنیادوں پر عدل و انصاف کا نظام قائم کرنے کی جدوجہد اور کوشش کی جائے، تاکہ ہم اپنی دنیا و آخرت کو جنت بنا سکیں اور انسانیت سکون کا سانس لے سکے، یہی انسانیت کی معراج ہے اور تب ہی ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وراثت کا صحیح حق ادا کرسکتے ہیں۔