تحریر: رانا اعجاز حسین
رواں موسم سرماکے آغاز سے قبل حکومت کی جانب سے گھریلو صارفین کو سوئی گیس کی فراہمی یقینی بنانے کے دعوے کئے گئے، انڈسٹریل سیکٹر کو سوئی گیس کی فراہمی تین ماہ کے لئے بند کرنے کا کہا گیا ، گیس لوڈ مینجمنٹ پلان کے تحت گھریلو صارفین کو رات دس بجے سے صبح پانچ بجے تک گیس کی فراہمی بند رکھنے کی حکمت عملی اپنائی گئی، مگر اس کے باوجود موسم سرمامیں سردی کی شدت کے ساتھ ہی بحرانوں کی ماری پاکستانی قوم کو ایک بار پھر سوئی گیس پریشر میں کمی کا سامنا کرنا ہے۔ اس سے خواتین خانہ کو کھانا پکانے میں شدید دشواری پیش آرہی ہے۔ بعض علاقوں میں تو سارا سارا دن سوئی گیس بالکل غائب رہتا ہے اور خواتین خانہ کو تہجد کے وقت بیدار ہوکر کھانا بنانا پڑ تا ہے۔ اور رہی سہی کسر کمپریسر استعمال کرنے وا لوں نے پوری کر دی ہے۔ بچے مجبوراً بغیر ناشتے کے سکولوں روانہ ہورہے ہیں۔ اس اذیت ناک صورتحال کے باعث لوگ اور بالخصوص گھریلو خواتین احتجاج پر مجبور ہیں۔ سوئی گیس جو پہلے لوگوں کو ذرا کم مشقت کے ساتھ میسر تھی اب وہ بالکل ناپید ہوتی جارہی ہے ، جس کی ایک بڑی وجہ ماضی میں کثیر تعداد میں سی این جی سٹیشن کا قیام ہے جہاں گیس کی مجموعی پیداوار کا کثیرتعداد میں استعمال بلکہ ناجائز اصراف کیا جا تارہا ہے۔ ملک میں 3400 سے زائد سی این جی اسٹیشنز موجود ہیں، اور ایک سی این جی اسٹیشن سے تقریباً 1 ہزار گھروں کو سوئی گیس کی سپلائی متاثر ہوتی ہے۔ سوئی گیس کے گھریلو صارفین کا کہنا ہے کہ سوئی گیس حکام جان بوجھ کر گھریلو صارفین کے لئے گیس پریشر میں کمی کرتے ہیں۔اس طرح پہلے سے بحرانوں کے نبرد آزما قوم کی اذیت میں مذید اضافہ ہوجاتا ہے۔
واضع رہے کہ ملک میں گیس جوکہ توانائی کا ایک انمول قدرتی ذریعہ ہے اس کو جس بے دردی سے ٹرانسپورٹ میں ضایع کیا گیا اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔بڑی بڑی بسیں اور ویگنیں جن کا کام ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ لوگوں کو لے جانا ہے ، جو استعمال تو سی این جی کرتی رہی ہیں لیکن غریب عوام سے ڈیزل کے کرائے لیتی ہیں۔ امیر لوگ سی سی 1500 سے بڑی گاڑیاں اور ڈرائیور رکھنا تو برداشت کرلیتے ہیں، لیکن گاڑیوں میں پٹرول کی جگہ گیس ڈلوانے کو ترجیح دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ فرٹیلائیزر انڈسٹری کو بھی اپنی ٓپریٹنگ کاسٹ کم کرنے کے لیے مارکیٹ سے انتہائی کم نرخوں پر گیس فراہم کرکے اس قدرتی وسیلے کا بے دریغ استعمال کیا گیا ہے۔ اور کسی نے اس بات کی طرف توجہ ہی نہیں دی کہ آخر ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہئیں؟ اگر ترجیحات کو دیکھا جائے تو سب سے پہلے اس گیس پر حق جو گھریلو صارفین کا ہے اس کے بعد توانائی ، پھر صنعت، پھر فرٹیلائیزر کو آنا چاہیے جب کہ ٹرانسپورٹ کا شعبہ سب سے آخر میں آنا چاہیے، پبلک ٹرانسپورٹ کے شعبے میں سی این جی کا استعمال مکمل بند کردینا چاہیے۔ گیس کے لائن لاسز جو ہمارے ہاں دنیا میں سب سے زیادہ ہیں ان کو کنٹرول کرنے کی بھی شدید ضرورت ہے۔ سوئی گیس پریشر میں اضافے کے لئے گیس کے نئے ذخائر کی تلاش اور اور ان سے بھر پور استفادے کی ضرورت ہے۔ اور جو گیس ضایع کی جارہی ہے اس کو بھی سسٹم میں لانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے، اس مقصد کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کے تعاون سے سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔ اس وقت ملک میں کئی ایسے گیس کے کنوئیں موجود ہیں جہاں گیس تو بہت موجود ہے مگر اس کو پائپ لائن میں لانا ابھی تک سود مند ثابت نہیں ہوا۔ اس مقصد کے لیے بھی ہنگامی اقدامات نا گزیرہیں۔ گیس کے نئے ذخائر کی تلاش، تھرکول منصوبے پر پیشرفت اور بڑی گاڑیوں میں سی این جی ڈلوانے پر پابندی اس بحران کی سنگینی میں کسی حد تک کمی کرسکتی ہے۔ بحیثیت قوم ہم ہمیشہ قلیل مدتی منصوبہ بندی پر توجہ دیتے ہیں اور ہمیشہ طویل المدتی تجاویز کو نظرانداز کرتے ہیں جس کا نتیجہ ایک بحران کی شکل میں ہمیں منہ چڑھا رہا ہوتا ہے۔ حکومت کو اس جانب بھی توجہ دیناچاہئے کہ حکومتی کارکردگی کا گراف گرانے کے لئے دانستہ طور پر تو عوام کو گیس پریشر کی کمی کے عذاب میں مبتلا تو نہیں کیا جارہا۔ گھریلو صارفین کو گیس پریشر میں کمی کے بحران سے نجات اور اس مسئلہ کے دیرپا حل کیلئے حکومت وقت اور ہم سب کو ملکر قوم میں گیس کے استعمال کے حوالے سے اجتماعی شعور بیدار کرنا ہوگا۔ موجودہ حکومت کو گھریلو گیس صارفین کے لیے گیس پریشر میں اضافہ کرنا چاہیے ، تاکہ گھریلو صارفین گیس کی بلا تعطل فراہمی ممکن ہوسکے۔