اسلام آباد(یو این پی) چیئرمین سینیٹ کی جانب سے 15دسمبر کو طلب کیے جانے والے ایوانِ بالا کے اجلاس میں کئی اہم معاملات زیرِ بحث آنے کا امکان ہے جن میں پاناما لیکس کی تحقیقات سے متعلق بل اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کا معاملہ بھی شامل ہیں۔ اپوزیشن کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کو پانچ نکاتی ایجنڈے سمیت درخواست جمع کرائی گئی جس میں پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ق) سمیت 36سینیٹ ارکان کے دستخط موجود تھے۔اپوزیشن جماعتوں کے غالب ہونے کی وجہ سے سینیٹ اجلاس میں گرما گرمی کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے جس کی اہم وجہ ایجنڈے میں شامل ایسے نکات ہیں جن پر حکومت اور اپوزیشن کئی ماہ سے آمنے سامنے ہیں۔اپوزیشن کی جانب سے بحث کے لیے جمع کرائے گئے ایجنڈے میں متنازع کمپنیز آرڈیننس 2016کو مسترد کرنے کے لیے قرارداد سمیت قومی سیکیورٹی معاملات پر پارلیمانی کمیٹی کا قیام اور پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) پر خصوصی کمیٹی کی رپورٹ کی منظوری جیسے مطالبات شامل ہیں۔سابق مشیر پٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹر عاصم کا نام ظاہر کرنے کے بجائے ایجنڈے میں اپوزیشن کی جانب سے سیاسی قیدیوں پر بحث کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اپوزیشن کی جانب سے 26ستمبر کو پیش کیا گیا بل پاناما پیپرز انکوائریز ایکٹ 2016 تاحال قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں التوا کا شکار ہے جس کی وجہ حکومت اور اپوزیشن میں ہونے والا ڈیڈ لاک ہے۔کمیٹی کے آخری اجلاس میں چیئرمین کی جانب سے بل پر غور کے لیے توسیع کا مطالبہ کیا گیا تھا تاہم یہ درخواست مسترد ہوگئی تھی اور سینیٹ چیئرمین نے کمیٹی کو اپنی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایات جاری کردی تھیں۔اب اپوزیشن چاہتی ہے کہ کمیٹی کے چیئرمین بل کا اصل ڈرافٹ سینیٹ اجلاس میں پیش کریں۔واضح رہے کہ اس بل میں پاناما لیکس میں وزیراعظم نواز شریف کے بچوں سمیت سیکڑوں پاکستانیوں کی آف شور کمپنیوں کی موجودگی سامنے آنے پر تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ بھی معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو کمیشن کو اختیارات کس قانون کے تحت دیئے جائیں گے کیونکہ کورٹ پہلے ہی 1956کے ایکٹ کے تحت کمیشن کے قیام کو رد کرچکا ہے۔واضح رہے کہ اپوزیشن کے پیش کیے گئے بل میں خفیہ طریقوں سے پاکستان سے باہر بھیجی جانے والی رقم کے فرانزک آڈٹ کی تجویز دی گئی ہے۔تجویز کردہ قانون کے مطابق جن تمام افراد کے نام پاناما پیپرز میں سامنے آئے ہیں وہ کمیشن کے ججز کو اپنے بینک اکانٹ تک رسائی دینے کے پابند ہوں گے، اس بل میں اپوزیشن جماعتوں کے پیش کردہ ٹرمز آف ریفرنسز بھی شامل ہیں جنہیں حکومت پہلے ہی مسترد کرچکی ہے۔