ملبورن: ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جو سوشل میڈیا پر منفی تاثر پیدا کرنے والی پوسٹیں شیئر کراتے ہیں انہیں اپنی دماغی صحت کا معائنہ کروانے کے لیے فوری طور پر کسی معالج سے رابطہ کرنا چاہیے۔
سوشل میڈیا پر کیے گئے 70 مطالعات کا تجزیہ کرنے کے بعد موناش یونیورسٹی اور ملبورن یونیورسٹی کے ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ ساری خرابیوں کا الزام سوشل میڈیا پر ڈالنا درست نہیں کیونکہ اچھی اور مثبت سوچ رکھنے والے لوگ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اچھی چیزوں ہی میں اپنے احباب کو شریک کرتے ہیں جب کہ وہ لوگ جو کسی دماغی بیماری یا نفسیاتی کیفیت کا شکار ہوتے ہیں وہ عام طور پر منفی اور غلط تاثر پیدا کرنے والی چیزیں یہاں شیئر کرتے ہیں اور ایسی ہی پوسٹوں کو پسند بھی کرتے ہیں۔
اس تحقیق کا خلاصہ صرف اتنا ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال میں یہ بات زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ صارف کی اپنی ذہنی حالت کیسی ہے؛ اور یہ کہ تواتر سے منفی پوسٹیں کرانے والوں کو نفسیاتی معالج سے معائنے کروانے کا مشورہ بھی دیا جاسکتا ہے۔
ماہرین نے فیس بُک، ٹوئٹر اور دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کیے گئے 70 مطالعات کا جائزہ لیا اور دیکھا کہ جو صارفین مثبت سوچ رکھنے والے احباب کے ساتھ (سوشل میڈیا کے ذریعے) رابطے میں رہتے ہیں ان کی ذہنی صحت پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں جب کہ یہ انداز ان کے ذہنی طور پر صحت مند ہونے کا ایک ثبوت بھی ہوتا ہے۔
اس رپورٹ میں یہ تنبیہ بھی کی گئی ہے کہ اگر آپ ذہنی طور پر صحت مند ہیں تب بھی دوسروں سے اپنا مسلسل موازنہ کرتے رہنا آپ میں بے چینی، بے اطمینانی اور ڈپریشن جیسے نفسیاتی مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ یعنی حقیقی زندگی کی طرح سوشل میڈیا بھی ہم پر اثرات مرتب کرتا ہے۔
علاوہ ازیں اگر کوئی شخص کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے مسلسل اپنے احباب سے رابطے میں بھی ہے تو وہ اپنی پوسٹوں، شیئرز، اسٹیٹس اپ ڈیٹس اور تاثرات کے ذریعے دوسروں کو بھی اس بیماری کے اثرات میں مبتلا کررہا ہوتا ہے۔ اس لیے اگر آپ اپنے کسی بھی دوست کو سوشل میڈیا پر ایسے مزاج کا مظاہرہ کرتے دیکھیں تو اس سے قطع تعلق نہ کریں بلکہ اسے ڈاکٹر سے ملاقات کا مشورہ دیں۔